1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. کشمیر کی آزادی کا سورج!

کشمیر کی آزادی کا سورج!

دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان جیسی ریاست اور پاکستانیوں جیسی قوم ساری دنیا میں نہیں مل سکتی۔ سال ہا سال سے دکھ، تکالیف اور مسائل کی چکی میں پستے رہنے کے باوجود اس قوم نے کبھی ہار نہیں مانی اور نا ہی ابتک گھٹنے ٹیکے ہیں، یہ حالات سے تاحال لڑنے کیلئے روز اول کی طرح پر عزم دیکھائی دے رہی ہے اور موجودہ حکومت کیساتھ مل کر معاشی بدحالی کی جنگ میں برسر پیکار ہے۔ حکمرانوں نے چھوٹے چھوٹے مسائل میں سال ہا سال سے الجھائے رکھا ہے، پینے کو پانی نہیں ملتا مگر ٹینکر مافیاء خوب پروان چڑھ رہا ہے، سڑکیں ٹوٹی ہیں، سفر کی سہولیات بد ترین ہیں، صحت کی کسی کو کوئی فکرکبھی رہی ہی نہیں (اپنا علاج معالجہ ملک سے باہر ہوتا رہا ہے)، نکاسی آب کی بدتر صورتحال شہر کہ شہر گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوئے ہیں، گٹر ڈھکنوں کے بغیر معصوم بچوں کی قیمتی جانیں نگل رہے ہیں، مطلب زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نا ہونے کے باوجود ہم پاکستان ہر تہوار بھر پور طریقے سے مناتے ہیں، ہم پھر بھی اپنے ملک کی خاطر سردھڑ کی بازی لگانے کے دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی مظاہرے دنیاکو دیکھاتے ہیں، خود کش حملے ہمیں مسجدوں سے دور نہیں کرپاتے، مندروں کلیساؤں کی رونقیں بھی ماند نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان دشمن عناصر کہیں یا اسلام دشمن عناصر، دونوں ہی پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے درپہ ہیں یوں تو ہمارے ملک میں بیرونی ہاتھ اپنوں کی آستینوں میں چھپے رہتے ہیں۔ ان سارے دشمنوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ کسی بھی طرح سے پاکستان کو اتنا غیر مستحکم کردیں کہ اسکا وجود ہونا نا ہونا ایک برابر ہوجائے۔ یہ داخلی اور خارجی پر طرح کی سازشوں کا جال بن کر دیکھ چکے ہیں، یہ ہر چھوٹا بڑا حربہ آزما کر دیکھ چکے ہیں لیکن پاکستان ہے کہ ہر روز نئے عزم اور نئے حوصلے کیساتھ جاگتا ہے(الحمدوللہ) اور دشمن اپنی سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔
اتنے مسائل اور مصائب کے باوجود پاکستان کی آسودگی دیکھ کر، بھارت اپنی کھسیانی کیفیت سرحدوں پر اندھا دھند گولا باری کرکے ظاہر کرتا ہے جہاں سرحدوں کیساتھ رہنے والے معصوم لوگ اس گولہ باری کا نشانہ بنتے ہیں اور ہنتے مسکراتے شھادت کے رتبے پر فائز ہوجاتے ہیں، یہ لوگ اپنی جگہ اپنی زمین اپنی مٹی سے محبت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ یہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے پاکستانی ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے مستقبل کی کشیدگی کے پیش نظر یہ الفاظ ہمارے لئے چھوڑے ہیں کہ:مسلمان مشکل حالات میں گھبرایا نہیں کرتا:اور ہم ہیں کہ گھبرانے کیلئے تیار نہیں۔

