چکوال کے نواحی گاؤں میں ایک احمدیہ مسجد کو گھیر کر اس پر مشتعل جتھے نے زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور یوں وطن عزیز کا ایک اور تاریک چہرہ دنیا پر پھر سے آشکار ہوا۔ پوری دنیا کو اس خبر اور پھر اس واقعے کے بعد ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرنے والوِں کے بارے میں یہ آشکار ہوگیا کہ پاکستان میں تعصب اور مذہبی جنونیت کے شکارافراد کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
اس واقعے میں ملوث افراد تو برین واش مذہبی جنونی اور تعصب پسند تھے جنہیں سوچ جیسی نعمت میسر ہی نہیں اس لیئے ان سے توقع بھی اسی قسم کے غیرمناسب اقدام کی رکھی جاتی ہے لیکن اس واقعے پر پڑھے لکھے افراد اور دانشوروں کا ردعمل حیران کن تھا۔ جس کی جھلک زاتی بحث مباحث سے لے کر سوشل میڈیا تک دکھائی دی۔ الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس واقعے پر آنکھیں موند کر چپ رہنے کو ترجیح دی جبکہ یہی توقع اردو اخبارات سے بھی ہے۔ یعنی ہم لوگ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اقلیتوں کا جینا حرام کرنے کی کھلی آزادی چاہتے ہیِں لیکن دنیا بھر سے توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں عزت احترام اور مان بخشا جائے۔
اکثر ہم لوگ امریکہ اسرائیل اور بھارت کے متعصبانہ رویوں پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن خود ایک لمحے کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اقلیتوں کا پاکستان میں جینا تعصب بغض اور اجتماعی نرگسیت کے باعث تقریبا ناممکن ہے۔ ہر ممکن طریقے سے ہم لوگ اقلیتوں کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کبھی توہین مذہب کبھی توہین رسالت کبھی توہین وطن کبھی جبرا مذہب تبدیل کروا کر نوعمر بچیوں سے شادی کروا کر ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ہم مذہب کے سچے پیروکار اور وطن پرست بن جاتے ہیں۔
مسیحی برادری کے تہواروں سے نفرت کرنے سے لیکر ان کے چھوئے ہوئے برتنوں میں کھانا پینا تک نہ کھا کر ہم بھرپور طریقے سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ مسیحی ہونے کی پاداش میں یا نالیوں اور گٹر کی صفائی کرو یا پھر چوری چھپے ہمیں شراب بیچو۔ احمدیوں کو تو ہم انسان سمجھتے ہی نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے سے متصادم ہے بلکہ وہ توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جبکہ ہندو بیچارے تو صرف ہم لوگوں کی غلامی پیدا کرنے اور اپنی بچیوں کو وڈیروں اور بااثر افراد کی جنسی تسکین دینے کیلئے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں۔
جس مذہب جس پیغمبر کے نام پر نفرتوں کا اندھا دھند کاروبار یہاں چلایا جاتا ہے ان کی تعلیمات اور پیغامات پر نہ تو کان دھرا جاتا ہے اور نہ ہی عملی میدان میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سجدے کرنے سے اگر رب راضی ہوتا تو فرشتے اور ملائکہ بہت تھے اس کام کیلئے، انسان کا انسان سے تعلق ہونا اس کا درد محسوس کرنا اصل پیغام ہے رب کریم کا جسے نہ تو ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی سوچا جاتا ہے۔ ویسےبھی سوچنے کے لفظ سے ہم لوگ اتنی ہی نفرت کا مظاهره کرتے ہیں جتنا کہ وطن میں بسنے والی اقلیتوں دوارے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات پر واویلا مچاتے یا پھر بھارت اور اسرائیل میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی فکر میں گھلتے ہوئے ہم لوگ انتہائی دوغلےپن اور منافقت کا شکار نظر آتے ہیں۔ دراصل اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اس معاشرے میں سب سے آسان کام ہے اور اس کی وجہ عقیدتوں کا اندھاپن اور مذہب کی دکانداری کرتے توہین کے فتوے صادر کرنے والے بیوپاری ہیں۔ آپ کسی بھی اقلیتی فرقے کو پیروں تلے روند کر رکھ دیں اور صرف جواب میں توہین مذہب کا الزام لگا دیں آپ نہ صرف ہیرو کہلائیں گے بلکہ مال پانی بھی بنا لیں گے۔
