ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بد تر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ بنیادی طور پر سارا فساد معیشت کیلئے ہے، یہ انفرادی پیٹ و دیگر آسائشوں کے حصول سے شروع ہوتا ہے اور اجتماعیت کی سرحدوں سے ٹکرا جاتا ہے، گوکہ تاحال انسانی خواہشات کی کوئی متعین نہیں کی جاسکی ہے۔ معیشت کے استحکام کیلئے ایک دوسرے کی ذاتی ملکیت پر قبضہ کرنے سے لیکر پورے پورے ملکوں پر قابض ہونے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی اور یہ سلسلہ ابھی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ دور میں قبضہ کرنے کیلئے بے تحاشہ ایسی ایجادات موجود ہیں کہ جن سے بغیر تخریب کاری کئے اپنے ممکنہ احداف حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ عطاء کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے والاعام طور پر خطاکر جاتا ہے، اس لئے عطا کی ہوئی شے کو عطا کرنے والے کی رضا کیمطابق استعمال کروورنہ عطاء سے الگ کر دئیے جاو گے۔
کسی بات کا وقت پر سمجھ آجانا اور اسکو سمجھ کر اس پر عمل کرنا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے۔ بچپن میں جب طرح طرح کی چیزیں نظروں کے سامنے آتی ہیں تو معصوم سا دل کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اسے مل جائے، کبھی کبھی تو یہ دل بہت ضد بھی کرتا ہے اور جسکے نتیجے میں اسے اپنے خول یعنی جسم کی مرمت بھی کروانی پڑ جاتی ہے، پھر کہیں جاکے جز وقتی قرار آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب نا تو طاقت ہوتی ہے، نا اختیار اور نا ہی خریداری کیلئے رقم دونوں کیلئے کسی کے محتاج ہوتے ہیں اور یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں کہ کس وجہ سے اس چیز سے باز رکھا جا رہاہے۔ پھر وقت گزرتا ہے جب طاقت آجاتی ہے کسی حد تک اختیار بھی آجاتا ہے لیکن رقم محدود بلکہ قلیل میسر ہوتی ہے لیکن جن چیزوں سے پہلے روکا گیا تھا انکی سمجھ آجاتی ہے پھرنئی روک ٹوک پرانی روک ٹوک کی جگہ لے لیتی ہے جو کہ بہت ناگوار گزرتی ہے اور اپنے مطالبات کے رد ہوجانے پر مختلف قسم کے احتجاج شروع ہو جاتے ہیں اور احتجاج کی نوعیت مطالبے سے براہ راست مطابقت رکھتی ہے یعنی جتنا شدید مطالبہ ہوتا ہے اتنا ہی شدت سے بھرپور احتجاج ہوتا ہے۔
اب وہ وقت آجاتا ہے جب طاقت، اختیار، دولت اور سب سے بڑھ کر من چاہی زندگی گزارنے کا اختیار آجاتا ہے۔ اب تقریباً ساری روک ٹوک کسی کتابوں کی الماری میں رکھی ہوئی کتاب کی طرح دماغ میں سمائی ہوتی ہے، یہاں سے وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جب آپ کسی کیساتھ وہ سب کچھ جو آپ پیچھے جھیلتے آئے ہو کسی اور کیساتھ کرنا ہوتا ہے۔ آج سب چیزوں کی ترتیب واضح ہوتی دیکھائی دیتی ہے او رکبھی تنہائی میں بیٹھے ہوئے زیر لب خود بخود مسکراہٹ زیر لب پھیل جاتی ہے جیسے کوئی بچپن کی بہت ہی معمولی سی چیز کیلئے کی جانے والی ضد کے بدلے میں مرمت کا یا پھر کسی اور طرف دھیان بانٹنے کا یاد آجانا۔ وقت کا پہیہ گھومتا چلا جاتا ہے آگے والے بہت آگے چلے جاتے ہیں پیچھے والے آگے آجاتے ہیں اور انکے پیچھے اور نئے لوگ آجاتے ہیں۔ اس ساری گفتگو میں انسان کی نافرمانی بنیادی جز ہے جو ایک نا فرمانی (بطور بیج زمین میں دفن کیا جاتا ہے)کے نتیجے میں وقت آنے پر ایک درخت کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔
یقین سے لکھ رہا ہوں کے تقریباً ہم سب ہی اپنی اپنی نافرمانیوں کی شناخت بہت آسانی سے کرسکتے ہیں اگر کرنا چاہیں، ہم سب ہی ایک نامعلوم بھاگ دوڑ میں مگن ہیں اور یہ جاننا بھی نہیں چاہتے کہ آخر اس بھاگ دوڑ سے سوائے تھکن کے اور کیا ملنے والا ہے۔ البتہ اس تیز ی سے گزرتے وقت میں ہمارے کتنے ہی ہم سے بچھڑ جاتے ہیں اور پھر ہم انکے بچھڑجانے کے غم میں کئی کئی دن تک مبتلاء رہتے ہیں اب اگر یہی وقت انکی زندگی میں انہیں دے دیا ہوتا تو اس طرح سے بیٹھ کر ہاتھ نا مل رہے ہوتے۔
گوکہ خالق کائنات جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے ایک نقطہ نواز ہے جیسے چاہتا ہے اسکے لئے بخشش کا سامان پیدا کردیتا ہے۔ بخشنے کیلئے کبھی راستے سے ہٹائے ہوئے پتھر کی عوض تو کبھی قبر پر ایک مٹھی مٹی ڈالنے کی بدولت بخش دیتا ہے بس اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ فلاح شخص کو جنت میں داخل کردو۔ رسی جتنی ڈھیلی ہوگی نافرمانی کی اتنی ہی گنجائش پیدا ہوتی جائے گی۔ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں جو کلمہ توحید کی رسی کواس طرح اپنے گلے کا طوق بناتے ہیں کہ نافرمانیوں کی گنجان صحبتوں میں بھی اپنے آپ کو فرمانبردار رکھ لیتے ہیں اور یقینا یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو فلاح مل جاتی ہے۔
نافرمانی فرد واحد کی ہو یا پھر ایک خاندان کی ہو یا پورے معاشرے کی تباہی کو دعوت دیتی ہے، جس طرح سے ایک مخصوص وقت تک نافرمانی دیکھائی نہیں دیتی اسی طرح سے مخصوص وقت تک تباہی کا بھی نہیں پتہ چلتا۔ ایک فرد نافرمانی کر رہا ہے اور کرتا ہی چلا جا رہا ہے جبکہ اسے پہلی نافرمانی سے سزا ملنا شروع ہوچکی ہے (جوکہ وہ خود جانتا ہے) لیکن کیونکہ بظاہر کوئی نقصان ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا اسلئے اس نے نافرمانی ترک نہیں کی اور آہستہ آہستہ تباہی کی طرف خود کو لیئے جارہا ہے۔ ایک فرد کی نافرمانی کی دیکھا دیکھی دیگر افراد بھی اس نافرمانی کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر اصلاح کا پہلو دیکھے بغیر یہ عمل جاری رہتا ہے اب تباہی قوم یا پھر خطے پر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے ہمارے طرز تحریر سے قارئین کی تشفی نا ہوئی ہو لیکن یہ یقین ہے کہ بنیادی نقطہ ضرور سمجھ آگیا ہوگا۔
عطاء کا شکر ادا کرتے رہیں، عطاء کرنے والا تو ناشکروں کو بھی دیتا ہے لیکن اسنے تقسیم کر رکھی ہے، شکر کرنے والوں کیلئے دائمی خیر ہے اور ناشکروں کیلئے یہیں کی عطاء سب کچھ ہے۔ عطاء کرنے والے کی مرضی سے آگاہ رہیں اورآگاہی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نافرمانی ہوتی ہے دانستہ ہو یا غیر دانستہ تلافی کریں اور ایسی تلافی کریں کہ عطاء کرنے والا اپنے عرش والوں کو دیکھائے کہ دیکھو میری عطاء کو سمجھنے والے انسان ایسے ہوتے ہیں۔ ہم نافرمانیوں کی دلدل میں دھنستے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ اس عارضی زندگی کو پرسکون بنانے کیلئے دائمی زندگی کا سکون کیوں برباد کر رہے ہیں، ہم محسن انسانیت ﷺ کے امتی ہیں بھلا اپنے پیارے نبی ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے یا اس قطار میں کھڑے ہونے کا موقع بھی مل پائے۔ آپ خود سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ کیا میں نافرمان ہوں تو جو جواب آئے اس سے کھلے دل سے تسلیم کریں اور فرمانبرداری کی طرف دوڑ لگائیں۔