وقت اپنی روش پر چلتا ہوا گزرتا جا رہا ہے، وقت انفرادی حیثیت میں بہت سبک خرام اور مستحکم ہے، اسطرح کہ دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے یہ نہیں رکتا، انسان کے احساسات جذبات معلوم نہیں اس وقت کو کیا کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن بلا کی مستقل مزاجی سے بغیر کسی کے سوال کا بروقت جواب دیئے گزرتا چلا جاتا ہے(وقت آنے پر جواب خود بخود مل جاتا ہے) اور یہاں تک کے وقت کو برا بھلا کہنے والے افراد گزر جاتے ہیں اور وقت ہمیشہ کی طرح سبک خرام گزرتاچلا جاتا ہے۔ انسان قدرت کی فراہم کردہ فطرتی عجائبات کا مظہر ہے، ہردن نئے نئے تجربات کرنے میں مگن ہے ان تجربات کیلئے اسے کسی کیمیائی تجزیہ گاہ کی بھی ضرورت نہیں۔ اس امر سے بھی کم ہی آگاہی رکھتے ہیں کہ وہ قدرت کی تخلیقات میں کس اعلی و عرفہ درجے پر فائز ہیں۔ یہی حضرت انسان کبھی کچھ کرتا ہے تو کبھی کچھ اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا الزام وقت پر دھر دیتا ہے۔ دماغ میں ایسی گرہیں لگ جاتی ہیں کہ یہ اپنی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور نا ہی اپنی اصلاح کی راہ تلاش کرتا ہے۔ خالق کائنات کا کن سب کچھ ویسا ہی کرنے پر قادر ہے جیسا کہ آسمانوں میں سب ایک باضابطہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں، پھرعالی مرتبت ٹھرانے کا، فرشتوں سے سجدہ کرانے کا بھلا کیا فائدہ ہوا۔
دنیا اپنے وجود میں آنے کے بعد صفہ ہستی سے مٹائی گئی پھر آباد کی گئی، پھر مٹائی گئی پھر آباد کی گئی اور پھر مٹائی گئی پھر آباد کی گئی (یہ بھی معلوم نہیں دنیا ہر بار کس شکل میں رہی ہوگی)۔ مٹائے جانے کے اسباب قران پاک میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر بتادئے ہیں اور جہاں تک عقل کام کرتی ہے ایک نقطہ جو ہربار مشترک رہا وہ تھا نافرمان، یعنی ہر قوم نافرمان تھی جبھی تو وہ کسی انفرادی نوعیت کے گناہ کی مرتکب ہوئی۔ قوموں کو خود کو انفرادی نوعیت کے گنا ہ میں مبتلا کیا تو وہیں نافرنی ساری غفلتوں میں نمایاں رہی۔ کسی کواللہ رب العزت کی عطاء کردہ طاقت کا زعم رہا، کوئی ایسے غافل ہوئے کہ کائنات کے فلسفہ حیات کو اڈھیڑ دیا، ایک قوم نے علم کی تمام حدیں عبور کرڈالیں اور ایک قوم ایسی تھی جو ہیر پھیر کی وجہ سے ماری گئی۔ اب ہمارے لئے سب کچھ واضح کر کے رکھ دیا یعنی بتا دیا کہ جس جس کے ساتھ جو ہوا وہ کیوں ہوا اور آپ ایسا کچھ نا کرنا کہ قہار کی صفت کو للکار بیٹھو، ہمارے پیارے نبی ﷺ کے طفیل رحمتوں و برکتوں کا سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے، حقیقت میں تو اس امت نے ہر وہ کام کر چھوڑا ہے جن میں سے ایک کرنے پر اللہ نے دیگر اقوام کو صفہ ہستی سے مٹا دیا تھاجو نشان ِ عبرت انگنت سالوں بعد زمین نے نمایاں کرنے شروع کردئیے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کے ہمارے بعد کوئی اور امت نہیں ہے اسلئے اب صرف قیامت آئے گی اور سب کچھ سمیٹ دیا جائے گا پھر جنت ہوگی یا پھر جہنم، بیچ کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔
کورونا کی پہلی لہر نے ساری دنیا کو کچھ وقت کیلئے تقریباً سہم جانے پر مجبور کردیا تھا اور معلوم نہیں کتنے لوگوں نے اسے دنیا کی آخیر تسلیم کر لیا ہوگا، منصوبہ سازوں نے بروقت اپنی نشتیں سنبھال لیں اور بیٹھ گئے کہ کس طرح سے ان حالات سے اپنی اجارہ داری کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مزید الجھاؤ پیدا کیا جائے۔ قدرت نے موقع دیا اور کسی طرح سے دنیا نے کچھ طے شدہ تدابیر کے رحم و کرم پر حالات پر قابو پانے کا غیراعلانیہ عندیہ دے دیا۔ بہت سارے ممالک ابھی بھی ایسے ہیں جنہیں کورونانے جکڑا ہواہے اور روزانہ سیکڑوں زندگیاں لقمہ اجل بنتی چلی جا رہی ہیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ موت برحق ہے اور اسکی حقیقت صرف اور صرف وہی جانتا ہے جس نے تخلیق کیا ہے، اب موت نے کیسے اور کب آنا ہے یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا جبکہ سب یہ ضرور جانتے ہیں کے موت کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں ہے، یہ کسی بھی عمر میں آسکتی ہے اسکے لئے طاقت اور کمزور کی بھی کوئی شرط نہیں ہے، موت نومولود کو بھی آجاتی ہے، ایک نوجوان بھی کو ساتھ لے جاتی ہے اور ایک عمر رسیدہ کو بھی، غرض یہ کہ موت نے اپنے طے شدہ وقت پر ہماری روح قبض کرنی ہے۔ رزق اور موت کا علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔ ایک طرف موت کی حقیقت تو دوسری طرف کورونا کا سرائیت کرتا ہوا خوف، ہم اسے کھلا تضاد کہہ سکتے ہیں۔ ہم اگر کورونا کی پہلی لہر کے اوائل کی بات کریں تو ہر ایک فرد خوفزدہ دیکھائی دے رہا تھااور تقریباً ذہنی اذیت میں مبتلا ہونے کے قریب تھے کہ حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے خود کو حالات کے حوالے کردیا گیا جو کہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔ اس طرح سے پہلی لہر میں پاکستان اور پاکستانیوں نے دنیاکے مقابلے میں نسبتاً بہت کم نقصان پر چھٹکارا حاصل کر لیا۔ دوسری لہر سے اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ زیادہ نقصان پہنچائے گی جس کی وجہ موسمِ سرما تھا لیکن بفضل اللہ تعالی بہت بہترین وقت گزار دیا گیا۔ اب تیسری لہر جو موگرمیوں کی آمد کیساتھ آئی ہے جو تقریباً ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جیسے کہ پہلی لہر کے شروع میں کئے گئے مثلاً دفتروں میں حاضری پچاس فیصد، کہیں اس سے بھی کم اور کہیں تو کام گھروں سے کرنے پر اکتفا کیا گیا، بازاروں، شادی حالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر مجمع والی جگہوں کو تقریباً بند کروادیا گیا اور باقاعدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ کورونا کی لہریں اب رکتی سجھائی نہیں دے رہیں۔ کورونا ایک ایسی آزمائش کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جو اب زندگی کیساتھ چلے گا، نا اس سے بچاؤ کی احتیاطوں کے بغیر جیا جاسکتا ہے، جینا تو احتیاطوں کے ساتھ بھی آسان نہیں ہو رہا۔
کشتی یا ناؤ کے ڈولنے کی دو واضح وجوہات ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ وزن گنجائش سے زیادہ ہوجائے جو توازن کو برقرار رکھنے میں مشکل کا سبب بن سکتا ہے اور دوسری وجہ جس پانی میں کشتی تیر رہی ہے جیسے سمندر، دریا یا نہر کسی غیر متوقع صورتحال پیدا ہوجائے جو کہ اسکے تخلیق کرنے والے کے سوا کسی بشر کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔ دنیا کے لئے کورونا بھی کسی ایسی ہی صورتحال کی ترجمانی کرتا محسوس کیا جاسکتا ہے کیا کرہ عرض پر وزن بڑھ گیا ہے طبعی وزن بڑھ گیا ہے یا پھر بدعمالیوں کا نادیکھائی دینے والا بوجھ زمین سے نہیں اٹھایا جارہا اور دنیا کے کارخانہ قدرت کو یہ بات کسی بھی طرح سے زمین کے توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت نہیں ہورہی۔ جیساکہ اوپر کی سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں کے جن کی بنیاد پر اللہ رب العزت نے دنیا کو ختم کیا اب اس تناظر میں دیکھیں تو دور حاضر میں ہر ہر وہ کام عام دیکھائی دے رہا ہے جو وہ وجوہات کی ترجمانی کر رہی ہیں جن کی وجہ سے قوموں پر سخت عذاب بھیجا گیا۔ یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ تاریخ کے اوراق میں چمک رہا ہے کہ کس طرح سے اللہ نے وقت کے طاقت ور انسان ابراہا کو اسکی تمام زمینی طاقتوں کیساتھ ایک چھوٹے سے پرندے اور اسکی چونچ میں آنے والی کنکری سے ایسا کردیا جیسے بھوس۔ مادی اعتبار سے چونچ اور کنکری کی ہیت کا خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے فیصلہ سازوں کو قدرت کے سامنے سرنگوں کرنا پڑے گا جسکے لئے حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا وگرنہ دنیا مزید کورونا کی ہر لہر پچھلی لہر سے زیادہ خطرناک ہوتی چلی جائے گی اور ساری حکت عملیاں ساری طاقتیں دھری کی دھری رہ جائینگی۔
لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر خود کو موت کے حوالے کردیتے ہیں یعنی زندگی ان سے گزرنے کا ایسا خراج طلب کرنے لگتی ہے جو وہ اداکرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بحالت مجبوری موت انہیں اپنی طرف بلا لیتی ہے اور خود کشی کی شکل میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ جن حالات میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی دھری کی دھری رہے گئی اور معیشت کسی ہچکولے کھاتی ناؤ کی طرح ڈولنا شروع ہوگئی تو پاکستان جیسے ترقی پذیر اور تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کا کیا ہوا ہوگا۔ ایک طرف تو مخیر حضرات نے دل کھول کر خرچ کرنا شروع کیا، ضرورت مندوں کی ضروتوں کو پورا کرنے کی کوششیں کیں، کچھ کو یہ احساس ہوا کہ شائد ایسے حالات میں خرچ کی گئی رقم سے وہ کچھ اپنی ابدی زندگی کیلئے کچھ سازوسامان جمع کرسکیں لیکن یہ سب وقتی حل ہوسکتے ہیں حالات کی سنگینی روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے معیشت تھوڑی سی مستحکم ہونی شروع ہوتی ہے کے کورونا کی نئی لہر سر پر اآدھمکتی ہے جو معیشت سے واپس اپنے خول میں چلے جانے کا تقاضا کرنے لگتی ہے۔ دنیا کو اس وقت کسی ایک ایسے متفق منصوبے کی ضرورت ہے جو بلا کسی تفریق تمام دنیا کے ممالک کیلئے قابل عمل ہوجس پرغیر مشروط ہم آہنگی ہو۔ ایک ایسا نظام جوبین المذاہب ہو، طاقتوراور کمزور کے درمیان فرق کو ختم کرے، جو آنے والی نسلوں کو بھوک و افلاس سے روشناس نا ہونے دے، اسلحے کی دوڑ ختم کی جائے اور فوری طور پر اسلحہ سازی کی صنعت کو روک دیا جائے تاوقت کے دنیا کے تمام انسانوں کو برابری کے حقوق بحال نا ہوجائیں، علوم ہر خاص وعام کیلئے یکساں ہوں، سب بیمار ایک تسلیم کئیے جائینگے، عدل کی ذمہ داری ہر فرد کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ یہ وہ چیدہ چیدہ عوامل ہیں جنہیں اقوام عالم ایک چارٹر کی صورت میں پیش کریں اور اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ بہت ممکن ہے اسکے توسط سے آسمانوں میں رہنے والے اور کائناتوں کے تخلیق کار کو خوش کرنے کی ادنی سی کوشش ہوجائے اور وہ کورونا نامی آزمائش سے ہم انسانوں کی جان چھڑوادیں اور پھر دنیا کو ویسا بنادیں جیسا کے بنانے والا چاہتا ہے۔