جمہوری معاشرے میں آزادی کے تحفظ کے لئے پریس کی آزادی ضروری ہے، کیونکہ آزادی صحافت ایک صحت مند معاشرے کی جان ہوتی ہے۔ الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزاد میڈیا جمہوریت کا نگران ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کو جوابدہ رکھتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں باخبر فیصلہ سازی کے لئے آزاد میڈیا ضروری ہے، کیونکہ آزاد پریس تنقیدی سوچ اور بحث کے ساتھ ساتھ احتساب اور گڈ گورنس کو فروغ دیتا ہے۔ پریس کی آزادی دراصل لوگوں کی آزادی ہوتی ہے۔ آزاد پریس کے بغیر حکومتیں بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کو چھپا سکتی ہیں شہریوں کو اہم مسائل کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔
عوام کے معلومات کے حق سے انکار کیا جاتا ہے۔ تحقیقاتی صحافت کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ بدعنوانی اور غلط کاموں پر سزا نہیں ملتی۔ اقتدار کے ایوانوں میں لوگوں کی آواز نہیں سنی جاتی۔ تنقیدی سوچ اور بحث کو دبا دیا جاتا ہے۔ باخبر فیصلہ سازی ناممکن بنا دی جاتی ہے۔ عوام کو صرف پروپیگنڈے کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو دھمکی اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سچائی مسخ کر دی جاتی ہے یا چھپا دی جاتی ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو مہذب دنیا کی تاریخ میں پہلی بار انسانی آزادی رائے کو دبانے کا سلسلہ 1662ء میں انگریزی حکومت نے لائسنسنگ ایکٹ منظور کرکے کیا۔ اس بل کے پیچھے کئی عوامل شامل تھے، جن میں چند اہم یہ تھے۔
اس ایکٹ کے ذریعے حکومت نے پرنٹنگ پریس پر کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس ایکٹ کے نتیجے میں طباعت شدہ مواد پر سخت سنسرشپ نافذ کی گئی نیز ناشرین کو لائسنس حاصل کرنے اور اشاعت سے پہلے منظوری کے لئے اپنا کام پیش کرنا ضروری تھا۔ یہ ایکٹ اختلافی آوازوں کو دبانے کا باعث بھی بنا جس میں سیاسی مخالفین، مذہبی اقلیتوں اور دانشوروں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ ان اختلافی آوازوں کو انگریزی خانہ جنگی کے دوران بادشاہت مخالف خیالات کو پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کا ایک اہم مقصد بڑھتے ہوئے مذہبی تناؤ کو کم کرنے اور ایسے مواد کی اشاعت کو محدود کرنا بھی تھا، جو کیتھولک یا غیر موافق نظریات کو فروغ دینے کا سبب بنتا تھا۔
حکومت انقلابی نظریات کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ اور بغاوت کے امکانات کے بارے میں بھی فکر مند تھی۔ اس ایکٹ کے خلاف پبلشرز اور مصنفین کی طرف سے احتجاج میں یہ دلیل دی گئی کہ یہ آزادی اظہار اور تخلیقی صلاحیتوں پر حملہ ہے۔ کچھ پبلشرز نے مواد کو غیر قانونی طور پر چھاپنا جاری رکھا، جس کی وجہ سے زیر زمین پبلشنگ انڈسٹری فروغ پائی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے اس ایکٹ کے ذریعے تمام مسائل حل کیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھرپورعوامی احتجاج کے بعد لائسنسنگ ایکٹ کو بالآخر 1695ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ 1662ء کا لائسنسنگ ایکٹ پریس کی آزادی اور سنسر شپ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا
جس نے انگلستان میں آزادی صحافت کے لئے ایک طویل جدوجہد کا آغاز کیا، جس کے بعد کے قوانین اور اصلاحات نے پبلشرز اور مصنفین کے حقوق کو بتدریج بڑھایا۔ عالمی سطح پر عوامی زبان بندی کا دوسرا اہم معاملہ تب ہوا جب برطانوی حکومت نے سات سالہ جنگ کے دوران کالونیوں میں تعینات برطانوی فوجیوں کی ادائیگی میں مدد کے لئے 1765ء میں سٹیمپ ایکٹ پاس کیا۔ اس ایکٹ نے قانونی دستاویزات، لائسنس، سرٹیفکیٹ، اخبارات، پمفلٹس اور کارڈز پر ٹیکس عائد کیا۔ نوآبادیات کے لئے ضروری تھا کہ وہ چھپے ہوئے کاغذ کے ہر صفحے پر ٹیکس ادا کریں، مگر ٹیکس نوآبادیاتی کرنسی کے بجائے برطانوی سٹرلنگ میں قابل ادائیگی تھا۔
