یہ اندرون لاہور کے ایک مشهور بازار میں ایک دودھ کی دوکان تھی۔ دوکان پر بے پناہ رش تھا اور لوگ سردی بھگانے کیلئے گرم دودھ اور جلیبیوں سے لطف اندوز پو رہے تھے۔ ایسے میں ایک خاتون اپنے ایک کمسن بچے کے ساتھ جھجکتے جھجکتے لوگوں سے اپنے بچے کیلئے دودھ مانگ رہی تھی۔ کوئی اسے جھڑک دیتا اور کوئی اس پر فقرے کس کر آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتا۔
ایسے میں ایک گاڑی سے قریب 60 برس کی عمر کا بوڑھا شخص اترا اور دودھ جلیبی کا آرڈر دینے کے بعد اس خاتون سے مخاطب ہوا کہ تم مانگتی کیوں ہو مسواک یا پین بیچ لیا کرو خاتون نے جواب دیا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اور گھر میں مزید تین کمسن بچے ہیں جنہیں رات میں تنہا چھوڑنا ممکن نہیں۔ غالبا دن میں وہ خاتون کسی فیکٹری میں کام کرتی تھی۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد اس بوڑھے نے اس خاتون کو گاڑی میں بیٹھنے کی پیشکش کی اور کہا میں تمہیں دودھ بھی لے دیتا ہوں اور گھر بھی چھوڑ آتا ہوں۔
خاتون نے زرا پیچھے ہٹتے ہوئے کہا نہیں آپ دودھ لے دیجئے میں خود چلی جاؤں گی لیکن وہ بڈھا نہ مانا۔ اور اصرار کرنے لگا کہ وہ خاتون کو گھر تک چھوڑ کر آئےگا۔ اتنے میں اس بڈھے اور خاتون کی بات چیت سن کر لوگ ان کی طرف متوجہ پو چکے تھے۔ کوئی اس گفتگو سے محظوظ ہو رہا تھا اور کوئی خاتون کے کیرکٹر پر پھبتیاں کس رہا تھا کوئی اس خاتون کو فراڈیا قرار دے رہا تھا۔ غرض ہر کوئی اپنی دانست میں اس عجیب و غریب صورتحال سے محظوظ ہو رہا تھا۔ اس عورت نے بچے کا ہاتھ تھاما اور واپس جانے لگی تو اس بوڑھے نے راستہ روک لیا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے اسے بولا کہ وہ فراڈیوں اور پیشہ ور بھکاری ہے اور اب اس عورت کو وہ قانون کے حوالے کرے گا۔
میں کافی دیر سے چپ چاپ ایک کونے میں دودھ کا پیالہ پیتے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب وہ بڈھا بالآخر اس خاتون کو زچ کرنے پر اتر آیا تو میں نے مداخلت کرتے ہوئے اس کو واپس جانے کو بولا۔ بڈھا پہلے تو لاہوری رنگ بازوں کے سٹائل میں غرایا مگر پھر جب میری آواز بلند ہوئی تو چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ کر دودھ پیئے بنا روانہ ہوگیا۔ خاتون نے بمشکل اپنے آنسو روکے اور جانے لگی تو میں نے اسے روک کر دودھ خرید دیا۔ وہ خاتون تھوڑا جھجکی اور بولی کہ اگر اسے بچوں کیلئے کھانا مل سکے تو مہربانی ہوگی۔ میں نے جیب ٹٹولی اور آخری ہزار کا نوٹ اس خاتوں کے حوالے کر دیا گو ہزار روپے کی آج کے دور میں وقعت تو رتی برابر بھی نہیں لیکن بے روزگاری کے ایام میں ان کا بڑا آسرا ہوتا ہے۔
خیر اس خاتون نے دودھ اور پیسے لیئے اور بچے سمیت چلی گئی۔ اتنی دیر میں بڈھے اور میری بحث سن کر وہاں موجود افراد میری طرف متوجہ ہو چکے تھے ان میں سے چند ہال روڈ کے تاجر حضرات بھی تھے۔ چونکہ بڈھے سے بحث کے دوران مجھے میڈیا سے وابستگی کا حوالہ دینا پڑا تو وہ تاجر میرے ارد گرد بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز کیا اور بولا آپ اچھے بھلے پڑھے لکھے انسان ہیں اور میڈیا سے بھی وابستہ ہیں آپ کو کیا ضرورت تھی کہ پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑاتے۔ میں نے اس کے سوال کو اگنور کرتے ہوئے مسکرا کر اس سے اس کا تعارف مانگا اور کچھ ہی دیر میں وہ پورا گروہ اپنا تعارف کروانے لگ گیا۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ ایسی عورتیں بدچلن ہوتی ہیں جو رات کے اس پہر دودھ خریدنے کا بہانہ کرکے گاہکوں کی تلاش کرتی ہیں۔ میں نے جواب دیا گویا آپ کی سوچ اور خیالات کے مطابق پھر تو لاہور شہر کی آدھے سے زیادہ عورتیں بدچلن ہیں کیونکہ رات کے اس پہر آدھے سے زیادہ لاہور کی خواتین باہر اپنی فیملی یا بچوں کے ساتھ کھانے پینے سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور آپ کی اور میری بیوی بہن یا بیٹی کو اگر ہماری غیر موجودگی میں بچوں کو ہسپتال لے جانا پڑے یا ان کی کوئی چیز لانی پڑے تو کیا وہ بدچلن ہو جاتی ہیں؟
شاید ان کو میرا جواب ناگزار گزرا اور دوسرے تاجر نے ارشاد فرمایا کہ آپ نے خوامخواہ دودھ لے کر دیا نا جانے وہ مستحق تھی بھی یا نہیں اتنے میں اس کے ایک اور ساتھی نے لقمہ دیا کہ ارے رہنے دو یہ میڈیا والے ہیں ان کو پیسوں کا کیا مسئلہ۔ میں مسکرایا اور جواب دیا کہ آج کل بے روزگار ہوں اور کام کی تلاش میں ہوں جن پیسوں سے اسے دودھ اور کھانا لے کر دیا وہ آخری پیسے تھے۔ رہی بات مستحق ہونے کی تو ہم جب اپنے رب سے کوئی دعا مانگتے ہیں یا کوئی چیز مانگتے ہیں تو کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم اس دعا کے قبول ہونے یا اس چیز کو پانے کے مستحق بھی ہیں۔
کیا رب نے کبھی ہماری خواہشات اور ضروریات پورا کرتے ہوئے ہم سے پوچھا کہ ہم ان چیزوں کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔ یہ جواب سننے کے بعد تاجروں کا وہ گروہ زرا سا کھسیانا ہوا اور پھر اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔ لیکن ان رویوں نے میرے ذہن میں کئی سوالات کھڑے کر دئیے۔ وہ خواتین جھوٹی تھی یا سچی تھی ایک الگ معاملہ تھا لیکن اس کو ایک بوڑھا ہراساں کر رہا تھا اس کو بہلا پھسلا کر گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا بالفرض اس خاتون کی جگہ کوئی سیکس ورکر بھی ہوتی تو اس بوڑھے کو یہ اجازت نامہ کس نے دیا تھا کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف اس کو گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کرتا اور وہاں موجود دیگر لوگوں کو تماش بینی کا یہ لائسنس کس نے تھمایا تھا کہ وہ اس خاتون اور اس کے بچے کی محرومی کا تماشہ دیکھتے اور مزاق اڑاتے۔
یہ رویے اس قدر دوغلے اور منافقانہ ہیں کہ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ ہم سب کسی کوٹھے میں بستے ہیں جہاں ہر سو تماش بین موجود ہیں جنہیں صرف تماشہ دیکھنے سے غرض ہے خواہ وہ تماشہ کسی کی محرومی کا ہو یا کسی کی مجبوری کا۔ اپنے اپنے انداز اور بساط کے مطابق بس تماشہ دیکھنے کی لت کے شوقین یہ افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کو بھی پرکھنے اور اس کی ذات کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق تو اس رب کائنات کے پاس ہے۔
شاید ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس رب کے فیصلوں کا اختیار بھی اپنے پاس رکھنے کی کوشش میں اپنے معاشرے اور اپنی سوچوں کو دوغلا بنا دیا ہے۔ مساجد میں ماتھے ٹیکنے اور سجدہ کرنے کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں بے ایمانی کی بھی کھلی چھوٹ ہے اور کسی کی مجبوری یا کسی خاتون یا لاچار کا تماشہ بنانے کی بھی خوب آزادی ہے۔ رویوں کی درستگی از حد ضروری ہے اور اس ضمن میں شاید ارباب اختیار اور پالیسی میکرز کو سر جوڑ کر یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ تماش بینوں کے اس ہجوم کو ایک مہذب قوم اور ایک مہذب معاشرہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