ملک میں گزشتہ کچھ ماہ سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہاہے، جس پرحکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انتہائی سنجیدگی دیکھانے سے تاحال قاصر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عادی مجرمان اور انکی پشت پناہی کرنے والوں کی کاروائیوں میں کمی نہیں آرہی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب اس درندگی کے کاروبار کی تہہ تک آگاہی فراہم کر چکے ہیں اور اسکے نتیجے میں انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا رہا اور انہیں یہ کہہ کر سزا وار ٹہرایا گیا کہ انہوں نے عدالت کا وقت ضائع کیا ہے۔ اب زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تو ڈارک ویب کا پاکستان میں روح رواں کی گرفتاری کی خبر اخبار میں دیکھی، ڈارک ویب کی حقیت سے نظریں چرانے والے یا نظریں ہٹانے والے کیا ڈاکٹر شاہد مسعود سے اعلانیہ معافی مانگنے کی جسارت کرسکتے ہیں اور ان کی تحقیق کو خراجِ تحسین پیش کرسکتے ہیں، یقین ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم جس نظام یا نظرئیے کے ماتحت ہیں وہاں اپنی غلطی ماننے سے زیادہ خودکشی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جدت نے وقت اور حالات کی چکی میں ایسا پیسا ہے کہ ہم روحانیت پر یقین رکھنے والوں نے طبعی صورت پر یقین کرنا شروع کردیا ہے، ہم شائد یہ بھی بھولے بیٹھے ہیں کہ ہم نے اپنے خالق کو دیکھا نہیں ہے لیکن ہر شے میں اسکے ہونے کا یقین ہے۔ بات شروع ہوئی تھی ملک میں بڑھتی ہوئی جنسی زیادتیوں کی صورت حال پر۔ قوم کی اکثریت بشمول حکومتی اراکین جن میں وزیر اعظم صاحب بذات خود شامل ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ مجرم کو سر عام پھانسی دی جائے اور نشان عبرت بنایا جائے، لیکن حالات کی نزاکت ایک بار پھر مصلحت کی چادر اوڑھ کر کسی سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس دن کوئی جنسی درندہ عوام کے ہاتھ آگیا تو وہ تمام خدشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے علاقے کے چوک پر اسے پھانسی پر لٹکاہی دینگے اور یہ بھی یقین ہے کہ اس دن بھی پولیس (جان بوجھ کر) کاروائی مکمل ہونے کیبعد جائے وقوع پر پہنچے گی۔
معاملہ قومی سالمیت کا ہو تو پاکستانی قوم ایسے جنون میں آجاتی ہے کہ مضبوط سے مضبوط پہاڑ سے ٹکرا جاتی ہے اور اسے پاش پاش کر کے ذرہ ذرہ میں تبدیل کردیتی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کو کوئی ایسا سیاست دان ملا ہی نہیں جو اس جوش اور ولولے کو صحیح سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آج تک اس پر عزم قوم کو اپنے ذاتی نجی بلکہ انا کی تسکین کے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ قدرت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے چاہے وہ کرکٹ کے میدان میں کھڑا ہوابلے باز ہو جسے ایک گیند پر ۴ دوڑیں کرنی ہوں تو وہ ۶ کیلئے جاتا ہے اور کرکٹ کی تاریخ میں جاوید میانداد ایک تابناک سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، جنگ کے میدان میں ہو، سائنس کے میدان میں ہو غرض یہ کہ بہادر انسان جہاں کہیں بھی ہوگا قدرت اسکا ساتھ دینے پہنچ ہی جاتی ہے۔ اور جب بہادر نیک کام کیلئے نکلا ہو تو یہ ساتھ دوسوفیصد یقینی ہوجاتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی چلی آرہی ہے، حال اس بات سے آراستہ ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا، کیونکہ قدرت تھی، ہے اور رہیگی۔ قدرت نے انسان کو عقل دے رکھی ہے یعنی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے اختیارات سے نوازا ہے کوئی اچھا کرے یا برا یہ اسکا فعل ہے۔
قربانیاں دینا پاکستانی عوام کا قومی فریضہ بن چکا ہے قربانیوں کی دستانوں پر دستانیں رقم ہورہی ہیں لیکن وہ تابناک دور ابھی تک دیکھائی نہیں دے رہا کہ جو ان قربانیوں کے نتیجے میں ابتک آجانا چاہئے تھا۔ سرحدوں کی حفاظت پر معمور جہاں رات دن ایک کر کے سرزمین کی حفاظت کیلئے تاحال سب کچھ قربان کر رہے ہیں وہیں ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ گوکہ پولیس کا ادارہ اپنی کارگردگی کے حوالے سے اتنی اچھی شہرت نہیں رکھتا لیکن کسی ایک اہلکار کی ایمان اور فرض شناسی ادارے کا سر فخر سے بلند کرنے کیلئے اور باقی اہلکاروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک کارنامہ سندھ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش نے دیا ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں جنسی زیادتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا تذکرہ کیا ہے یہ بھی ایک ایسے ہی واقع کی مرہون منت وجود میں آیا ہے جہاں محمد بخش نے کسی کی اغواء شدہ بیٹی یا بہن کو بچانے کیلئے اپنی سگی بیٹی کو بطور دانا استعمال کیا اور اپنی بیٹی کی عزت اور جان کو یقنی خطرے میں ڈال دیا۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کے قدرت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے قدرت نے ناصرف محمد بخش کا ساتھ دیا اور اسکے اس اقدام پر اسے سرکاری سطح پر انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ محمد بخش کی جہاں حکومت سندھ نے بھر پور پذیرائی کی وہیں وزیر اعظم صاحب نے بھی فون پر شاباشی دی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا محمد بخش نے دیگر تمام اہلکاروں میں یہ تحریک پیدا کی کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ ہمارے لوگ بہت پرخلوص اور نیک نیت ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا نظام ایسے لوگوں کو بھی اپنے جیسا بنا لیتا ہے اور ضمیر نامی معصوم شے کو تھپک تھپک کر سلا دیتا ہے۔ محمد بخش جیسے سپاہی جب تک حدوں کو پار کرنے والوں کے سامنے کھڑے ہیں فتح حق کی ہوتی رہیگی اس یقین کیستاھ کہ آنے والے وقتوں میں سندھ پولیس نہیں بلکہ پاکستان کے تمام قانون نافذ کرنیوالے ادارے محمد بخش کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتوں پر اپنی جانیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرینگے۔ تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے ورنہ انگنت آئے اور چلے گئے۔ یہ بھی طے ہے کہ بہادری کسی کی قبیلے یا علاقے کی مراث نہیں ہوتی یہ بہادروں کیساتھ ہی رہتی ہےاور وہ کسی بھی قبلیے یا علاقے سے ہوسکتا ہے۔