سال 2017 اپنی چمک اور آب وتاب کے ساتھ رونما ہو چکا ہے۔ دنیا اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں سے لیکر علم و تحقیق کے محاذوں پر نت نئی تبدیلیاں دیکھ رہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں وقت شاید آج بھی جامد ہے۔ ہمارے ہاں کیلنڈروں اور گھڑیوں پر تو وقت اور سال ضرور بدلا ہے لیکن عملی طور پر شاید ہم آج بھی کئی دہائیوں پہلے کے زمانے میں مقید ہیں۔
نئے سال کے بدلنے سے نہ تو وطن عزیز میں بسنے والے کروڑہا باشندوں کی زندگیوں میں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی اہل سیاست اور مقتدر حلقے اس امر کا ادراک کرنے پاتے ہیں کہ نعروں دعووں اور کھوکھلے اعداد و شمار کے ساتھ وقت کو ضائع تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی مثبت راہ کی جانب قدم نہیں بڑھایا جا سکتا۔
پاکستان کے مسائل 2017 کے آغاز پر بھی وہی ہیں جو کہ 1990 میں تھے۔ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے معیثت دانوں کے گھر کا چولہا تو شاید جلتا ہو لیکن ایک سفید پوش یا غریب آدمی کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔ تعلیم صحت روزگار کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں غربت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صحت تعلیم روزگار کے مسائل سے لے کر حصول انصاف آج بھی ایک عام آدمی کیلئے خواب سے کم نہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان آج بھی کرسی اور اختیارات کی جنگ میں گم نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔
جمہوریت کا راگ الاپتے یہ سیاستدان عوام کا خون چوس کر اپنی تجوریاں بھی بھرتے ہیں اور بادشاہوں والی زندگی بھی گزارتے ہیں لیکن ایک عام آدمی کو محض جمہوریت کے لارے لگا کر ایک سراب کے پیچھے بجھاتے رہتے ہیں۔ انفراسٹرکچر ڈیویلوپمنٹ چونکہ کمیشن اور کک بیکس بھی دلواتا ہے اور سیاسی کارکنوں کو بھی ٹھیکوں سے نوازتا ہے اس لیئے ملک میں تعمیراتی کام زور و شور سے جاری رہتے ہیں۔ یوں وطن عزیز دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ایک حصہ شہروں میں بڑے بڑے فلائی اوورز سڑکیں اور میٹرو کی تصویر دکھاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہے جہاں بھوک مفلسی اور رنج راج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بچوں کے دودھ سے لیکر تعلیم تک کا حصول ہو کورٹ کچہریوں کے دھکے ہوں یا پھر اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت یہ سب عام آدمی کو اپنے دم پر کرنا پڑتا ہے۔ ریاست کونہ تو ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ یہ گلا سڑا نظام عام آدمی کیلیے کچھ کرنے کا اہل ہے۔ نواز شریف کی ترجیحات پانامہ لیکس کے کیس میں قانونی گرفت سے بچتے ہوئے اپنی صاحبزادی کو سیاست میں لانچ کرتے ہوئے اپنے کاروباری مفاد کی حفاظت کرنا ہے اور ان کی ساری توانائی اور وقت اسی میں صرف ہوتا ہے۔ عمران خان کو ہر قیمت پر وزیر اعظم بننا ہے اس کیلئے چاہے پس پشت قوتوں کا آلہ کار بنا جائے یا خیرات اور چندے کے پیسوں میں غبن کرکے طاقت کے حصول کی سیاسی لڑائی لڑی جائے سب درست۔
