پاکستان میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی اتنی طویل فہرست ہے جو پاکستان کی سرحدوں سے نکلتی ہوئی دوسرے ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ ان بے ضابطگیوں پر ہر حکومت نے واویلا کیا گوکہ وہ خود بھی ان بیضابطگیوں کا حصہ تھے۔ بدقسمتی سے اداروں کی خودمختار ی ہمیشہ سے سوالیہ نشان کی زد میں رہی۔ کہیں سیاست کا عمل دخل رہا تو کہیں اثر و رسوخ والی شخصیات اداروں کی عملداری پر اثر انداز ہوتی رہیں۔ بااختیار لوگوں نے جہاں جہاں ممکن تھا اپنا اختیار استعمال کیا اور ہر ممکن ذاتی مفادات پر ملکی مفادات کو خاطر میں نہیں رکھا۔ حیران کن بات تویہ ہے کہ ۰۷ سال سے زائد گزرجا نے کے بعد بھی کسی بیضابطگی کا پتہ نہیں چلایا جاسکا اور اگر پتہ لگ بھی گیا ہے تو اسے ایک نئی بیضابطگی میں تبدیل کر کے بند کردیا گیا۔ ادارے جب اپنی پر آتے ہیں تو پھر ان سے جیتنا مشکل ہوتا ہے اور پھر جب یہ ادارے سرکاری ہوں تو پھر تو کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ گیہوں کیساتھ ساتھ تو گھن بھی پس جاتا ہے۔
کراچی کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری صوبائی حکومت سندھ کی زیادہ ہے جبکہ جزوی طور پر یہ ذمہ داری بلدیاتی اداروں پر عائد ہوتی ہے، جب وزیر بلدیات، بلدیاتی اداروں کیساتھ باہمی ربط قائم نہیں کرینگے، کیا ہورہا ہے کیسے ہورہا ہے اور کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی جسارت نہیں کرینگے تو پھر ذمہ دارتو گھر کا بڑا ہی ہوتا ہے۔ عمومی رائے کیمطابق متحدہ قومی موومنٹ کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سے کراچی والوں کو انکے اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت تو کبھی بھی کراچی کیساتھ اپنی نیک نیتی کا ثبوت نہیں دے سکی۔ جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جو کراچی میں پہلے بھی اور اب بھی اچھا خاصہ اثر و رسوخ رکھتی ہے لیکن ایسا کیوں لگتا ہے کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی مکمل حمایت کیلئے کراچی والوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا یا بڑھایا تو کچھ ایسا تاثر رہا ہے کہ کراچی والے کھلے دل سے حمایت کرنے سے گریزاں رہے ہیں (وجوہات کسی اور مضمون میں پیش کرینگے)، یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی مخصوص معاملات میں منظر عام پر رہتی ہے اور عملی کام میں کہیں دیکھائی نہیں دیتی (شائد اسکی وجہ اختیارات نا ہونا بھی ہوسکتا ہے)۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی کو متحدہ قومی موومنٹ کے اٹوٹ سحر سے باہر نکلا(قانون نافذ کرنے والوں کا اپنا کردار ہمیشہ سے رہا ہے)، گوکہ ابھی بھی کراچی کی اکثریت متحدہ کو ہی کراچی کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے ان ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی والوں کے ووٹوں کا احترام کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کو حکومت میں حصہ دار بنایا اور کراچی کو واپس روشنیوں کا شہر بنانے کیلئے ہر ممکن ساتھ دیتے رہنے کا عزم کیاہوا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت قومی اسمبلی میں کراچی سے منتخب ہونے والے علی زیدی صاحب کی چلو کراچی صاف کریں مہم ہے، یہ علی زیدی صاحب کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ شہر کراچی شدید اور طویل بارشوں کا دورانیہ برداشت کر گیا۔ اگر نالوں کی اور جگہ جگہ سے کچرا نہیں اٹھایا گیا ہوتا تو سب خوب جانتے ہیں کیا ہوتا۔
آج بھی کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ کماؤ پوت شہر ہے، گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور گاؤں دیہاتوں سے لوگوں نے کراچی میں روزگار کیلئے ہجرت کی ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی اچانک دوگنی تگنی ہوگئی۔ ہجرت کرنے والوں کو جس چیز نے اپنی طرف راغب کیا وہ کراچی میں روز گار کے وسائل ہیں۔ یہ بات بھی اب سب جان چکے ہیں کہ کراچی ایک غریب پرور شہر ہے یہاں سڑک کنارے یا کسی پارک میں سونے والا بھوکا اٹھے گا ضرور لیکن بھوکا سوئے گا نہیں۔ گزشتہ کراچی کے اخبارات میں شہ سرخیاں لگیں وہ کراچی والوں کے دل پر کسی تیز دھار آلے کی طرح چلیں یقینا محب وطن تمام پاکستانیوں کیلئے بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی ہونگی کہ کراچی بہترین شہروں کی فہرست سے نکل کر بد ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
ایک وقت تھا جب کراچی کے منتخب نمائندے، کراچی کی گلی، محلوں، سڑکوں اور یہاں تک کہ نکاسی آب کے نظام کو خود درست کرتے دیکھائی دیتے تھے۔ آج کراچی کسی یتیم مسکین کی طرح اپنی مدد کیلئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہے، کراچی کی آواز گم ہوچکی ہے اب ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ کراچی مختلف قسم کی مافیاؤں کی زد میں ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان مافیاؤں کی زد میں دیا کس نے، آخر پاکستان کا سب زیادہ وسائل پیدا کرنے والا شہر مسائل کی سولی ایک رات میں تو نہیں چڑھ گیا۔ آج کراچی حسرت بھری نظروں سے خاموشی سے اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کچرا پھینکنے والوں کو تکتا رہتا ہے، جگہ جگہ پانی کہ جوہڑ وں میں مچھر مکھی پیدا ہو رہے ہیں۔
ارباب اختیار سے ایک ادنی سی گزارش ہے کہ حکومت سندھ اور بلدیاتی ادارے علاقائی سطح پر، ہر علاقے میں مخیر و معتبر خواتین و حضرات پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دیں، ان کمیٹیوں میں علاقے کے تھانے کو بھی تنبیہ کی جائے کہ وہ کمیٹی کی ہر ممکن قانونی معاونت کرے، انہیں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ کوئی ان سے کسی قسم کی رشوت یا بدعنوانی کیلئے نہیں کہہ گا۔ بلدیاتی ادارے اپنی ہر قسم کی افرادی و مشینی مدد فراہم کرینگے، بلدیاتی افسران کچرے کو تلف کرنے کی جگہ اور پہنچانے کیلئے بروقت گاڑیاں فراہم کرینگے۔ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے جس میں اس طرح کی کمیٹیاں مسجدوں کی سطح پر بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ وسائل سے فائدہ اٹھانے والوں کی تو کمی نہیں ہے لیکن مسائل سے جان چھڑانے والے علی زیدی اور ان جیسے دیگر خاموش سپاہی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ کہنے کو تو سب ہی کہہ رہے ہیں کہ آئیں کراچی کو اپنائیں لیکن مذکورہ کمیٹیاں عملی شکل میں میدان عمل میں آگئیں تو سمجھ لیں کہ کراچی کو اپنانے والے اپنے گھروں سے نکل آئینگے۔