جیسا کرو گے ویسا بھروگے یا پھر جو بویا تھا وہی کاٹو گے، اسطرح کے بہت سارے محاورے ہماری سماعتوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ بڑوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں کو سمجھائیں اور سمجھاتے ہی چلے جائیں اور ایسے بڑے ہوتے بھی تھے۔ لیکن اب تو ایسے بڑے ہونا ہی بند ہوگئے ہیں۔ کچھ وقت پہلے تک بڑے جب فارغ ہوتے تو انکا محبوب مشغلہ اپنے چھوٹوں پر تنقید اور اصلاح کرنا ہوتا تھا جوکہ چھوٹوں کیلئے نہایت ہی کٹھن وقت اور دلخراش ہوا کرتا تھا۔ بڑوں کا کام سمجھانا ہوتا ہے، بڑا وہ بھی ہوتا تھا جو سارا دن گلی کے کونے پر لگے کھبے کے نیچے بیٹھا رہتا تھا گویا اسکا کام وہاں بیٹھ کر کچھ بھی نہیں کرنا تھا لیکن وہ چھوٹے بچوں کو غیر ضروری باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر کسی کام سے کوئی بچہ جاتا تو وہ حد نگاہ اس پر نظر رکھتا تھا اور دیر ہوجانے کی صورت میں اسے تلاش کر کے بھی لاتا تھا۔ یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ اسوقت کے بڑے اس بات سے بیخبر تھے کہ یہ اپنے چھوٹوں کو آنے والا کل سے باخبر کر رہے ہیں، نامساعد حالا ت سے نبرآزماہونے کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ یہ بڑے نا ہی آنے والے دنوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے کچھ خاص آگاہ ہوا کرتے تھے۔ وقت کیساتھ ساتھ وہ بڑے گزر گئے، نئی نسل کو جو بڑے ملے ہیں وہ باخبر تو بہت ہیں لیکن وہ اپنے چھوٹوں کو اپنی بڑائی جتلانے کیلئے تو کچھ سمجھا سکتے ہیں لیکن انہیں ادب سے آگاہ کرنے کیلئے انکے پاس وقت نہیں ہے۔ ایسے بڑوں کو اس بات کی بھی کوئی خاص فکر نہیں ہوتی کہ چھوٹے انکے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جھوٹ بولنا یا سننا تو دور کی بات تھی جھوٹ بطور لفظ سنائی نہیں دیتا تھا۔ آج جھوٹ سے بات شروع ہوتی ہے اور جھوٹ پر ہی اختتام پذیر ہوجاتی ہے، جھوٹ بطور لفظ اب گونج بنا ہوا ہے اور سب ایک دوسرے کو جھوٹا جھوٹا کہتے نہیں تھکتے اور زبانیں تو گھسنے سے رہیں۔
فرد معاشرے کی اکائی ہے یعنی معاشرے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں، افراد ہی معاشرے کی اقدا ر ترتیب دیتے ہیں، تہذیب، تمدن اور ثقافت کے ضامن ہوتے ہیں۔ افراد ہی معاشروں کی پہچان کراتے ہیں اور افراد ہی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ بھوک، افلاس، غربت، بیماری، قدرتی آفات اور دہشت گردی یہ وہ عناصر ہیں جو آج کے معاشرے کو اس حدتک توڑ مڑوڑ کے رکھ دیتے ہیں کہ وہ تہذیب تمد ن اور ثقافت دور کی بات یہ بنیادی قدروں سے بھی مکر جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر لاقانونیت پوری کردیتی ہے۔ کوئی ڈوبتے سورج کو خودکشی سے بچانے کی چاہ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور کوئی جسم کو سنگ مر مر بنا کر برائے فروخت کر دیتا ہے۔ اگر معاشرہ پہلے سے ہی ناتواں، کمزوراور غیر مستحکم ہوتو پھر یہ عناصر تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتے ہیں۔ طاقتور کسی گدھ کی طرح معاشرے کو ادھیڑ ادھیڑ کر کھا جاتا ہے یا پھر کسی اپنے سے زیادہ طاقتور کو بیچ دیتا ہے۔
