اداروں کی موجودہ محاذ آرائی ملک کو ایک ایسی دلدل میں دھکیلتی دکھائی دیتی ہے جس کا انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ یاد رکھیں! تمام مسائل کا حل ڈائیلاگ میں ہوتا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی مسائل میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارے طاقتور اداروں کا کردار کبھی بھی مثالی نہیں رہا اگر آج ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر مستقبل کے لیے بہتر لائحہ عمل تلاش کر پائیں تو شاید ہماری نجات ہو سکے۔
مولوی تمیز الدین نے 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، اس وقت ملک میں سپریم کورٹ کی جگہ فیڈرل کورٹ کا نظام رائج تھا۔ اس درخواست کے خلاف گورنر جنرل کی جانب سے فیڈرل کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جہاں سے وفاقی حکومت اور گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ آگیا۔ جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت اسمبلی توڑنے کے غیر جمہوری فیصلے کو درست قرار دیا۔ جسٹس محمد منیر کے اسی فیصلے کو جواز بنا کر 1958 میں جنرل ایوب کو فوجی مداخلت کا قانونی جواز بھی ملا۔ یہ اتنا برا فیصلہ تھا کہ عمر کے آخری دنوں میں جسٹس منیر بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔
سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ ابتدائی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں چلا۔ ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی مگر عدالت عظمٰی نے پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔ آج تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو "جوڈیشل مرڈر" کے نام پر یاد کیا جاتا ہے۔ جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں اس بات کو تسلیم کیا کہ بھٹو کی پھانسی والے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے اُن سمیت دوسرے معزز ججز پر دباؤ تھا مگر افسوس کسی نے اس دباؤ کے خلاف آواز بلند نہ کی۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر لگے اس سیاہ داغ کو مٹانے کی علامتی کوشش ضرور کی ہے جو ایک قابل تعریف عمل ہے۔
بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اْس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے خلاف آئین کے آرٹیکل 148 (3) کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت ختم کرنے، مارشل لاء نافذ کرنے اور گرفتار کیے جانے کے خلاف درخواست داخل کی تھی۔ انہوں نے درخواست کے ذریعے عدالت سے ریلیف مانگا مگر نومبر1977کو عدالت نے ریلیف دینے کی بجائے، اُلٹا مارشل لاء کی توثیق کردی۔ پاکستانی عدالتی فیصلوں میں ایک نادر نظیر اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم محمد خان جونیجو بحال ہو کر بھی بحال نہ ہوئے۔ جسٹس (ر) شائق عثمانی کے بقول اس کیس میں جنرل ضیاالحق کی طرف سے توڑی جانے والی جونیجو حکومت کو بحال تو کر دیا گیا تھا لیکن اس میں ڈنڈی یہ ماری گئی تھی کہ چونکہ الیکشن کے لیے پراسس شروع کیا جا چکا ہے لہذ ا نئے انتخابات کی طرف جانا بہتر عمل ہے۔
90ء کی دہائی میں ہمیں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سیاہ ترین دور دیکھنا پڑا جب تین بار مختلف مواقع پر منتخب جمہوری حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 58 ٹو۔ بی کے صدارتی آرڈیننس کی وجہ سے ہٹایا گیا اس عمل میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ دوسرے طاقتور عناصر بھی شامل رہے۔ مسلم لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے کی حکومت گرانے پر دو دفعہ عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ایک بار صدارتی فیصلے کی توثیق کی اور ایک بار صدارتی فیصلہ رد کردیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عدالت عظمیٰ کے ہرفیصلے کو سرتسلیم خم قبول کیا۔
جنرل مشرف نے جب منتخب حکومت کو برطرف کیا تو اس وقت اعلیٰ عدالت کے کچھ ججز کو بھی برطرف کیا گیا مگر جواب میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزز ججز نے فوجی ڈکٹیٹر کو خوش آمدید کہا اور نام نہادملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا۔ 2002ء میں جسٹس ارشاد حسن کے ایک آمر کے غیرآئینی اقدام کو درست قرار دینے پر بھی کوئی نہ بولا، مگر آج وہ فیصلہ بھی عدالتی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
31 جولائی 2009کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں چودہ رکنی بینچ نے جب جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی اورپی سی او کے تحت حلف لینے والے تمام ججز ز کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیاتو اس فیصلے کے جواب میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر کو ملک میں پی سی او کے تحت ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے، ملکی آئین کو منسوخ کردیا اور ججز کی نظربندی کا حکم دیا۔ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت 7 معزز ججز کو ہٹایا۔ 24 نومبر2007 کو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت 7 دیگر ججز نے خوشی خوشی ایک آمر کے غیر آئینی عمل کو سپورٹ کرنے کے لیے حلف اُٹھالیا۔
سوئس کرپشن کیس میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کو خط لکھ کر کارروائی کرنے کی سپریم کورٹ نے ہدایت کی۔ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا، جس میں یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال تک کوئی بھی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ غیر جانبدار لوگوں نے اس فیصلے کو جمہوریت مخالف فیصلہ قرار دیا۔ 2010ء میں حج کرپشن اسکینڈل کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں 6 سال تک جاری رہی۔ حج اسکینڈل کیس کے مرکزی ملزمان میں اْس وقت کے وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی سمیت ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) حج راؤ شکیل اور سابق جوائنٹ سیکریٹری مذہبی امور آفتاب الاسلام کے نام سامنے آئے مگر بعد میں"اَن۔ ڈْو" کیا گیا۔
سابق جسٹس عظمت سعید شیخ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ بدقسمتی سے ظفرعلی شاہ کیس میں ماورائے آئین جمہوری حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ جو برقرار رکھا گیا، اب عدالت اس فیصلے کو غلط سمجھتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پانامہ اسکینڈل کیس میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اکثر قانون دانوں اور ماہرین کی رائے میں اس فیصلے سے ملکی سیاسی میدان میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو اہل جب کہ جہانگیر ترین کو نا اہل اور سرکاری احتساب ادارے نیب کی حدییبہ ملز ری اوپن کیس درخواست کو مسترد کر دیاتھا۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ آج تک پاکستانی عوام اور آئین پاکستان کے ساتھ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور پاک فوج کے جنرلوں نے خوب کھلواڑ کرتے ہوئے جب چاہا "نظریہ ضرورت" کا چورن بیچا، آئین کو معطل کیا، اقتدار کے حصول کے لیے مذہب کا رڈ کھیلا اور عوامی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا۔ عوا م کو ہر موقع پر یہ تاثر دیا گیا کہ ایسا عمل یا فیصلہ ملکی سلامتی کے لئے ناگزیر اور بہترین ہے مگرجب ہم حقیقت کی آنکھ اور دیانت داری سے دیکھتے ہیں تو اس طرح کے اعمال اور فیصلے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بدنما داغ نظر آتے ہیں۔