سچ پوچھئے تو ملک کے حالات اس نوعیت کے ہوچکے ہیں کہ کچھ لکھنے کو دل نہیں چاہتاجسکی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت و مفاہمت ہے۔ مشاہدے سے ثابت ہے کہ پانی کی ایک بوند تواتر سے کسی پتھر پر گرتی ہے تو وہ اپنی جگہ بنا لیتی ہے یعنی پتھر میں ایک گڑھا نما نظر آنے لگتاہے۔ اس عمل کی کامیابی میں پانی کی بوند کا تسلسل سے گرنا یا ٹپکنا ہے۔ یہ قدرت کی جانب سے ایک واضح دلیل ہے کہ عجز و انکساری کے تسلسل سے آپ اپنا مقام پیدا کرسکتے ہیں گوکہ طاقت اور تکنیک کی مدد سے آپ آج دنیا کی سخت سے سخت ترین دھات کو بھی پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں سوچ بچار کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، اگر کسی کو یقین نا آئے تو چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھے، گلی کے کونوں پر بیٹھے لوگوں کی صحبت میں کچھ وقت گزارلیں آپکے لئے یقین کرنا مشکل ہوجائے گا کہ آپ جن لوگوں میں بیٹھے ہیں کہیں یہ لوگ دنیا کے کسی خفیہ ادارے سے وابسطہ تو نہیں ہیں یہ آپکو یہ بھی بتا دینگے کہ دنیا پر حکمرانی کا مرکز امریکہ کے پینٹاگون میں آجکل کیا کچھڑی پک رہی ہے اور یہ جو امریکی صدر ہے اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا سے دہشتگردی کو کس طرح سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ پان اور گٹکے کی پیکوں کے گہرے میں بیٹھے ہوتے ہیں اور چائے کے کپ اور کیتلیوں کا انبار ان کے درمیان لگا ہوتا ہے یہ پاکستان کی کسی بھی کھیل میں کارگردگی ٹھیک کرنے کا گر بھی جانتے ہیں، بدقسمتی اس بات کی ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے گھر کے فارغ ترین لوگ ہیں اور اپنے گھر کی حالت سدھارنے کے علاوہ یہ سب کچھ بہت اچھی طرح سے کرسکتے ہیں، ان لوگوں میں اب وہ نوجوان بھی شمار کئے جا سکتے ہیں جن کے پاس اسمارٹ فون اور ان میں بیلنس لوڈ کروانے کیلئے گھر سے ملنے والی خرچے کی رقم ہے۔ ان نوجوانوں کو کہیں بھی جگہ مل جائے یہ وہیں بیٹھ جاتے ہیں انہیں اس بات سے بھی سروکار نہیں ہوتا کہ آس پاس کا ماحول کیسا ہے۔ ایسے لوگوں کو اور ان نوجوانوں کو ایسے ماحول کی جانب آخر دھکیلنے والا کون ہے۔
معلوم نہیں کہ کہاں سے اور کب ہمارا قومی مزاج زبانی جمع خرچ کی جانب مبذول ہوگیا؟ اس سوال کے جواب میں ہمارے پاس ایسے بے تحاشہ جواب موجود ہیں جس کے لئے ہم ساری کی ساری ذمہ داری باقی دنیا یا پھر امریکہ کو ٹھیرا سکتے ہیں جبکہ ہمارے گھروں میں چلنے والا دجالی آلہ کار جسے ٹیلی ویژن کے نام سے جانتے ہیں اس پر پڑوسی ملک کی فلموں سے لیکر ڈراموں تک کا رات گئے تک چلنے والے سلسلے پر بھی لب کشائی کی ضرورت ہے، گوکہ آجکل چیف جسٹس صاحب کی مرہون منت جزوقتی نشریات میں تعطل قائم کیا گیا ہے، جسے کل وقتی میں تبدیل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے کیساتھ ہم تنزلی کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
گزرے زمانوں میں خاندان کے بڑے بوڑھے کوئی بھی حکم صادر فرما دیا کرتے تھے اور وہ حکم وقت کیساتھ ساتھ ایک حکمت عملی کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ کس تدبرکی بنیاد پر حکم صادر کیا گیا تھا جوکہ صادر ہوتے وقت بے سروپا دیکھائی دیتا تھا۔ ہم لوگوں نے کبھی اپنے بڑوں سے دوراندیشی اور بہترین حکمت عملی کی صلاحیتیں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، اور ان عظیم لوگوں کی زندگیوں میں ان سے بھاگتے ہی رہے۔ ان سارے امور کی ذمہ داری ملک کے حکمت عملی مرتب کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے یا پھر یہ وہ خلا ہے جس کے بارے کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں۔ حکومتِ وقت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہر ادارے میں حکمت عملی بنانے اور انہیں وضع کرنے والے مخصوص لوگوں کو تعینات کرے اور ایک طے شدہ مدت بعد ان اداروں سے معلومات لے اور دیکھے کہ انہوں نے ادارے کی بہتری کیلئے کیا حکمت عملیاں مرتب دی ہیں۔ ہمارے یہاں وقتی طور پر یا جذباتیت کی رو میں بہتے ہوئے فیصلے کرلئے جاتے ہیں جن کا صحیح یا غلط ہونا وقت کے رحم و کرم پر ٹہرتا ہے۔
ہمارے ملک کے تقریباً تمام ادارے اور انکے معاملات بکھرے ہوئے ہیں اور بکھرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے مزاج میں یہ چیز سرائیت کرتی جا رہی ہے کہ جو چیز جہاں پڑی ہے اسے وہیں پڑے رہنے دیا جائے یا پھر وہی اٹھائے جو اس چیز کو وہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے، جو عمل اور سوچ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہم انفرادیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، ہر جگہ ذاتی مفادات کو فوقیت دیتے چلے جا رہے ہیں اور اسکی بنا پر ہماری اجتماعی حیثیت ختم ہوتی محسوس کی جارہی ہے۔ اس انفرادی سوچ کو دشمن نے بہت اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے اور وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ناصرف پاکستان بلکہ پاکستانیوں کو بھی مختلف اشکال کے نقصانات پہنچا رہا ہے۔ جسکا منہ بولتا ثبوت ہماری اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے ہم معاشرتی سطح پر تنزلی کا شکار ہورہے ہیں ہمارے بچے تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں لیکن علم اپنی اہمیت نا تو انکے دلوں میں جگہ بنا پا رہا ہے اور نا ہی ذہنوں میں سما رہا ہے بس کتابوں کا بوجھ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے، بچہ یہ کہہ کر کوئی بھاری سی کتاب گھر چھوڑ جاتاہے کہ اس کی وجہ سے بستہ بہت بھاری ہوجاتا ہے، یعنی کتاب کی اہمیت اسکے طبعی وزن سے ہے۔
آج پاکستان سے محبت کرنے والے معیشت کی بہتری کے لئے ایک طرف سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سر دھڑ کی بازی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے لگائی جا چکی ہے۔ یقیناًیہ اپنے اہداف میں کامیاب ہوجائینگے قدرت نے چاہ تو ملک اپنے پیروں پر بہت جلد کھڑا ہوجائے گا اور اندرونی و بیرونی دشمن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ حکمت عملی مرتب دینے والوں کو بھی ان معیشت دانوں کی طرح بہت ہی منظم اور مستحکم حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی کہ جس کی بدولت معاشی بحران سے نکل کر ملک پھر کسی بحران کی جانب پیش قدمی نا شروع کردے۔ دنیا کہ ترقی پذیر ممالک نے اپنی حکمت عملیوں کے تسلسل کے سبب ہی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی ترقیوں کی منازل طے کی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم کردار ادا کرنا ہوگا ہمیں اجتماعیت پر دھیان دینا ہوگا۔ پاکستان کی خاطر، پاکستان بنانے والوں کی قربانیوں کے خاطر، قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کی خاطر اور علامہ اقبال کی خواب کی تعبیر کی خاطر ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔ پاکستان ہمارے ایک ہونے کا منتظر ہے جس لمحے ہم ایک ہوئے دنیا ہماری غلام ہوکر رہ جائے گی لیکن اسکے لئے اپنی حکمت عملیاں سیاسی نہیں ملکی مفادات کیلئے مرتب کرنی ہونگی جن کے تسلسل میں حکومتوں کے جانے آنے سے کوئی فرق نا پڑتا ہو۔