1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو

تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو

نادیدہ قوتوں کو وطن عزیز میں سیاست سے اس قدر رغبت اور دلچسپی ہے کہ میدان سیاست میں ہمہ وقت ایک سے ایک نیا طوفان کھڑا کرنے کے فن میں یکتا ہو چکی ہیں۔ منتخب سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنا اور انہیں پچھاڑنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ وطن عزیز میں پہ درپے دھرنے دلوانے کے بعد بھی جب موجودہ حکومت کو گرایا نہ جا سکا تو بلوچستان کی صوبائ اسمبلی سے نوابوں اور سرداروں کو ورغلا کر وزیر اعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اہتمام کر لیا گیا۔ جس تعداد میں روز بروز استعفے بلوچستان کابینہ کے ارکان کی جانب سے پیش کئیے رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہرچند بھی مشکل نہیں ہے کہ اس سارے کھیل کی پشت پر کون موجود ہے۔ بلوچستان میں اچانک سے اٹھنے والا یہ بحران مصنوعی ہے اور انہی قوتوں کا پیدا کردہ ہے جو ہر ممکن طریقے سے منتخب حکومت کو گرا کر اپنے مہروں کو اقتدار کی شطرنج بادشاہ بنانا چاہتی ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون کی حکومت کو ختم کرنے کہ کوششوں میں ایک جانب فرشتوں نے عمران خان، طائر القادری اور آصف آزداری پر مبنی ایک ٹرائیوکا تشکیل دے دیا ہے جو جلد ہی سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دے گا۔ دوسری جانب بلوچستان میں جس طریقے سے مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی کو "ورغلایا " جا رہا ہے اور ان کے سوئے ہوئے "ضمیر " جگائے جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر مشہور زمانہ شعر کا مصرعہ یاد آ جاتا ہے کہ " "۔ نہ جانے اپنی ہی منتخب حکومتوں کو کمزور کرنے اور گرانے سے ہمارے وطن عزیز کے "فرشتوں " کو کیا تسکین ملتی ہے؟ اور بار بار یہ کھیل کھیلنے سے آخر وطن عزیز کی کونسی ایسی خدمت ہو جاتی ہے جسے ہمارے جیسے کم فہم حضرات سمجھنے سے بالکل قاثر ہیں۔ خیر بلوچستان میں نواب ثناالہ زہری اپنی حکومت بچا پاتے ہیں کہ نہیں اس کا دارومدار جے یو آئ ایف پر ہو گا۔ یعنی مولانا فضل الرحمان کے پاس اس وقت ترپ کا پتہ ہے۔ اب مولانا اپنا پتہ فرشتوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی کی تحلیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں یا پھر محض ثنا الہ زہری کی تبدیلی پر اکتفا کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کو اس بحران سے نکالنے میں کردار ادا کرتے ہیں اس کا فیصلہ مولانا دونوں فریقین میں سے سب سے اچھی اور پرکشش ڈیل دینے والے کے حق میں ہی کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان ایک کایاں اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مولانا صاحب ہوا کا رخ دیکھ کر اور پہچان کر ہی کسی فریق کی جانب جھکاو کرتے ہیں۔

بلوچستان میں ایک ایسے وقت میں وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کا پیش کیا جانا جب سینیٹ کے انتخابات میں تین ماہ سے بھی کم مدت کا عرصہ بچا ہے واضح طور پر سینیٹ کے انتخابات کو کھٹائ میں ڈالتا دکھائ دیتا ہے۔ یعنی فرشتے بضد ہیں کہ سیاسی انجینئرنگ کرتے ہوئےمسلم لیگ نون کو سینیٹ میں اکثریت لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ ایک لمحے کو فرض کرتے ہیں کہ فرشتے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں صوبائ اسمبلی کی تحلیل کے بعد سینیٹ انتخابات موخر ہو جائیں گے اور ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے فرشتوں کی توقعات کے عین مطابق دوسری جانب زرداری قادری اور عمران بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور یوں آئینی بحران اور احتجاجی تحریک کا خاتمہ حکومت کے خاتمے اور قبل ازوقت انتخابات کی صورت میں ہو جائے۔ لیکن کیا اس کے بعد مسلم لیگ نون ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ایسٹیبلیشمنٹ کے مہروں کو اگلی حکومت چلانے دے گی ? اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اپوزیشن کی سیاست نواز شریف سے بہتر اس وقت ملک میں کوئ نہیں کر سکتا اور یقینا دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ پھر نواز شریف کی جانب سے بھی شروع ہو گا جو اگلی متوقع کٹھ پتلی حکومت کو مفلوج کر سکتا ہے۔ شاید فرشتوں کو یہی مطلوب پے کہ یہ تماشہ جاری ساری رہے اور وہ سب کا قد چھوٹا دکھا کر خود طویل القامت دکھائ دیں۔