آسائشوں سے بھری ترقی یافتہ دنیا کو بھلا کون چھوڑنا چاہتا ہے اور خصوصی طور پر انہیں جنہوں نے اسکے لئے بھرپور تگ و دو کی اور اپنی نسلوں کیلئے آسائشوں کا انبار لگادیا ہے، جن کواب یہ سہولیات باآسانی دستیاب ہیں، بات ہورہی ہے ترقی یافتہ دنیا کی جو عملی طور پر پر امن رہنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ ہر قیمت پر امن قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یقینا یہ اس رنگ و نورسے منور دنیا کو نا ہی چھوڑنا چاہینگے اور ناہی دنیا کی رعنائی کو معدوم ہوتا دیکھ پائینگے۔ جس کے لئے انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ ان تمام عناصر کو جو دنیا میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنا چاہتے ہیں، انہیں کسی بھی طرح سے روکیں ورنہ انکی برس ہا برس کی محنت چند ساعتوں میں رائیگاں ہوجائے گی۔ سب کو معلوم ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو پھر وہ پھیلتی ہی جاتی ہے اور جسکا گھر جل رہا ہوتا ہے وہ پھر سارے گھر جلادینے کیلئے نکل پڑتا ہے۔ جی ہاں! کشمیر جل رہا ہے گزشتہ کئی سالوں سے کشمیر کا رواں رواں جل رہا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اس آگ کو پھیلنے نہیں دیا ہے۔ لیکن دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو دنیا کو ایک ایسی آگ میں دھکیلنے پر تلا ہوا ہے جس میں جل کر وہ خود بھی تہس نہس ہوجائیگا۔ پاکستان اور پاکستانی شہادت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کی افواج روزانہ کی بنیاد پر کر رہی ہیں۔ یہ خاکی وردی والے خاک میں ملادینے کی بھرپور صلاحیت تو رکھتے ہیں اور بارہا اس کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔ یہ جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں اور حسب ضرورت اپنی سرحدوں کی حفاظت پر قربان کردیتے ہیں۔ جس دھرتی کے رکھوالے موت کے ایسے متوالے ہوں پھر بھلا اس دھرتی پر رہنے والوں کو خدا کے سوا کسی کا خوف، خوفزدہ نہیں کرسکتا۔

بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب دھونس دھمکی کا دور گزر چکا ہے، زمانہ جاہلیت کی تمام روایات یوں تو چودہ سو سال پہلے مٹا دی گئی تھیں لیکن بھارت آج تک اس جاہلیت کے اندھے اور گندے گڑے میں پڑا رہا ہے جس کی وجہ سے اسکی ذہنیت بھی گل سڑ چکی ہے، اس گلی سڑی ذہنیت کی بدبو آج ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ جدوجہد کشمیر بغیر میڈیا کے بھی جاری تھی، جب کسی کو علم نہیں تھا کہ وادی میں کیا کچھ ہو رہا ہے وہ جب بھی اسی جوش و جذبے سے جاری و ساری تھی اور آج جب دنیا ظلم اور بربریت کی منہ بولتی تصویریں دیکھ رہی ہے پھر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت کی کشمیر میں جارحیت اورریاستی دہشت گردی کا بہت زیادہ ہوجانے کی وجہ پاک امریکہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز تو نہیں ہے؟ ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ ایک طرف امریکہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا عالمی ڈرامہ رچا رہا ہو اور دوسری طرف بھارت سے پاکستان کو تنگ کرنے کا کہہ رہا ہو، امریکہ پاکستان سے اس وقت تک تعلقات کی بہتری کا ڈرامہ رچاتا رہے گا جب تک کہ اسے افغانستان سے مزید نقصان کئے بغیر واپسی کا راستہ نہیں مل جائیگا۔ پاکستان کسی حد تک افغانستان میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے، جسکی وجہ بھی امریکہ ہے اور یہ بات بھارت کو یقینا ناگوار گزر رہی ہے اور وہ اپنی ناگواری کا اظہار نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا کر کر رہا ہے۔

غرض یہ کہ کشمیریوں کا خون اس لئے بھی بہایا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک بااعتماد قیادت کے حوالے ہوچکا ہے جو حالات وتنازعت کو بہترین عالمی تکاضوں کے مطابق حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جو اپنے ملک کی سالمیت کی خاطر کسی بھی قسم کا حتمی قدم اٹھانے کی بھی بھرپور اہلیت رکھتی ہے جس کا مظاہرہ دنیا نے ۷۲ فروری کو پیش آنے والے واقع کی صورت میں دیکھ چکی ہے۔ دنیا کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اب بھی بھارت پر کشمیر کے معاملے پر دباؤ نہیں ڈالا گیا تو بہت جلد کشمیر میں لگی آگ ساری دنیا میں پھیل جائے گی۔ کشمیر کو لیکر دنیا کو اپنی بے حسی کو ختم کرنا پڑے گا۔ ہم اس دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ظلم اور ظالم دونوں ہی عوام کے سامنے ہونگے اب عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ظالم اور ظلم کیخلاف کھڑے ہوجائیں یا پھر انتظار کریں کہ انکی باری کب آئے گی کیوں کہ بلی کا آنکھیں بن کرلینا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ظالم کے ظلم سے محفوظ رہ سکے گی۔ رات کی تاریکی اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ صبح کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ کشمیر اپنی آزادی سے بس کچھ فاصلے پر ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت سید علی گیلانی اور یسین ملک صاحبان کو اپنی حفط و امان میں رکھیں اور ہم سب انکی جدوجہد کا پھل انکی آنکھوں سے دیکھیں۔