ہم نے اعلی تعلیمی اداروں کو ترقی یافتہ درسگاہیں بنانے کیلئے، دنیا میں اپنی واہ واہ کرانے کیلئے مغربی طرز معاشرت کو مکمل آزادی دے دی، ہم یہ بھی بھول گئے کہ معاشرے اپنے لباس سے پہچانے جاتے ہیں، اپنے برتاو سے پہچانے جاتے ہیں، ان بنیادی عوامل پر قوموں کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بحث و مباحثہ کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے گوکہ یہ معاشرے کے شعور کیلئے ایک صحت مند سرگرمی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے مباحثے اور ان مباحثوں میں شرکت کرنے والوں کا کیا معیار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر موضوع بحث کیا ہوتا ہے۔ اندازے کیمطابق پچھلی دو نسلوں کی سطحی تربیت میں معاشی و معاشرتی و ریاستی دہشت گردی نے بہت بڑا عملی کردار ادا کیا ہے۔ خوف میں مبتلا ء نسل اور اسکی بنیاد پر سوچ بچار کرنے والے لوگوں نے ان سطحی سمجھ رکھنے والوں یرغمال بنانا شروع کردیا۔ سماجی میڈیا نے شعور کو کتنا بیدار کیا یہ ہم اپنے آس پاس میں محسوس کر سکتے ہیں کہ لوگ کس طرح سے ایک دوسرے کیساتھ برتاو کررہے ہیں، وہ کس طرح سے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ جاتے ہیں اور کس طرح سے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہیں۔ ہم انفرادی طور پر ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں ہیں اور جو کوئی ذمہ داری لے اس کے پیچھے اسطرح نہا دھو کر پڑتے ہیں کہ اس ذمہ دار کی نسلیں توبہ کرلیں۔ رویوں میں ہیجان کا اس درجہ بڑھ جاناکہ کسی روٹی چوری کرنے والے کو ہاتھوں اور لاتوں سے مار دینا کسی ایک فرد کی ذمہ داری یا بے راہ روی نہیں ہوسکتی یہ پورے معاشرے کی کیفیت کا نتیجہ ہے یہی معاشرتی خرابی ہے۔
ہم اس نہج پر پہنچنے والے ہیں جہاں علم بھی ہوگا، لامتناہی معلومات بھی ہونگی، ایک سے ایک مسائل پر بات کرنے والا بھی ہوگا، راستے بتانے والے بھی ہونگے لیکن افسوس کوئی بھی عمل کرنے والا نہیں ہوگا اور کوئی صحیح راستہ چننے کیلئے تیار نہیں ہوگاکیوں کہ تربیت کرنے والے ہاتھوں میں موجود موبائل اور اس جیسے دیگر آلات نے اپنے ذمہ داری سے منہ پھیر لیا ہے سب وقت کے ہاتھو ں بک چکے ہیں۔ آج حضرت انسان کو گزرے ہوئے لوگوں اور وقت پر سوائے وقتی افسوس کرنے کے اور حال اور مستقبل میں غرق ہونے کے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔
یقین نہیں کرنا چاہتا کہ ہماری ترجیحات معاشرے کی اقدار سنبھالنے کی طرف سے مکمل طور پر ہٹ چکی ہیں، ہم ہر معاشرتی تخریب کاری پر اپنی بے بسی کے اظہار سے زیادہ اور کچھ کرتے نہیں دیکھائی دے رہے۔ یہ ممکن ہوچکا ہے کہ آج ہم معاشرے پر سے نظر ہٹا لیں اورنئی نسل کو من مانی کرنے دیں، اور اپنی نظریں اپنے ہاتھوں میں موجود موبائل پر جما لیں، ہم چھوڑ دیں نئی نسل کو کہ وہ جو چاہے کرتی پھرے۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ جنگیں زبانی کلامی جیت لی جاتی ہیں۔ وقت کو باگیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ہم سمجھتے ہیں کہ نئی نسل کو معاشرتی اقدار بنانے یا پرانی اقدار سنبھالنے کی جانب راغب کیا جانا چاہئے تو آئیں اس وجہ سے کہ وہ نہیں سنے گیں ہم بولنا نہیں چھوڑینگے ہم محبت کی مقدار بڑھا دینگے ہم انکے لئے وقت نکالینگے۔ ہم چوبیس گھنٹوں کی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالیں اور سوچیں کہ ہم کس معاشرے کو کس معاشرے سے بدلنے والے آلہ کار بنتے جا رہے ہیں۔ خدارا کچھ وقت نکالیں ورنہ وقت تو ہ میں نکال ہی دے گا۔ کچھ نا سہی تو اتنا ہی سوچ لیں کہ معاشرے کو آپ کیا دے رہے ہیں۔ (وقت نے مہلت دی تو اس پر اور لکھا جائے گا، اپنی آراء سے آگاہ کریں)