کورونا کیساتھ ہمیں کہاں تک جانا ہے اس کا حتمی جواب دینا ابھی تک نا ممکن ہے، جب تک باقاعدہ طور پر ویکسین تیار ہوجاتی اورقابل استعمال ثابت ہوکر عام نہیں ہوجاتی۔ جہاں اس وباء سے بچاؤ کیلئے تقریباً سب کچھ بند کیا گیا یعنی لاک ڈاؤن کیا گیا وہیں ہر قسم کی کھیلوں کی سرگرمیاں بھی مکمل طور پر بند ہوگئیں یہاں تک گلی محلوں میں بھی کرکٹ دیکھنے کو نہیں ملی۔ البتہ سماجی میڈیا پر متعدد کھلاڑیوں نے اپنی اپنی مصروفیات سے آگاہ رکھا کہ کہیں لوگ ان لوگوں کو بھول ہی نا جائیں اور انکی بھیجی گئیں وڈیوز کی بدولت لوگوں کو کسی حد محرک رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کوششیں کرتے رہے، جس کی مرہون منت انکے مداحوں کی خوب حوصلہ آفزائی ہوئی۔ طے پایا کہ کھلاڑیوں کو زیادہ دیر نہیں بٹھایا جا سکتا اسلئے سب سے پہلے فٹبالر زمیدان میں اترے اورتماشائیوں کے بغیر میدانوں میں کھیل شروع کردیا، اسطرح یہ طے پایا کہ تماشائیوں کے بغیر کھیلوں کا انعقاد کرایا جاسکتا ہے۔ ہم کرہ عرض کے جس خطے سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کرکٹ جنون کی حد تک ناصرف پسند کی جاتی ہے بلکہ کھیلی بھی جاتی ہے، لفظ جنون کی وضاحت کیلئے اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ شمالی علاقاجات جو کہ پہاڑی علاقے کہلاتے ہیں اور تقریبا ً پہاڑ ہی پہاڑ ہیں ہم پاکستانیوں نے وہاں بھی کرکٹ کی رونق لگائی ہوئی ہے (بہت ممکن ہو سماجی ابلاغ پر چلنے والی ایک ایسی ہی ویڈیو جو مذکورہ جنون کی ترجمانی کرتی ہے آپ لوگوں کی نظروں سے ضرور گزری ہوگی)۔ یہ ہر ملک کے باشندے کا شوق ہوتا ہوگا کہ وہ کچھ ایسا کار ہائے نمایاں سر انجام دے کہ جو اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مقبول کردے اور وہ اپنے ملک کی پہچان بن سکے۔ ایسا ہونا آسان نہیں ہوتا، جہاں اسکے لئے انتہک محنت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے وہیں قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ محنت اور لگن تو بہت سارے لئے گھوم رہے ہوتے ہیں لیکن قسمت کی دیوی ہر کسی کا ساتھ نہیں دیتی۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ مایوس ہوکر کسی منفی سرگرمی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ کرکٹ ہی کھیلتے رہتے ہیں۔
کورونا کیساتھ کرکٹ انگلینڈ میں شروع ہوئی کیونکہ انگلینڈ ہی کرکٹ کا آبائی گھر ہے اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم وہ پہلی ٹیم بنی جس نے کورونا کی موجودگی میں انگلینڈ کا دورہ کیا، یہ بات دونوں ممالک کی طرح دنیا جہان میں کرکٹ کے شائقین کیلئے انتہائی خوش آئند اور تقویت کا باعث بنی۔ ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتا ہے اور اسی میں کھیلوں کی خوبصورتی چھپی ہوتی ہے۔ ویسٹ انڈیز نے جو روٹ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھایا اور انگلینڈ کو پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی قیادت بین اسٹوکس کر رہے تھے۔ اگلے ہی میچ میں انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان کی واپسی ہوئی اور جو روٹ نے کمان سنبھال لی پھر ویسٹ انڈیز دو ایک سے سریز میں ناکام ہوئی اور انگلینڈ نے ٹیسٹ چیمپئین شپ میں اپنی پوزیشن بہتر کی۔ اس سریز کی بدولت دیگر ملکوں نے بھی حوصلہ کیا اور پاکستان دوسرا ملک بنا جو کورونا کی موجودگی میں ایک طویل دورے پر انگلینڈ کی سرزمین پر پہنچا جہاں طے شدہ تین ٹیسٹ میچ اور تین ہی ٹی ٹونٹی کھیلنے تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں طرز کی ٹیمیں بیک وقت سفر پر روانہ ہوئیں تقریبا ً پچیس سے تیس رکنی یا شائد اس سے بھی زیادہ افراد نے اس دورے کیلئے اڑان بھری۔ ٹیم کی تیاری سے کہیں زیادہ ضروری کوروناسے محفوظ رہنا تھا، محفوظ رہنے کیلئے محدود رہنا ضروری تھا۔ تین ٹیسٹ میچوں کی سریز انگلینڈ نے ایک صفر سے اپنے نام کر لی۔ بارش نے بہت اہم کردار ادا کیا ورنہ نتائج بہت مختلف ہوسکتے تھے۔
سریز کی ابتداء سے قبل کچھ احباب کا خیال تھا کہ پاکستان تین صفر سے سریز ہار جائے گاجو ہمارے مزاج کو قدرے گراں گذرا اور اس بات کی شدید مذمت کی، کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ پاکستانی ٹیم گوکہ زیادہ تر کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی خصوصی طور پر گیند بازی کے شعبے میں لیکن اس کی کمی پوری کرنے کیلئے بھرپورتجربے کار بلے بازدستیاب تھے جن میں کپتان اظہر علی، اسد شفیق، شان مسعود، عابد علی، محمد رضوان اور دنیائے کرکٹ کا ابھرتا ہوا ستارہ بابر اعظم شامل رہے۔ بلے بازی میں سوائے شان مسعود کے پہلے میچ کی پہلی انگنز کی سینچری جس کی بدولت پاکستان تقریباً میچ جیتا ہوا تھا بلکہ یوں کہا جا رہا ہے کہ ساڑھے چار دن پاکستان میچ پر قابض رہا اور آدھے دن کے کھیل نے میچ انگلینڈ کو جیتا دیا، دوسرے بلے باز میں کپتان اظہر علی جنہوں نے تیسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی باری میں سینچری بنائی اور یقینا یہی سینچری میچ کو ڈرا کرانے کا سبب بنی، اسکے علاوہ محمد رضوان نے کسی حد تک متاثر کیا لیکن عابد علی، فواد عالم، اسد شفیق کا بلا خاموش ہی رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انکے ساتھ ناقدین کیا کرتے ہیں، فواد عالم جوکہ تقریباً ایک دہائی کے بعد بین الاقوامی مقابلے میں جلوہ گر ہوئے اور انکا یہ چناؤ بھی مشکوک ہی رہا جس کی وجہ سے انکے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی پھر انکے کھڑے ہونے کے انداز کو تنازہ یا موضوع بحث بنا لیا گیایہ وجوہات ہوسکتی ہیں کہ وہ اپنا روائتی بہترین کھیل پیش کرنے سے قاصر رہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ انکی آخری سریز قرار پائے۔ سہیل خان بھی ٹیم کا حصہ تھے اور انگلینڈ کی سرزمین پر ایک اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں اور آپسی کھیلے گئے مقابلوں میں بھی اچھی بولنگ کی لیکن کپتان یا کھیلنے والے گیارہ کھلاڑیوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے اور شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ اپنی جگہ ٹھیک تھے لیکن محمد عباس کو تبدیل کیا جاسکتا تھا، جو مخالف ٹیم کیلئے بھی کچھ مختلف سوچنے کیلئے ہوتا لیکن باہر بیٹھ کر بنائی گئی طے شدہ حکمت عملی سے مقابلے نہیں کئے جاسکتے، بدلتے ہوئے حالات کیمطابق فیصلے کرنے والے مقابلے جیتا کرتے ہیں۔ یاسر شاہ اور شاداب کو ایک ہی میچ میں کھلادیا گیا، بدل بدل کر کھلایا جانا چاہئے تھا شاداب پر جب مکمل ذمہ داری ڈالی جائے گی تو وہ ذمہ داری نبھائے گا صحیح معنوں میں شاداب ایک آثاثہ ہے۔ انتظامیہ نے سرفراز احمد کی صلاحیتوں سے جب مستفید ہونا ہی نہیں تھا تو لیجانے کی کیا ضرورت تھی، فرض کرلیتے ہیں کہ سرفراز کو آپ نے اب ٹیسٹ نہیں کھلانا تو آخری میچ میں کھلا دینا چاہئے تھا، رضوان سے زیادہ نہیں تو برابر رنز بنا کر دے ہی دیتے اور کھیل کی نفسیات سے بھی واقف ہونے کا کچھ فائدہ ٹیم کو پہنچتا اور شائد اظہر علی نے غلطیاں پہلے ٹیسٹ میچ میں کیں وہ نا ہوتیں۔ ساری صورتحال میں بابر اعظم ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے محسوس ہوئے جسکی وجہ سے کوئی بڑی باری لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مکمل طور پر اگر دیکھا جائے تو کچھ انتظامی خامیوں کی وجہ سے ایک اچھی ٹیم کامیابی کے قریب پہنچ کر اسے پانے سے قاصر رہی۔ اب ڈریسنگ روم میں بیٹھے مصباح اور یونس خان دو مختلف مزاجوں کے حامل بلے باز ہیں جس کا تاثر ٹیم پر نظر آنا شروع ہوجائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ یونس خان ٹیم کے ساتھ رہیں۔
ایک طرف ویسٹ انڈیز میں کیریبین لیگ چل رہی ہے جہاں آصف علی اپنے جارحانہ بلے بازی کے جوہر دیکھا رہے ہیں، انگلینڈ سے تین ٹی ٹوئنٹی کی سریز کا بھی آغاز جمہ سے ہونے جا رہا ہے۔ میچ جیتنے کا جتنا انحصار ٹاس پر ہوتا ہے اتنا ہی انحصار مقابلے کیلئے منتخب ہونے والی ٹیم پر بھی ہوتا ہے۔ آصف علی کی خدمات پاکستانی ٹیم کو کیوں میسر نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ممکن ہے کہ رضوان کی جگہ سرفراز ٹیم کا حصہ بن جائیں، یاسر شاہ کی جگہ تو شاداب نے ہی لینی ہے، نسیم شاہ کی جگہ موسی کے کھیلنے کی توقع کی جاسکتی ہے، عباس کی جگہ شنواری یا پھر سہیل خان ہوسکتے ہیں، فہیم اشرف فواد عالم کی جگہ، اسد شفیق کی جگہ عماد وسیم، عابدعلی، بابر اعظم، اپنی جگہ رہینگے، شان مسعود کی جگہ ایک نیا چہرہ خوشدل شاہ امیدوار ہیں، افتخار احمد ہیں۔ اسطرح سے ایک مضبوط اور متوازن کھلاڑی موجود ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ چناؤ کیبعد جو ٹیم سامنے آتی ہے اسے میدان میں کس طرح سے لڑایا جاتا ہے اور انگلینڈ سے ٹیسٹ سریز کا بدلہ ٹی ٹوئنٹی سریز تین صفر سے جیت کر لیا جاتا ہے۔
انگلینڈ بین الاقوامی کرکٹ کا مرکز بنا ہوا ہے، آسٹریلیا کی ٹیم بھی ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچوں کی سریز کھیلنے پہنچ رہی ہے۔ اسکے علاوہ انگلینڈ کا ڈومیسٹک سیزن بھی چل رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور دیگر ملکوں میں ڈومیسٹک سیزن کب شروع کیا جاتا ہے کیونکہ کھلاڑیوں کو کھیل سے دور رکھنا ایسا ہی ہے کہ جیسا مچھلی کو پانی سے باہر رکھنا۔ کرکٹ پر لکھنے بیٹھا ہوں تو ہم پر لازم ہے کہ اپنے ایک ایسے کرکٹ کے جنونی دوست سید زاہد حسین کا تذکرہ کرنا چاہونگا جنکا اوڑھنا بچھونا کرکٹ تھا جسکی وجہ سے کراچی میں تقریباً کاپوریٹ اور کلب کرکٹ کھیلنے والے بخوبی ان سے واقف ہونگے۔ کورونا کی وجہ سے تمام کھیلوں پر پابندی لگی تو کرکٹ کے میدان بھی سونے ہوگئے زاہد بھائی شائد کرکٹ کی جدائی برداشت نہیں کرسکے اورایک رات حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے اس دار فانی سے سونے میدانوں کوہمیشہ کیلئے سونا کرکے کوچ کرگئے (اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے، آمین یارب العالمین)۔