نوآبادیاتی معاشرے کے سیاسی طور پر سرگرم طبقے پرنٹرز، پبلشرز اور وکلاء اس ایکٹ سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کورٹس میں مقدمہ چلایا جا سکتا تھا جن کی کوئی جیوری نہیں تھی اور ملزم کو برطانوی سلطنت میں کہیں بھی رکھا جا سکتا تھا۔ رد عمل میں کالونیوں نے اصرار کیا کہ یہ ایکٹ غیر آئینی ہے۔ ا حتجاج کا آغاز ٹیکس ادا کرنے سے انکار سے ہوا بعد میں املاک کو نقصان پہنچا اور اہلکاروں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ اگرچہ عوامی احتجاج کے بعد سٹیمپ ایکٹ 1766ء میں منسوخ کر دیا گیا تھا مگر اسٹامپ ایکٹ کے ذریعہ اُٹھائے گئے مسائل نے کالونیوں کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک کشیدہ کردیا کہ نوآبادیات نے دس سال بعد انگریزوں کے خلاف مسلح بغاوت کردی، بلکہ یہ تنازع اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ امریکی کالونیوں نے 1776ء میں آزادی کا اعلان نہیں کیا۔
صحافت کی آزادی صحتمند جمہوریت کے لیے کتنی ضروری ہے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے چند مثالیں پیش ہیں۔ پہلی مثال واٹر گیٹ سکینڈل ہے جس میں: تفتیشی صحافیوں باب ووڈورڈ اور کارل برنسٹین نے اس سکینڈل میں صدر رچرڈ نکسن کے ملوث ہونے کو بے نقاب کیا، جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہوئے۔ آزاد صحافیوں کی رپورٹنگ نے اقتدار میں رہنے والوں کو جوابدہ بنانے میں آزاد پریس کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ دوسری مثال پانامہ پیپرز کی ہے جس میں مالیاتی دستاویزات کے افشا ہونے سے عالمی رہنماؤں اور اشرافیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا۔ صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (ICIJ) کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنے میں آزاد صحافت کے اثرات کو ظاہر کیا۔ تیسری مثال ملائیشیا کا 1MDB سکینڈل ہے جس میں: تفتیشی صحافیوں نے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی جانب سے ریاستی فنڈ 1MDB میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور غبن کو بے نقاب کیا۔
اب ہم پاکستان کی بات کریں گے جہاں چند دن پہلے موجودہ پنجاب اسمبلی نے اپنے قیام کے بعد پہلا قانون ہتک عزت بل 2024ء پاس کیا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف تمام صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اس بل کی رُو سے جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والے افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور ثابت ہونے پر چھ ماہ قید اور30لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس بل کے تحت ان معاملات کے لئے خصوصی ٹربیونلز بنائے جائیں گے، جس کے جج کو ہائی کورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے وہ چھ ماہ کے اندر اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ سنائے گا۔
ہمارے ملک میں چند سالوں سے حکومتی اداروں اور اعلیٰ شخصیات کو ہدف تنقید بنانے کے رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس میں سیاسی جماعتیں شامل ہیں سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص اہداف مکمل کرنے کے لئے ایسے بیانیے کو سوشل میڈیا پر نشر کرتی ہیں، جو اُن کے لئے موافق ہو۔ ایسے بیانیے میں اکثر اوقات ملکی اداروں کی شخصیات کے احترام اور ملکی سالمیت کو بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، جو ایک قابلِ اعتراض عمل ہے، مگر دوسری جانب حکومتی اقدامات بھی سلجھاؤ کی بجائے الجھاؤ کا سبب بن رہے ہیں اور ہتک عزت جیسے بل آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ ہماری حکومت پنجاب سے اپیل ہے کہ حکومتی ارکان کی کمیٹی صحافتی تنظیموں سے اپنے خدشات کا اظہار کرے اور مشاورت کے بعد مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ ملک مزید ابتری اور انتشار کا شکار نہ ہو۔