ایک وہ بھی زمانہ تھا جب لوگ خبریں سننے کیلئے کسی پڑھے لکھے کا انتظار کیا کرتے تھے، یا پھر کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتاتھا جہاں ریڈیو جیسی نایاب چیز دستیاب ہوتی تھی پھرٹیلیویژن رات نو بجے کا وقت مشہور زمانہ خبرنامہ۔ تکنیکی انقلاب سے دنیا میں بھوچال آچکا ہے اور اس بھوچال کی شدت تیسری دنیا میں اور زیادہ تخریب کار ثابت ہوئی کیونکہ جب کم علموں کوبغیر استادوں کے علم تک رسائی ملنے لگی تو ادب کا مرتبہ کھوگیا۔ اس علم نے سب کو معلم بنا دیا، سب ایک دوسرے کو سمجھانے اور سیکھانے میں لگے ہوئے ہیں، افسوس کہ سمجھنے والا اور سیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بے عمل عالموں سے کھچا کھچ بھر گیا ہے۔ یہاں پہلے تو اس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ اردو میں وائی فائی نہیں مل رہا، راستے کی مشکلات اپنی جگہ راستہ نا ملنے کے باوجود اردو کا سفر جاری و ساری ہے، آج ہم لوگ مقبول سماجی میڈیا پر بھرپور اردو استعمال کررہے ہیں لیکن اس بات کا قطعی خیال نہیں کیا جارہا کہ اردو کو اسکی اصلی صورت میں ہی دنیا کے سامنے پیش کریں ناکہ جلد بازی کی وجہ سے دوسری زبانوں کے الفاظ ساتھ جوڑ لیں یا انگریزی کے حروف میں لکھیں، اس طرح سے کام تو چلتاہے لیکن دائمی تاثر کبھی قائم نہیں ہوپاتا جیسا کہ ہمیں ابتک دنیا پر اردو کو ثابت کردینا چاہئے تھا۔ معاشرے کی بگاڑ اور معاشرتی اقدار کے قتل عام کی جہاں دیگر وجوہات بھی رہی ہونگی لیکن ایک انتہائی اہم وجہ زبان کا یکسو کا نا ہونایا قومی زبان کو مناسب مقام نا دینا، یعنی قومی زبان کے ہوتے ہوئے بھی نامانا جانااور نا ہی سرکاری سطح پر استعمال ہونا۔
دشمن کہ ذہن سازوں نے روز اول سے کسی نا کسی طرح سے ہمارے ذہن سازی کرنے والوں کوالجھائے رکھا ہے۔ ہماری فوج کو، ہمارے سیاستدانوں کو، ہماری ہر طرح کے اداروں کی انتظامیہ کو، ہمارے فنکاروں اداکاروں گلوکاروں کو، یہاں تک کہ عام آدمی اس الجھن سے نہیں بچا ہوا۔ کیا ہم اب بھی یقین نہیں کرینگے کہ ہم پر ہمارے دشمنوں نے ہمارے اندر قسم قسم کی تخریب کاری بھر دی ہے اور ہم اپنی ہی تخریب کاری کی بدولت تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ ایسی ہے کہ آپ کسی کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اپنے موبائل فون میں وائی فائی کا بٹن بند کیا اور اس طرح دنیا سے رابطہ منقطع کرلیا، اب کوئی کچھ بھی کہتا رہے جب دل چاہے گا وائی فائی کا بٹن کھول کر دیکھ لیں گے اور ضروری سمجھا تو جواب دیدینگے ورنہ آج کل کسی کے پاس وقت ہے کہ باد میں ملے گا تو یاد رکھے گا۔ ایک طرح سے یہ بٹن معاملات کو گھمبیر ہونے سے روکنے میں مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے لیکن دوسری طرف کسی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، کسی کی جان بھی جا سکتی ہے اور اس طرح سے دیگر معاملات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک بٹن پورے سماجی میڈیا کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پورے سماج کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے، یہ وہ بنیادی اکائی ہے جس کے بل بوتے پر دنیا میں رونما ہونے والے اچھے برے واقعات قلیل وقت میں ساری دنیا میں بیک وقت ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ رہے ہیں۔ کون کس کے حق میں ہے اور کون کس کے خلاف یہ بھی وائی فائی کے توسط سے چلنے والے سماجی میڈیا سے باآسانی معلوم ہوجاتا ہے، یہاں کسی قسم کی تحقیق کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم جدیدیت کہ اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں دنیا کو ماحولیات کی شدید فکر لاحق ہے، جب دنیا کو سمندری آلودگی کا مسلۂ درپیش ہے، جب دنیا موسمی تغیرات سے خوفزدہ سرجوڑ کر بیٹھی ہے کہ کس طرح سے بدلتے ہوئے شدید موسموں سے نمٹا جاسکے اور دنیا زمین سے اٹھ کر مریخ یا کسی اور سیارے پر رہنے کے اسباب تلاش کر رہی ہے۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر لگ بھگ ہزار سال حکومت کی اور بھرپور حکومت کی ہندوستان کی پہچان مسلمان بادشاہوں کی بدولت ساری دنیا میں عام ہوئی، ہندوستان کی تہذیب و تمدن مرتب کیا اور دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرایا۔ مسلمان بادشاہوں نے کبھی ہندو دشمنی نہیں دیکھائی یہ اور ہمیشہ ذات پات سے بالا تر ہوکر اپنے حقوق ادا کئے۔ ہندوستان میں ریاستوں پر قبضوں کیلئے جنگیں ہوئیں جن میں دونوں طرف سے لڑنے والے علاقے کی پہچان کیلئے لڑتے تھے اور بیک وقت ہندو، سکھ، مسلمان اور عیسائی تھے۔ اسے مسلمانوں کی بد قسمتی کہیں کہ غیر مستحکم حکمت عملی کے ہمیشہ ہی انہیں اپنا دوست سمجھا جنہیں اللہ رب العزت نے واضح طور پر بتا دیا کہ یہ تمھارے دوست نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں نے یہ سب جانتے بوجھتے دوستیاں بھی کیں اور کچھ حکمرانوں نے تو رشے داریاں بھی کیں اور آج دنیا میں دوسرے دیگر اسلامی ممالک وہ سب کچھ کر رہے ہیں جس کا کیا جنوبی ایشیاء کہ مسلمان سو سال پہلے سے ابتک بھگت رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں دنیا کی ہر بات سمجھ میں آجاتی ہے لیکن آپسی ایکتا کیا ہوتا ہے یہ سمجھ نہیں آرہا شائد اسے قدرت کا عذاب سمجھ لیا جائے۔ آج جب کشمیر ی سسکیاں لے رہے ہیں، بھارت کی بربریت کا درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ زندگی کو بھی شرمندگی محسوس ہورہی ہوگی اقوام متحدہ کی تنظیم موسمی تبدیلیوں پر ساری دنیا میں آگاہی مہم چلا رہی ہے۔ کیا ہمیں اب بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے ذریعے ہمیں گھسیٹ گھسیٹ کر اندرونی اور بیرونی خطرات کی جانب دھکیلنا ہے۔
ذرا غور کرنے پر ایک دوسرے کو مجبور تو کریں نا کہ یہ کیسی سماجی ناانصافی ہے کہ اکیسویں صدی میں جیتے جاگتے انسانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ساری دنیا سوائے مذمت کے ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے سامنے امریکہ کا 9/11کا واقع بھی معدوم ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ تاریخ کی بدترین ریاستی دہشت گردی کشمیر میں کی جارہی ہے اور کسی کی کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہم کسی غیر اسلامی ملک سے کیا کہہ سکتے ہیں جب ہمارے اپنے اسلامی ممالک، دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو اعلی اعزازات سے نواز رہے ہوں، ان زمین کے شاہوں کے محلوں تک ابھی مظلوموں کی چیخیں نہیں پہنچ رہی ہیں، اب یہ چیخیں ان محلوں کی درو دیوار گرا کر ان کے کانوں تک پہنچنے والی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت نے انسانوں سے ہی کام لینے ہوتے ہیں لیکن وہ قادر مطلق انسانوں کے روپ میں فرشتے بھیج دیتے ہیں، جو وہ کام سرانجام دیتے ہیں جو اللہ رب العزت کی چاہ ہو تی ہے۔
