مضمون کا عنوان احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک مشہور غزل کا مصرعہ ہے جو کہ ایک مدینے جیسی ریاست کا تصور پیش کررہا ہے۔ حکومت وقت کا ریاستِ مدینہ کا تصوراس نفسا نفسی کے دور میں پیش کرنا ایک قابل ستائش اقدام ہے لیکن اسے ممکن بنانا جان جوکھم میں ڈالنے والا کام ہے، لیکن ایسا کیا ہے؟ پاکستان تو پہلے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے پھر ایسی کیا قباحتیں ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا نہیں بنایا جاسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں چور کے ہاتھ کاٹے جائینگے، زانی کو سنگسار کیا جائے اور جان کے بدلے جان دی جائے گی۔ اب ان قوانین کا اطلاق ہوجائے تو پھر ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں کیا بچے گا۔ اس دور میں جب دنیا بے ہنگم ہوچکی ہے ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنا ایک انتہائی خوش آئند کام ہے۔
ہمارے یہاں معتبر شخصیات کے درمیان زبانی کلامی جنگیں ہوتی ہیں، یہ ایسی لڑائیاں ہوتی ہیں جن پرعام آدمی لب کشائی کرنے سے گریز کرتا ہے۔ جس کی وجہ ان لوگوں کے اثر و رسوخ اور دولت کی طاقت کا رعب اورعوام کا اسکا خوف ہوتا ہے۔ ایک معتبر نے دوسرے معتبر کے بارے میں یہ بیان میڈیا پربیان دیا کہ اگر وہ سیب کھا رہا ہو اور اس سے فون پر بات کرتے ہوئے پوچھا جائے کہ کیا کھا رہے ہو تو کہے گا امرود کھا رہا ہوں یعنی اسکے جھوٹے ہونے کی ایسی بھرپورتصدیق کی گئی۔ بات یہ ہے کہ وہ دونوں صاحبان ہمارے ملک کے نامور معزز سیاستدان ہیں (یقیناًسب ہی واقف ہیں ان ہستیوں سے)۔ ریاست مدینہ میں ایسے لوگوں اور ان جیسے انگنت پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستانیوں میں سے انسانیت ختم ہوگئی ہے یہ وہی پاکستانی ہیں جو بانٹنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، جوبھوکوں کو کھانا کھلانے کیلئے جگہ جگہ دسترخوان بچھادیتے ہیں جو کھانے کی تقسیم کرنے کیلئے جنگلوں بیابانوں میں نکل جاتے ہیں، خون کی ضرورت پڑ جائے تو لمبی قطاریں لگا لیتے ہیں، یہ وہی پاکستانی ہیں جو روضہ رسول ﷺ اور اللہ کے گھرکی زیارتوں کے متوالے ہیں، یہ وہی پاکستانی ہیں جنہوں نے کبھی کسی کے کچھ مانگنے پر منع نہیں کیا، یہ وہی پاکستانی ہیں جو دنیا جہان کے دباؤ کے باوجود اپنے مدرسوں کو چلائے جا رہے ہیں، یہ وہی پاکستانی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں نیک ہوں، غرض یہ کہ ہم پاکستانی مدد کے ایسے جذبے سے سرشار ہیں جیسا شائد کوئی اور نا ہو لیکن معلوم نہیں کیوں یہ بھی ہم پاکستانی ہی ہیں جو جھوٹ بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اپنے ہی بھائی کو دھوکا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں، بے ایمانی کر کے منافع کمانے کمال فن کہتے ہیں۔ کسی کے ساتھ اچھائی کی اور دوسری طرف کسی کیساتھ زیادتی کردی۔ ہم خود ہی اپنے دوست ہیں اور ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں شائد اسکی وجہ ہمارا وہ معاشرتی نظام جو دنیا سے ذرا ہٹ کر ہے یا پھر حد درجہ سیاسی و مذہبی وابستگیاں سوچ میں عدم استحکام کا باعث ہیں جس کی وجہ سے پورا معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔
اب ایسے معاشرے میں کچھ کم کچھ زیادہ ذہنی مریضوں کے معاشرے کو کس طرح سے مدینہ جیسی ریاست سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ہماری دعا ہی نہیں بلکہ جو کچھ عملی طور پر ہوسکے گا وزیر اعظم عمران خان صاحب کے اس نیک مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار نبہاتے رہینگے۔ کیونکہ اب یہی ایک مقصد حیات ہونا چاہئے۔ ملک میں بہت سارے ایسے کام ہیں جن پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا گیا جبکہ انہیں کاموں کو کرنے کیلئے سیاست دان عوام سے ووٹ لیکر ایوانوں میں بیٹھتے رہے۔ عوامی مسائل بڑھتے بڑھتے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان پر قابو پانے کیلئے بھاری بھرکم اقدامات کرنے پڑینگے ان اقدامات سے قبل کیا یہ بات جاننے کی ضرورت نہیں کہ آخر یہ کام کیوں نہیں ہوئے ان کے علاوہ اور بہت سارے کام ہوتے رہے تو پھر یہ حکومت اور حزب اختلاف کے نام پر ایوانوں میں جلوا افروز ہونے والے کرتے کیا رہے۔ اب جب کہ ان سے یہی سب پوچھنے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ان لوگوں کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اسے جمہوریت پر پابندی کے مترادف قرار دیا جانے لگتا ہے۔ اب ان لوگوں سے کوئی یہ پوچھ ہی نہیں سکتا ہے کہ ان لوگوں نے قوم کی ٹیکس کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم کا کیا کیا؟ اور اس سے بڑھ کر جوقرضے لئے ان کا کیا کیا۔ آج یہ لوگ پارسائی کا لبادہ اوڑھے گھوم رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بدعنوانیوں کو جمہوریت کا نام دے کر انہیں چھپانے اور بچانے کیلئے پھر سے ایک ہونے کی سر توڑ کوشش کر ہے ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جسے کبھی لسانیت کی رسی سے گھسیٹا جاتا ہے تو کبھی مذہبی جذبات پر اکسا کرزبانوں پر تالے لگادئیے جاتے ہیں اور کبھی سیاسی وابستگیوں کی حد کردی جاتی ہے۔ بھلا ایسے معاشرے میں توازن کیسے آسکتا ہے لوگوں کی سوچ میں استحکام کیسے آسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت مضبوط کیسے ہوسکتی ہے۔ یہاں لوگ خود کشی بھی کرلیتے ہیں اور ذاتی یا کسی بھی مفاد کی خاطر کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں۔ یہاں غبن کرنے والے محترم بن کر بیٹھے ہیں اور بھوک کی خاطر ایک روٹی کی چوری کرنے والا بڑا مجرم بنا دیا گیا ہے۔ یہاں عزتوں کے نام پر بے عزتیاں کی جاتی ہیں۔ یہاں سر اٹھاکر جینے کا حق مانگنے والے کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں قانون کی بالادستی جتانے کیلئے کسی کو بھی سر راہ گولیاں ماردی جاتی ہیں۔ یہاں ہر دن کیلئے اپنے ذہن کی نئی تیاری کرنی پڑتی ہے کبھی کبھی تو آپکی ساری قابلیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور آپ حالات کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔
سماجی میڈیا پر ابھی ایک پیغام نظروں کے سامنے سے گزرا جس میں کچھ یوں کہا گیاتھا کہ عمران خان وہ آخری جراح (سرجن) ہیں جو مادر وطن کے بہتے ہوئے لہو کو اور زخموں کا مدا کرینگے، ملک میں اور بیرون ملک عمران خان صاحب پاکستانیوں کی آخری امید بنے ہوئے ہیں۔
اس دعا کہ ساتھ مضمون کے عنوان کو مکمل کرتے ہوئے (قاسمی صاحب کی غزل کا پہلا اور آخری شعر عرض کر رہا ہوں)
خدا کرے کہ میری عرض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نا ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کیلئے
حیات جرم نا ہو، زندگی وبال نا ہو