امریکی صدارتی انتخابات پر پوری دنیا کی نظر ہوتی ہے۔ امریکہ میں بننے والی پالیسیاں چونکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لیئے امریکی صدر کو ایک طرح سے پوری دنیا کا ڈی فیکٹو صدر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بار امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے نہ صرف عالمی دنیا کو حیران و پریشان کر دیا بلکہ خود امریکی معاشرہ بھی منقسم نظر آیا۔ ایک ایسا امیدوار جو نہ صرف تعصب پسندی اور شدت پسندی کا پرچار کھلے عام کرتے دکھائی دیا بلکہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مرتکب بھی ٹھہرا اس کی صدارتی انتخابات میں جیت یقینا خود امریکہ کیلئے کوئی نیک شگن نہیں۔ لیکن دوسری جانب ایک چیز ضرور طے ہوگئی کہ انتخابی نتائج نہ تو الیکٹرانک میڈیا کے زریعے حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے۔
امریکہ میں میڈیا تمام تجزیات اور سروے میں ہیلری کلنٹن کو فاتح قرار دے رہا تھا لیکن ووٹرز نے ووٹ کی قوت سے یہ تمام تجزیات اور اعداد و شمار غلط ثابت کر دیئے۔ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ری پبلیکنز نے امریکی ایوان نمائندگان میں بھی اکثریت حاصل کر لی۔ پاکستان میں ٹرمپ اور اس کی جماعت کی کامیابی سے بھی مجموعی سیاسی حالات کے گہرے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان دوارے ری پبلیکنز کی پالیسیاں نہ صرف سخت ہوتی ہیں بلکہ ری پبلکنز پاکستان میں جمہوری نظام میں بھی کچھ خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ ری پبلکنز کا جھکاؤ بھی عمومی طور پر بھارت کی جانب زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو یقینا اب خارجہ پالیسی کے محاذ پر پیجیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب عرب ممالک کو بھی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے معاملات طے کرنے میں دشواری ہوگی۔ خیر خارجہ پالیسیاں بنانے والے یقینا لابنگ کر چکے ہوں گے اور ٹرمپ کے ساتھ معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن ٹرمپ اور ہیلری کے انتخابی دنگل نے امریکہ کے نظام پر بھی کچھ گہرے سوالات چھوڑے ہیں۔ پاکستان میں نام نہاد تجزیہ نگاروں کے دعووں کے برعکس ٹرمپ حقیقتا امریکی اسٹیبلیشمنٹ کا نمائندہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے صرف 11 روز قبل ایف بی آئی نے ہیلری کلنٹن کا ای میل سکینڈل دوبارہ سے کھولا اور اس سکینڈل کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی نہ صرف مقبولیت میں نمایاں کمی آئی بلکہ انتخابات میں بھی شدید دھچکا لگا۔ پینٹاگون اور سی آئی اے کی صدارتی انتخابات میں مداخلت یہ اشارہ دیتی ہے کہ امریکی انتخابات بھی اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت سے مبرا نہیں ہوتے۔ اسی طرح وہ تجزیہ نگار جو ٹرمپ کی جیت کو اسٹیٹس کو کی ہار قرار دے رہے ہیں شاید وہ امریکہ کی سیاست سے بالکل نابلد ہیں۔
سٹیٹس کو ایک ارب پتی بزنس ٹائیکون نہ تو توڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کےخلاف کوئی اقدام اٹھا سکتا ہے۔ دوسرا اہم سوال امریکہ کے لبرل اور آزاد خیال معاشرے کے جانے پر اٹھتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت کا باعث سفید فام نسلی باشندے تھے اور یہ انتخاب نسلی بنیادوں پر لڑا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ اب کم سے کم شدت پسندی اور تعصب کا لیکچر پاکستانیوں کو نہیں دے سکتا۔ پاکستانیوں نے ہمیشہ ووٹ کے ذریعے شدت پسندوں اور تعصب پسندوں کو مسترد کیا۔ اسی طرح ٹرمپ کی جیت نے امریکہ میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی اضطراب میں ڈال دیا ہے اور نتائج نے ثابت کیا ہے کہ صدارتی انتخاب نسلی اور تعصبی بنیادوں پر اقلیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باآسانی جیتے جا سکتے ہیں۔ ان نتائج نے امریکہ میں عورتوں کے اصل مقام پر بھی کئی سوالات کھڑے کیئے ہیں۔