زرداری صاحب اور بلاول نے بھٹو کو زندہ رکھنا ہے تا کہ کم سے کم سندھ کی حد تک کرسی اور اقتدار ان کی جماعت کو میسر رہے۔ مذہبی جماعتوں نے مذہبی چورن کو بیچنا ہے تا کہ مذہب کے نام پر طاقت کی اس بساط میں اپنے وجود کو قائم رکھ سکیں۔ ان سب کی ترجیحات میں صرف اپنے اختیارات اور طاقت کا حصول ہی اول و آخر ہیں عام آدمی اور اس کے مسائل نہ توپہلے کبھی ان کی ترجیحات میں شامل تھے اور نہ ہی آج۔
بڑے بڑے فلائی اوورز اور سڑکیں بھلا کسی سفید پوش آدمی کے بچوں کو دودھ کب دے سکتی ہیں اس کے بچوں کے تعلیم کے اخراجات کب اٹھا سکتی ہیں۔ اس کے گھر کا کرایہ کیسے ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن کمال مہارت سے اسحاق ڈار جیسے منشی اعداد و شمار کے جھوٹ سے اور بیرونی قرضوں سے معیثت کی ترقی کے کھوکھلے اور مصنوعی نعرے بلند کرکے اکثر اس عام آدمی کو گمراہ کیئے رکھتے ہیں۔
پچھلے 70 برس سے یہ عام آدمی یہی سنتا آیا ہے کہ بس ترقی کے اثرات اس تک پینچنے والے ہیں لیکن در حقیقت نہ تو یہ اس تک پہنچے ہیں اور نہ کبھی پہنچیں گے۔ کیونکہ ترقی اس نظام میں صرف عیاروں اور مکاروں اور ان کے چمچوں تک محدود ہے۔ قانون اور انصاف محض کتابوں اور ٹی وی ٹاک شوز تک محدود ہیں۔ زین قتل کیس سے لیکر پانامہ لیکس اور نیازی آف شور کمپنی کے کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اس نظام میں جتنا بڑا جرم اور جتنا طاقتور مجرم ہوگا اتنا ہی یہ نظام اس کو محفوظ کرے گا۔
دراصل جمہوری اقدار اور روایات دور کے وہ ڈھول ہیں جو سسٹم میں پستے عام آدمی کو بے حد سہانے لگتے ہیں اور قیام پاکستان سے آج تک یہ ڈھول بجانے والے سیاستدان اس امر سے نجوبی واقف ہیں کہ ڈھول جتنا زور سے بجایا جائے گا اتنا ہی اس کا شور عام آدمی کی سسکیوں اور آہوں کو دبا کر خاموشی طاری کر دے گا۔ یہ اقتدار کی ہوس کا شکار درندے اس سال بھی دہاییوں پرانا کھیل رچا کر پھر سے کروڑوں افراد کا استحصال کریں گےاپنی اپنی جیبیں بھریں گے اور عوام کو نعروں اور وعدوں کے سہارے یہ سال بھی جیسے تیسے گزارنے کا درس دیں گے۔
اس سال بھی ہزارہا افراد غربت بے روزگاری مفلسی سے تنگ آ کر خودکشی کریں گے لیکن جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ اس سال بھی لاکھوں بچے نہ تو سکول جا پائیں گے نہ ہی کڑوڑوں افراد صحت کی بنیادی سہولتیں اور انصاف حاصل کرنے پائیں گے لیکن جمہوریت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ اس سال بھی نواز شریف آصف زرداری عمران خان اور فضل الرحمان کے اثاثے بڑھیں گے آمدن بھی خوب بڑھے گی اور طاقت اور اختیارات کی جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔
تیسری دنیا میں نیا سال صرف اشرافیہ اور ان کے گرگوں کے ہاں آتا ہے عام آدمی کیلئے نیا کچھ بھی نہیں ہوتا نہ سال اور نہ حال۔ خیر نظام کی غلامی کرتا عام آدمی بھی اپنے حال کا خود ذمہ دار ہے جو انہی سیاسی نوسربازوں سے بار بار امیدیں لگا کر خود اپنے ہاتھوں اپنا اور اپنے مستقبل کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ وطن عزیز کے تمام سیاسی اور مذہبی نوسربازوں کو نیا سال مبارک۔