دوسری جانب ایک صورتحال یوں بھی ہو سکتی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں نواب ثنا الہ زہری کی قربانی دیکر صوبائ اسمبلی کی تحلیل کو بچا لیا جائے۔ اس صورت میں سینیٹ انتخابات کو درپیش خطروں میں سے ایک خطرہ کم ہو جائے گا۔ بلوچستان چونکہ گوادر کی بندرگاہ کے باعث بین الاقوامی طور پر اہمیت کا حامل ہے اس لئیے اگر فرشتوں کی خیال اور خواہشات کے برعکس مسلم لیگ نون اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی نے اگر احتجاج یا جلسوں جلوسوں کا راستہ اپنایا تو چین کو اس حوالے سے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان میں جاری علحدگی پسندوں کی تحریک کے تناظر میں بھی احتجاج خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے ہی امریکہ پاکستان کی دفاعی امداد بند کرتے ہوئے مختلف پابندیاں لاگو کرنے کا فیصلہ کر رہا ہے، ہمارے "یار لوگوں" کو امریکہ دوارے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومت کو گرانے کی فکر لاحق ہے۔ فرشتے چونکہ بین الاقوامی پابندیوں کے ڈر کے باعث جمہوریت کی بساط لپیٹ کر سامنے سے آ کر حکمرانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئیے شاید "کنٹرولڈ جمہوریت" کے ذریعے اپنی کٹھ پتلیاں اقتدار میں بٹھا کر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی پرانی عادت اور شوق کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچستان میں نامعلوم نمبروں سے کال کر کے سیاسی جماعتوں کے اراکین کو مختلف طریقوں سے ڈرا کر یا للچا کر وفاداریاں تبدیل کروانے والے فرشتے نہ جانے کب اس حقیقت کو سمجھیں گے وہ بذات خود وطن عزیز کے بے شمار مسائل کی جڑ ہیں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ تو گزشتہ ستر برسوں سے فرشتے وطن عزیز میں کرتے ہی آئے ہیں لیکن اس اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں وطن عزیز کے سیاسی و نظریاتی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے۔ بنگالیوں نے فرشتوں کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان سے علحدگی اختیار کر لی۔ بلوچستان میں علحدگی کی تحریک آج بھی جاری ہے۔ اور اب پنجاب سے بھی صدائےاحتجاج بلند ہو چکی ہے۔ ان حالات میں فرشتوں کی چھری اپنوں کی ہی گردن پر چلتی رہی تو شاید ان کی انا کی تسکین کی تشفی تو اس سے ہو جائے لیکن وطن عزیز پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ناپسندیدہ شخصیات کو غدار یا کرپٹ قرار دے کر ان کی سیاست یا نظریات کو ختم کر دینا اتنا ہی آسان کام ہوتا تو آج بھٹو کی پیپلز پارٹی ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا وجود نہ ہوتا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ نون بھی ایک سیاسی حقیقت ہے اور فرشتوں کی تمام تر کاوشوں کے باوجود نواز شریف کی عوامی مقبولیت پنجاب میں کسی بھی طور کم نہیں ہونے پائ۔ البتہ اس کے برعکس سیاسی انجینئرنگ اور اس کی پشت پر موجود قوتیں بے نقاب ہو کر سامنے آ گئیں۔

اگر سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے حکومتوں کے سیاسی قتل کی اس ریت کو ختم نہ کیا گیا تو ہم شاید آنے والی کئ دہائیوں میں بھی اسی طرح گول دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ اور دائروں میں بڑھنے کا عمل کبھی بھی مسافت کے کٹنے یا رستوں کی طوالت کم ہونے کا باعث نہیں ہوا کرتا۔ بقول امجد اسلام امجد "دائروں میں چلنے سے دائرے تو بڑھتے ہیں۔ فاصلے نہیں گھٹتے "۔ گزشتہ ستر برسوں سے ایک ہی دائرے میں مقید رہنے کا نتیجہ کمزور جمہوری و سرکاری اداروں اور ایک بے ہنگم سے ہجوم نما معاشرے کی صورت میں ہم نے بھگتا ہے۔ اب فرشتوں کو رحم کرتے ہوئے بلوچستان کی اسمبلی کے ذریعے نظام میں نقب لگانے سےگریز کرنا چائیے۔ وگرنہ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل جمہوریت کے ساتھ معاشرے کو بھی گھن کی طرح کھا جائے گا۔


عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