کسی ملک کی سالمیت اور استحکام کامعیشت کیساتھ ساتھ دارومدار اسکے محکمہ خارجہ اور داخلہ کی حکمت عملیوں پرمنحصر ہوتا ہے۔ دور حاضر میں جہاں ایک طرف اسلحہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے جدید اور مہلک ہتھیار بے دریغ بنائے جا رہے ہیں اور جہاں طاقتور کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے وہ ان ہتھیاروں کا استعمال بھی کرتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بے تحاشہ انسانی جانیں انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بن رہی ہیں لیکن کسی کو جیسے دیکھائی ہی نہیں دیتا، سب کے سب اندھوں اور بہروں کی طرح اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے تگ و دو میں بر سر پیکار ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد ادارہ اقوام متحدہ کسی انتہائی ایسے مظلوم کی طرح جو کہ اپنی نوکری بچانے کیلئے ہر وہ کام کر رہا ہو جو اسے اسکا آقا کرنے کو کہہ رہا ہو، کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد دنیا کو جنگ اور جنگ کی صورتحال سے باز رکھنا تھا لیکن اقوام متحدہ دنیا جہان کے سماجی اور فلاحی کاموں میں بہت آگے ہے، لیکن اپنے اصل مقصد، جنگ کی صورتحال پر قابو پانے سے قاصر ہے اور جنگ کے بعد فلاحی کاموں اور امداد کیلئے فعل دیکھائی دیتا ہے۔ یعنی طاقت کے نشے میں دھت امریکہ دنیا پر حکومت کا خواب دیکھنے اور اسے عملی جامع پہنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے پر تلا ہواہے اور اقوام متحدہ کو اپنا ایک ذیلی ادارہ بنا کر رکھ لیا ہے۔ عراق، افغانستان اور شام اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ یہ ثبوت پیش کرنے کیلئے کوئی عدالت نہیں ہے۔
مذکورہ وجوہات کی بنا ء پر ساری دنیا امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات کی خواہشات میں اندھی ہوچکی ہے، لا محالہ امریکہ کی ہر بات ماننے کو تیار دیکھائی دیتے ہیں اور یہاں تک کہ ایک دوسرے کے تعلقات بھی امریکا کی ایماء پر مرتب دئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کا معاملہ بظاہر سمجھ سے بالا تر ہے انکی من مانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہی چلا جا رہا ہے لیکن امریکہ ابھی تک کوئی ایسی خاطر خواہ تدبیر سامنے نہیں لاسکا جس سے ان ممالک کے بارے میں امریکہ کا واضح لاحہ عمل سمجھ آسکے۔ امریکہ نے ہمیشہ ہر اس ملک کی پشت پناہی کی ہے جس نے پاکستان کی مخالفت میں ایک جملہ بھی کہا ہوہے جس کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت ہما را پڑوسی ملک ہے جس کے کرتوت ساری دنیا کے سامنے ہیں لیکن دنیا کے چند ممالک سوائے زبانی جمع خرچ کرنے کے کبھی بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ مسلۂ کشمیر ہو یا پھر سرحدوں کی خلاف ورزی بھارت کو ہمیشہ امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کے مزاج اور طرز حکومت کو سمجھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کر پڑرہا ہے خصوصی طور پر ان لوگوں کیلئے جو روائتی سیاسی سوچ کے حامل ہیں، عرصہ دراز سے دو جماعتی حکومتی حکمت عملی چل رہی تھی جنہوں نے سوائے اپنے مفادات و اثاثہ جات کو تقویت پہنچانے کے اور کوئی قابل ذکر کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ خوف و ہراس کی آب و ہوا ملک پر تانے رکھی، دہشت گردی کی جنگ کا راگ الاپتے رہے اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیاملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔ من چاہی اور من مانی حکمت عملیاں ملک کی خارجہ و داخلہ کی حکمت عملیاں بنتی گئیں۔ ان جماعتوں میں مختلف امور پر داخلی اختلافات بھی ہوئے اور بہت پرانے لوگوں نے اصولوں پر سمجھوتا نا کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں ان جماعتوں سے علحیدگی اختیار کر لی۔ لیکن طاقت اور اقتدار کا ایسا نشہ سر پر چڑھا ہوا تھا کہ اپنے آگے ابھی تک کوئی دیکھائی نہیں دے رہا۔
