جیسا کہ آج ہم جانتے ہیں کہ مسلح افواج کے سیاسی کنٹرول کی جڑیں نمائندہ جمہوریت کے تصور میں پیوست ہیں۔ اس سے مراد عوامی خودمختاری پر مبنی سویلین اداروں کی بالادستی، دفاعی اور بشمول سکیورٹی پالیسی سازی فوجی قیادت پر ہے۔ یہاں یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ جمہوری ریاست میں آئین، ریاست اور مسلح افواج کو دو قسم کے ممکنہ خطرات سے بچانا ضروری ہوتا ہے، فوجی عزائم رکھنے والے سیاستدانوں سے اور سیاسی عزائم رکھنے والی فوج سے۔
جمہوری معاشرے میں مسلح افواج کو حکومتی معاملات میں کیسا موثر کردار دیا جائے، اس کا کوئی عام ماڈل موجود نہیں ہے۔ تاہم ریاست اور مسلح افواج کے درمیان بنیادی تعلقات کی وضاحت کے لئے ایک واضح قانونی اور آئینی فریم ورک کا موجود ہونا اور دوسرا تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج کا سویلین کنٹرول کو تسلیم کرنا لازمی ہے، مگر اس میں مسلح افواج کی غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ سیاسی غیر جانبداری کا اصول بھی شامل ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوری نظام کو بااختیار بنانے میں فوج کا کردار پیچیدہ اور غیر واضح رہا ہے بعض صورتوں میں فوج جمہوری اداروں کی حمایت اور دفاع میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جبکہ دیگر معاملات میں یہ جمہوری طرزِ حکمرانی کے لئے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ جمہوری نظام کو بااختیار بنانے میں فوج کے کردار کی چند مثالیں پیش ہیں بہت سے ممالک میں فوج پولنگ اسٹیشنوں کو محفوظ بنانے اور انتخابات کے دوران ووٹرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میں فوج کو انتخابی عمل کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔ فوج آمریت کے خلاف ایک محافظ کے طور پر کام کر سکتی ہے اور جمہوری اداروں کو اندرونی یا بیرونی خطرات سے بچا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر 1999ء میں ترکی کی فوج نے اسلامی بغاوت کو روکنے اور ملک کے جمہوری نظام کو بچانے کے لئے مداخلت کی تھی۔ فوجیں اکثر قدرتی آفات سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جو جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد برقرار رکھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
ہیٹی میں 2010ء کے زلزلے میں امریکی فوج نے بڑے پیمانے پر عالمی امدادی کوششوں کی قیادت کی۔ شہری بدامنی یا سیاسی عدم استحکام کے وقت امن عامہ برقرار رکھنے اور تشدد کو روکنے کے لئے فوج کو بلایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یوکرائن میں 2014ء کے مظاہروں کے دوران فوج کو نظم و ضبط برقرار رکھنے اور مزید خونریزی کو روکنے کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔
مسلح افواج اپنے ملک کا دفاع کرتی ہیں، اتحاد کے اجتماعی دفاع میں حصہ لیتی ہیں، انسانی امداد فراہم کرتی ہیں، آفات و حادثات میں مدد فراہم کرتی ہیں، مختلف سرکاری اداروں کوانتظامی مدد فراہم کرتی ہیں اور ہنگامی حالات میں دیگر فورسز کی مدد کرتی ہیں اگرچہ فوجیں جمہوری اداروں کی حمایت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن یہ بات یقینی بنانا ضروری ہے کہ ان کے اقدامات جمہوری اقدار اور اصولوں کے مطابق ہوں۔
اب ہم دنیا کے مختلف جمہوری ممالک میں فوج کے اثر و رسوخ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی فیصلوں پر امریکی فوج کا خاصا اثر ہوتا ہے۔ مختلف امریکی صدور کے ادوار میں بہت سے جنرلز اور ایڈمرل نمایاں سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ سابق صدر ڈوائٹ آئزن ہاور، جنرل کولن پاؤل، جنرل جیمز میٹس اور جنرل جان کیلی، جنرل ڈیوڈ پیٹریس، جنرل ڈگلس میکارتھر جیسے فوجی رہنما امریکی کابینہ کے عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ امریکی سینیٹر جان مکین نے تسلیم کیا "فوج کا ہماری قومی سلامتی کی پالیسی پر گہرا اثر ہے اور بجا طور پر وہ اچھے ماہرین ہیں"۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا "فوج کا ہماری خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ہے اور ہم ان کی مہارت پر بھروسہ کرتے ہیں"۔ جرمنی کے ہر چانسلر کی اہم فیصلوں پر عسکری رہنماؤں سے مشاورت ہوتی ہے۔ پالیسی کی تشکیل اور خاص طور پر یورپی یونین اور نیٹو کے معاملات میں جرمنی کی فوج ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ سابق چانسلر انجیلا مرکل کہتی تھی "ہم اہم فیصلوں پر فوج کے ساتھ قریبی مشاورت کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی رائے ضروری ہے"۔ سابق جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کرمپ کیرن باؤر نے کہا "فوج قابلِ قدر مہارت فراہم کرتی ہے جو ہمیں باخبر فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے"۔
اگر ہم آسٹریلیا کی بات کریں تو آسٹریلوی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے آسٹریلوی ڈیفنس فورسADF کا متحرک کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ سابق آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے کہا تھا "فوج ہماری سلامتی اور خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہم ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جبکہ آسٹریلوی سینیٹر جم مولان نے اعتراف کیا "ADF سے مشاورت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہمارے فیصلے قومی مفادات کے مطابق ہوں"۔
کینیڈا کی فوج خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سابق وزیر دفاع ہرجیت سجن نے تسلیم کیا "ہمارے فیصلوں میں بہتری لانے میں فوج کی مہارت اہم کردار ادا کرتی ہے"۔ فرانس کی فوج کی سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے وہاں ہمیشہ سے بہت سے جرنیل نمایاں سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں، جن میں جنرل چارلس ڈیگل، جنرل جین بیپٹیسٹ، جنرل جیکوئس ماسو اور ایڈمرل فلپ نمایاں ہیں۔ سابق فرانسیسی وزیر دفاع فلورنس پارلی نے کہا "فوج ہمیں بہتر فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے"۔
دنیا کی قدیم جمہوریت برطانیہ کی فوج خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کی تشکیل میں خاص طور پر نیٹو اور اقوام متحدہ کے مشنوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سابق برطانوی وزیر دفاع بین والیس نے تسلیم کیا "فوج کی پیشہ ورانہ مہارت ہمارے فیصلوں میں بہتری لانے کا سبب ہے"۔
یہ چند بیانات جمہوری ممالک میں مختلف ادوار میں حکمران افراد کے ہیں جو حکومتی فیصلوں پر فوج کے نمایاں اثر و رسوخ کو نہ صرف بیان کرتے ہیں بلکہ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فوج کے کردار کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ جمہوری ممالک میں فوج کا اثر و رسوخ ناقابلِ تردید ہے۔ سمجھ دار سیاستدان ملکی مفاد میں بہتر فیصلہ سازی کے لئے فوج کی مہارت کو ضروری تسلیم کرتے ہیں دراصل سلامتی کے ادارے اور سیاست کے درمیان یہ توازن جمہوری اقدار اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