16 دسمبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر ہمیشہ ملکی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ہم سے پچھلی نسل اس دن ہمیں سقوط ڈھاکہ کا غم دے کر گئی اور ہم اپنی آنے والی نسل کو سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے سینکڑوں بچوں کا بوجھ۔ ایک ایسا ازیت ناک کرب اور درد جو ہمارے بچوں کو جھیلنا ہے۔
انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ smallest coffins are the heaviest یعنی سب سے چھوٹے کفن کا بوجھ سب سے بھاری ہوتا ہے۔ سلام ان تمام بچوں کو جو ایک بزدل ترین دشمن کے ہاتھوں بہادری سے شہید ہوئے۔ ان تمام بچوں کے والدین کو بھی سلام جن کا حوصلہ چٹانوں سے بھی سخت اور آسمان سے بھی اونچا ہے جو اپنے ننھے منے لال کھو کر بھی ہمت سے زندگی کی جنگ میں مصروف ہیں اور دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دے رہے ہیں کہ زندگی جینے کیلئے جس حوصلے کی ضرورت ہے، وہ پست سوچ رکھنے والے شدت پسندوں کے پاس نہیں ہو سکتا۔
سلام ان تمام بچوں کو جو اس سانحے کے بعد زندہ بچ گئے اور پھر سے آرمی پبلک سکول میں تعلیم حاصل کرکے تمام دہشت گردوں کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرتے ہوئے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ زندگی کی رمق بچوں کے قہقہے اور علم و تحقیق کی جستجو کو بزدلانہ کاروائیوں اور نہتوں بچوں کو قتل کرنے سے نہیں دبایا جا سکتا۔ سلام ان تمام بہادر سپاہیوں کو جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن میں جام شہادت نوش کرکے بزدل شدت پسندوں کو پیغام دیا کہ وطن کی مٹی سے پیار کرنے والے سرفروش جان کا نزرانہ پیش کرکے ان کے مزموم مقاصد ناکام بناتے رہیں گے۔
یقینا 16دسمبر کے دن ہم سب ان بچوں کی یاد میں تقریبات منعقد کرکے دہشت گردوں کو ایک پیغام ضرور پہنچائیں گے کہ ہمارا حوصلہ ٹوٹا نہیں ہم ان بچوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیں گے۔ لیکن آج کے دن کچھ سوال ہمیں خود سے بھی کرنے ہوں گے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کیلئے اس کی تہہ تک پہنچنا لازم ہوتا ہے۔ آخر آرمی پبلک سکول میں رونما ہونے والے اس سانحے کی کیا وجہ تھی اور ہم نے اس کے بعد کیا سیکھا؟
ان امور کی نشاندہی ازحد لازم ہے۔ کہتے ہیں قدرت جب کسی فرد یا معاشرے سے ناراض ہوتی ہے تو اس سے احساس چھین لیتی ہے۔ انسان اور جانور میں فرق سوچنے اور دوسروں کا احساس کرنے کا ہوتا ہے۔ اور ہم اس احساس نامی لفظ سے مکمل نا آشنا اور نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ دو برس قبل جو قیامت پشاور میں آرمی سکول کے بچوں پر ٹوٹی تھی شاید کسی زندہ یا احساس رکھنے والے معاشرے میں ایسا ہوتا تو وہ معاشرہ اس سانحے کی وجوہات پر غور کرتا اور پھر ان وجوہات کو سرے سے ختم کرنے کے لیئے دن رات ایک کر دیتا۔ مگر ہم نے بے حسی کی چادر پہن کر آنکھیں اور کان بند کرکے جینے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ مجال ہے کہ ہم میں سے کسی کے بھی کان پر جوں تک رینگی ہو۔
اب ان بچوں کی برسی پر ہم سب کمال ڈھٹائی سے انہیں یاد کرنے کیلئے ایک عجیب و غریب تماشہ لگائیں گے۔ نیوز چینلز ریٹنگز بڑھانے کیلئے جوق در جوق نمائندے ان بچوں کے والدین کے پاس بھیجیں گے۔ اور آپ کو برسی کے موقع پر جزبات سے بھرپور پروگرامز دکھائے جائیں گے تا کہ آپ ٹی وی سکرینوں پر نظریں جمائے رکھیں اور خوب ریٹنگز ٹی وی چینلز کو مہیا کریں۔ کم بخت منافع کی جنگ میں ریٹنگز بھی درد اور دکھ بیچ کر بڑھائی جاتی ہیں اور خوب پیسہ کمایا جاتا ہے۔ آی ایس پی آر شاید ایک اور نیا گانا بھی ان شہید بچوں کے نام پر جاری کر دے۔
فہم سے بالاتر ہے کہ افواج جنگی میدان میں یا دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے موسیقی کی دھنیں بنانے میں کیوں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ اگر گانوں سے قوم کا جزبہ ایمانی بڑھانا مقصود ہے تو ازراے کرم گانوں کے بجائے ان حیوانوں کو گرفتار کرکے قوم کے سامنے پیش کیا جائے جنہوں نے یہ انسانیت سوز واقعہ پلان کیا تھا۔ جو بچے اس سانحے کا شکار بنے انہیں کمزوری نہیں طاقت میں بدلیں۔ یہ دہشت گرد خوف قائم کرکے کامیاب ہوتے ہیں اس خوف سے نجات حاصل کیجئے۔ اٹھیے اور اپنے اپنے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر دہشت گردوں کو برا بھلا کہنا اور نظام کو کوسنا بند کیجئے۔ ان بچوں کا بدلہ لینا ہے تو شدت پسندی کو قبول کرنے سے انکار کیجئے۔ ان بچوں کو قتل کرنے والی سوچ اور نظرہے کو ختم کیجئے۔