ہماری سیاسی، معاشی، داخلی اورمعاشرتی تنزلی کی جانب دھکیلنے میں بھارت کے ذہن سازوں نے بھرپور کردار ادا کیا اور پھرکہیں جا کر کشمیر پر کئے جانے والے اقدام پر اکسایا ہے۔ بھارت کی مسلمان دشمنی اب بھر پور طریقے سے کھل کر سامنے آچکی ہے (یہ بھی جدید یت کی مرہون منت ہے)بات تقسیم ہند سے شروع ہوئی تھی اور اب واپس وہیں لیجانے کی کوشش کی جاری ہے۔ بھارت میں موجود وہ مسلمان جوحسب نسب والے ہیں وہ کیا کرینگے؟ کیا وہ ابھی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہینگے؟ یہاں تک کہ بلی انہیں کھا جائے، یا پھر دنیا میں اپنے ان مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائینگے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بھارت میں انسانیت کی تذلیل ہمیشہ سے جاری و ساری ہے لیکن افسوس دنیا کو عراق میں جمہوریت کی فکر ستائی، لیبیاء کی فکر لاحق ہوئی، افغانستان کی فکر میں مبتلاء ہے، یمن اور شام کی پریشانی سے نکل نہیں پا رہے، آخر انسانیت کا یہ دوہرا معیار کیوں۔ کیا دنیا کے منصف دنیا کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگانے کی تیاری کررہے ہیں جب کہ وہ بھی اسی آگ میں جل جائینگے۔ بظاہر ایسا لگنے لگا ہے کہ بھارت کے بزدل حکمران ہندو مذہب کو دنیا کا مذہب بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کو ان ہندؤں نے پال پوس کر گزشتہ 80 سالوں میں بہت بڑا کر لیا ہے اتنا بڑا کہ اب یہ اقتدار میں ہیں اور مذہبی انتہا پسندی ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں کشمیر کو تو ایک طرف رکھ دیجئے اب تو بھارت میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو اپنے بھارتی ہونے کی وضاحتیں دینی پڑینگی۔ بھارت، پاکستان اس میں بسنے والے پاکستانیوں کو 1947 سے بھی پہلی والی حیثیت میں دھکیلنے کہ درپے ہے، بھارت کو شائد اپنی آبادی کا زعم ہے یا پھر اسکی سمجھ یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر پاکستان سے زیادہ مستحکم اور منظم ہے، دنیا میں اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک سے اسکے مراسم پاکستان سے کہیں زیادہ اچھے ہیں جن میں بعض اہم اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ آج جب کہ کشمیر جل رہا ہے، فلسطین کی سرزمین تنگ سے تنگ ہوتی چلی جارہی ہے، بھارتی مسلمانوں کو ایک نئی ہجرت پر دھمکایا جا رہا ہے پھر بھی دنیا کے مسلمان اپنی اپنی سرحدوں تک محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وقت چیخ چیخ کر امت کا تقاضہ کررہا ہے لیکن ہم پہلو بدل بدل کر حالات و واقعات کا جائزہ اپنی سرحدوں میں پرتعیش زندگی گزارتے ہوئے لے رہے ہیں۔ دنیا کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کی آگ سے اٹھنے والی ایک چنگاری نا صرف پورے خطے بلکے ساری دنیا کی زندگی اجیرن کرنے کیلئے کافی ہوگی، بس انتظار اس بات کا ہے کہ یہ چنگاری پاکستان کی غیرت پر کب گرتی ہے۔