ایک طرف امریکہ نے خاتون صدر کو منتخب نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی اور دوسری جانب ایک ایسے شخص کو صدارت کا منصب سونپا جو خود عورتوں کو نہ صرف کمتر اور معمولی سمجھتا ہے بلکہ کئی خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کر چکا ہے۔ ٹرمپ کے شدت پسندانہ رجحانات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اگر ایسے خیالات کا حامل شخص پاکستان میں کسی اہم منصب پر فائز ہوتا تو امریکی دانشوروں اور میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ ایسے شدت پسند شخص کو امریکہ کا صدر بنتا دیکھ کر ایک طرف یہ یقین بھی ہوا کہ پاکستانی ووٹرز نہ صرف امریکی باشندوں سے زیادہ باشعور ہیں بلکہ ہمیشہ بیلٹ کی طاقت سے شدت پسند جماعتوں اور شخصیات کو مسترد کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف مذہبی جماعتوں کی انتخابات میں ناکامی اور عمران خان کی پرتشدد سیاست کی ناکامی واضح ثبوت ہیں۔ خیر اخلاقی طور پر بلندی کا دعوی کرنے والے امریکی معاشرے کو اب خود دنیا کو وضاحتیں پیش کرنا پڑیں گی کہ ایک غیر سنجیدہ اور متعصب شخص کیونکر دنیا میں امن و استحکام لا پائے گا۔ اور یہ آسان نہیں ہوگا ایک طرف ٹرمپ کو اپنے سفید فام ووٹرز کو مطمئن کرنے کیلئے اپنے پاپولسٹ نعروں پر عمل کرنا ہوگا اور دوسری جانب دنیا میں اپنے امیج کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں اس سوچ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جو بنیادی انسانی اقدار اور انصاف کو فوقیت دیتی تھی اور جس میں کوئی نسلی مذہبی تعصب نہیں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی سرزمین ساری دنیا کے باشندوں کیلئے خوابوں کو سچ کرنے اور معیار زندگی بلند کرنے کے مواقع کے طور پر جانی پہچانی تھی۔ لیکن ٹرمپ کی جیت نے ثابت کیا کہ امریکی معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں بسنے والے باشندے اب دوسرے ممالک سے وہاں آ کر بسنے والوں سے نفسیاتی طور پر خوفزدہ ہیں کہ یہ لوگ ان سے روزگار کاروبار چھین رہے ہیں امریکی باشندوں کے اسی خوف کو بنیاد بنا کر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم چلائی اور وہ امریکی سفید فام باشندوں کی اکثریت کو یقین دلوانے میں کامیاب ہوگیا کہ امریکہ کی کلچرل شناخت خطرے میں ہے اور اس کو بچانے کیلیے نسلی سفید فام شخص کا بطور امریکی صدر منتخب ہونا بے حد ضروری ہے۔
شاید بہت سے پاکستانی تجزیہ کار اور دانشور اس حقیقت کو دیر سے سمجھنے پائیں گے کہ انگلستان میں بریکسیٹ کے حق میں ووٹنگ اور امریکہ میں ٹرمپ کی انتخابی جیت تبدیلی نہیں بلکہ دنیا میں نسل پرستی اور تہذیبی و نسلی بنیادوں پر ایک نئی جنگ کا آغاز ہے۔ امریکہ جیسے آزادانہ معاشرے میں ٹرمپ جیسے شخص کی جیت ساری دنیا کیلئے نہ صرف ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ امریکی معاشرے میں بڑھتی ہوئی نسلی و تعصبی سوچ کا واضح اشارہ بھی ہے۔
امریکہ جیسے معاشروں کا تنگ نظری یا نسلی تعصب کی طرح واپس جانا پوری دنیا کیلئے خطرے کی نشانی ہے۔ تبدیلی خوف کے بل پر نہیں بلکہ امید کے دم پر آتی ہے۔ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کو خوف میں مبتلا کرکے انتخاب جیتا نا کہ امید کی بل پر۔ امریکی سیاست کے اس کردار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو منقسم کیا یا یکجا کیا اس کا جواب امریکی معاشرے کو جلد مل جائے گا۔