موجودہ حکومت کی خوش قسمتی کہہ لیجئے کہ امریکہ کے داخلی حالات بھی کچھ خاص مستحکم نہیں دیکھائی دے رہے ہیں، آئے دن کسی نا کسی اہم ذمہ دار کو اسکے عہدے سے سبکدوش کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی خود ہی اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہو رہا ہے۔ حکومت وقت نے ایسی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تعلقات کی بحالی یااستحکام کیلئے کوئی شور شرابا نہیں کیا بس کن انکھیوں سے دیکھتے رہے۔ یہ عمل کارگر ثابت ہوا امریکیوں کو احساس ہوا کہ پاکستان کی حکومت ہمارے بغیر بھی چل سکتی ہے یہ ہم سے قرضے کی بات نہیں کررہے تو امریکی صدر نے پاکستان کے ساتھ میل ملاپ اور اچھے تعلقات کو قائم کرنے کی خواہش ظاہر کردی۔ ایک طرف امریکا بہادر کا یہ بیان کہ وہ پاکستان کیساتھ کی نو منتخب حکومت سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور تعلقات میں آنے والی پیچیدگیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے اس بیان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان صاحب کا دورہ ترکی اور امارات کے ولی عہد کا دورہ پاکستان میں کافی معاملات مشترک دیکھائی دے رہے ہیں۔ سب سے اول جس بات کا خطرہ امریکہ کو محسوس ہو رہا ہوگا وہ یہ کہ پاکستان کا خطے میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرنا اور موجودہ وزیر اعظم کی قابلیت اور شہرت کا دنیا کے دیگر ممالک کا معترف ہونا۔ امریکہ کو اس بات کی سمجھ آگئی کہ پاکستان کی موجودہ حکومت پاکستان کیلئے کچھ کر گزرنے کیلئے پر عزم ہے جسکی وجہ سے امریکی سوچ بچار کرنے والوں کو اپنی سوچ میں بدلاؤ لانے پر اکسایا جا رہا ہوگااور یہ اس سوچ کے بدلاؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکی صدر نے پاکستانی حکومت کیساتھ مثبت تعلقات بڑھانے کیلئے بات کی ہے۔
اگر عمران خان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ان کا ہر ارادے کی تکمیل کیلئے کی جانے والی پیش قدمی ابتداء میں اچھی نہیں تھی لیکن انکی نا رکنے والی اور نا جھکنے والی خوبی نے قدرت کو متاثر کیا اور پھر قدرت نے انکے ہر فیصلے اور اقدام کو عملی جامع پہنانے میں بھرپور مدد کی ہم صرف کرکٹ کا ابتدائی دور اٹھالیتے ہیں اور پھر شوکت خانم جیسے دیو ہیکل منصوبہ پر نظر ڈال لیتے ہیں ہم سیاسی بصیرت سے عاری اس شخص نے پاکستان کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں۔ یہ تو دنیا کا پاکستانی حکومت پر بھروسہ اور اعتبار ہے جو ہم لوگ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھرپور طریقے سے دیکھ رہے ہیں، کیا یہ بات جھوٹ ہے یا پھر کچھ اور کہ عمران خان مدینے کی گلیوں میں ننگے پاؤں گھوم رہے ہیں اگر یہ بھی نہیں تو پھر کیا عمران خان چور ہے اور انکے اب تک کے کئے جانے والے اقدامات جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔ اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال کریں اگر جواب مثبت آئے تو فیصلہ کریں حق اور سچ کا ساتھ دینگے۔
ساری دنیا ہی عمران خان کی پذیرائی کرتی دیکھائی دے رہی ہے، اگر ہمارے ملک کے سیاستدان محب وطن ہیں تو پھر دوست ممالک سے انکا رویہ مختلف کیوں ہے، ساری دنیا نے عمران خان کے اقدامات کو سراہا ہے، کسی اقدام پر شک و شبہ ظاہر کئے بغیر قرضہ یا امداد فراہم کی ہے لیکن وہ وجہ کون بتائے گا کہ جو اپنوں کو ہی گراں گزری ہے۔