جنگی میدان میں عسکری قیادت کو دشمن کا بھرپور مقابلہ کرکے اسے تہس نہس کر دینا چاہیے لیکن یہ گانے بنانا خدارا بند کیجئے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو ان گانوں میں دشمن اور بدلہ جیسے الفاظ سکھا کر ایک طرح سے آپ بھی شدت پسندی کو فروغ دے رہے ییں اور ننھے ذہنوں میں جنگ اور بدلے کو گلوریفای کر رہے ہیں۔ اگر دہشت گردی اور شدت پسندی محض نغمے اور موسیقی کی دھنیں بنا کر ختم کی جا سکتی تو امریکہ کے پاس ہالی وڈ جیسی صنعت ہے جہاں اعلی پائے کی موسیقی ترتیب دی جاتی یے پھر تو امریکہ کب کا موسیقی کی صنعت پر رقم خرچ کرکے اس ناسور سے نجات حاصل کر چکا ہوتا۔
آرمی پبلک سکول کے بچوں کی برسی پر قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس بھیانک واقعے میں ملوث کتنے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ ازراے کرم ایک فہرست ان مجرموں کی بھی عوام کو مہیا کریں جو دہشت گردی کے مجرموں کو سزا سے متعلق ہو۔ اس موقع پر ان بہادر سپاہیوں کی شہادت کا بھی تزکرہ کیجئے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں جام شہادت نوش کیا۔ دوسری جانب ہم سب کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ سانحہ پشاور میں ملوث دشمن ایک نظریہ ایک سوچ کا نام ہے ایسی گھناونی سوچ جو اپنے سوا کسی کو جینے کا حق دینے کو تیار نہیں۔
سوچ اور نظریات محض ٹی وی چینلز یا میڈیا کمپین سے نہیں ختم ہوتے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے باقاعدہ حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ ایسی حکمت عملی جس میں ایسی گھناونی سوچ جہاں سے پنپتی ہے اس مقام کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم تفضیلات میں جانا پسند نہیں کرتے۔ جہادی اور شدت پسند مذہبی تنظیمیں آج بھی کھلے عام اس گھناونی سوچ کا پرچار کرکے نہ جانے اور کتنے ناکارہ اور شدت پسند ذہن تیار ہی کرتی جا رہی ہیں۔
مدارس اور مساجد سے آج بھی نفرت کا پرچار کھلے عام ہوتا ہے۔ اپنی اپنی سوچ میں ہم سب بھی شدت پسند ہی ہیں اور اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں کہ دہشت اور تشدد وہیں سے شروع ہوتا ہے جب اپنے سوا تمام اقوام اور انسانوں کو مذہبی یا اخلاقی طور پر غلط سمجھا جائے۔ آج بھی مذہبی چورن اور قومیت کا چورن بیچتے تجزیہ نگار کالم نویس اور دانشور مغرب کی تخیلاتی سازشوں کی کہانیاں سنا سنا کر معاشرے میں نفرتوں کے بیج بوئے چلے جا رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ارباب اقتدار کے کان پر جوں تک بھی رینگ جائے۔
بس گانے بنا کر چند تقریبات منا کر گویا ہم سب سانحہ پشاور کے بچوں کی لاشوں کے بوجھ سے گویا آزاد ہو جاتے ہیں۔ نفرتوں کا کاروبار کرنے والے معاشرے نفرت کی آگ سے کبھی نہیں بچ سکتے یہ قدرت کا مسلمہ اصول ہے۔ چونکہ ہم نے نفرتوں اور تعصبب کی عینک نہ اتارنے کی قسم کھا رکھی ہے اس لیئے شاید ہم کبھی بھی نہ دیکھ پائیں گے کہ ان اے پی ایس کے بچوں سمیت لاتعداد بچوں کے قتل کا سبب ہماری فرسودہ سوچ اور نظریات ہیں جنہیں ہم کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہ حقائق تلخ ضرور ہیں لیکن انہیں تسلیم کرکے اور نفرتوں اور شدت پسندی کی سوچ کو ختم کرکے ہم صیح معنوں میں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔
آرمی پبلک سکول کے بچوں کا غم اور اس کی تکلیف کو کم کرنے کیلئے اور ان معصوم پھولوں کی قربانی رائیگاں ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں اپنی اپنی فرسودہ سوچوں اور نظریات کو دفن کرنا ہوگا۔ ان بچوں کو قتل کرنے والی اس شدت پسند سوچ اور غلط پالیسیوں کو آج ان پھولوں کی برسی پر دفن کرکے انہیں سلام پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ سیاہ دن ہمیں امن محبت اور تعلیم کے اجالوں کی طرف گامزن کرنے میں ایک سنگ میل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کہ کیا اس سیاہ دن محض رو کر غم میں ڈوب کر یا ان معصوم کلیوں کے غم میں محض نوحہ خواں ہی رہنا ہے یا پھر عملی اقدام کے زریعے ان کی روحوں کو تسکین پہنچانی ہے۔ ان بچوں کی اس لازوال قربانی کی لاج رکھنا آپ کا اور میرا فرض ہے۔ آئیے اس فرض کو ادا کرنے میں کوئی کمی یا تاخیر نہ کریں۔