دوسری جانب توہین کے الزام کا شکار اقلیتی فرقے کو یا تو سیدھا سیدھا انسان نما جانوروں کے ہاتھ جان سے ہاتھ گنوانا پڑتے ہیں یا پھر سارہ زندگی کال کوٹھڑی میں سڑ کر۔ اقلیتی فرقے تو ویسے بھی ہمارے معاشرے میں سہم سہم کر اور گھٹ کر جیتے ہیں۔ جس معاشرے میں اقلیتوں کو محض اپنی بقا کیلئے بھی روز و شب سسک سسک کر جینا پڑے اسـں معاشرے کو نہ تو مہذب کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی مثال کہیں پیش کی جا سکتی ہے۔
امریکہ برطانیہ یا کسی بھی غیر اسلامی ملک میں کسی مسلمان کو نازیبا کلمات بھی سننے کو مل جائیں تو ہمارے ہاں آہ و بکار مچ جاتی ہے۔ لیکن آفرین ہے ہماری بےحسی پر کہ ہم نہ تو اقلیتوں کو زندہ جلانے پر کچھ بولتے ہیں نہ ان کی بچیوں کو زبردستی کی شادی کروانے پر ہمارے پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی عبادت گاہوں کو جلانے یا مسمار کرنے سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے۔ یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟
بڑی بڑی مارکیٹوں میں آپـکو دکانوں پر آویزاں اشتہارات پڑھنے کوملتے ہیں کہ یہاں قادیانیوں سے لین دین نہیں ہوتا۔ مسیحی یا ہندو برادری کے متعلق اشتہارات تو نہیں ملتے البتہ ان کے بارے میں سوچ یہی پائی جاتی ہے کہ یہ گمراہ اور جاہل لوگ ہیں۔ ہمارا ایمان بس اب اس حد تک رہ گیا ہے کہ کس کو کافر کہنا ہے اور کس کو جہنمی، یا نظر رکھنی ہے کہ کون کیسے نماز پڑ رہا ہے اس کے علاوہ نہ تو جزبہ ایمانی میدان عمل میں جاگتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی سے لیکر ملاوٹ رشوت خوری، چوری، کرپشن، اقربا پروری کرتے وقت پیغمبر کی زندگی اور ان کے بتاے ہوئے اصول یاد آتے ہیں۔
دین مذہب کا پرچار کرتے چورن فروش جانتے ہیں کہ راتوں رات پیسہ کمانے کا اندھا دھند اور آسان طریقہ مذہب کے نام پر ان جاہلوں کو ورغلا کر مشتعل کیئے رکھنا ہے جو سوچ کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دس دس کروڑ کے گھروں میں رہنے والے اور لینڈ کروزروں میں گھومنے والے صبر کا درس دیتے ہیں تو ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ صاحب صبر اپنی ذات سے شروع کیوں نہیں کرتے چندوں اور خیرات کی رقوم سے بٹورے یہ عالیشان گھر گاڑیاں چھوڑ کر عملی طور پر خود صبر کا نمونہ کیوں نہیں بن کر دکھاتے۔ اسی طرح ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر دین کی باتیں بتا کر لاکھوں روپیہ بٹورنے والے خود ایک لمحے کو بھی آسائشیں تیاگنے کو راضی نہیں ہوتے۔
یہی حال پورے معاشرے کا ہے جہاں اپنی اپنی خواہشات کو ہر قیمت پر پورا کیا جاتا ہے لیکن دوسروں کو پرکھنے کیلیئے ایمان اور مذہبی اصولوں کی کسوٹی استعمال کی جاتی ہے۔ یہ رویے آگے چل کر اقلیتوں سے نفرت و تعصب کا باعث بنتے ہیں اور یہ نفرتوں کا گھناونا کھیل یونہی چلتا رہتا ہے۔ اس مکروہ اور گندے کھیل میں انسانی جان کی قیمت کوڑیوں برابر بھی نہیں ہوتی۔ افسوس اس امر کا ہے کہ اردو میں بولنے لکھنے والے زیادہ تر دانشور صحافی تجزیہ نگار اور اینکرز خوف لالچ یا اپنے اپنے عقائد کی وابستگی کی بنا پر اس حساس موضوع پر لکھنے بولنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔
جس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے طبقے کا یہ حال ہے تو بے چاری اقلیتوں کے ساتھ کیا قیامت گزرتی ہوگی۔ دنیا اب فاصلوں کو سمیٹتی ہوئی ایک گاؤں بن چکی ہے جہاں انٹرنیٹ اور میڈیا کے زریعے ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ ایسے میں زمانہ جدید میں زمانہ جاہلیت کے انسانوں کی مانند جینا ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے وطن میں احمدیوں مسیحیوں ہندووں یا شیعوں کا قتل عام کیا جآئے، ان کا استحصال کیا جائے اور پھر یہ تصور کیا جائے کہ ہمیں دنیا مہذب سمجھے گی اور ہمارے عقائد کو عزت و تکریم دے گی۔
منافقت کی گرد سے اٹے ہوئے معاشرے نفرت کے تعفن کو جنم دیتے ہیں اور یہ بدبو زندہ معاشروں کو پریشان بھی کرتی ہے اور بے چین بھی۔ نفرتوں کا تعفن معاشروں کو دفن کر دیتا ہے اور آس پاس کے زندہ معاشرے اس پر مٹی ڈال کر آگے کی جانب سفر کرتے ہیں۔