کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے بنیادی ماخذ کیا ہے یعنی یہ مسئلہ، مسئلہ کیوں بنا ہے، بنیادی ماخذ جانے بغیر کسی بھی مسئلے کا عبوری حل تو نکالا جاسکتا ہے لیکن وقت کیساتھ وہی مسئلہ اور بھرپور طریقے سے سر اٹھالیتا ہے جو کہ کسی بڑے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انسان اپنے حساب سے معاملات طے کرتا ہے اور غلطی سے وہ اپنے آپ کو دنیا کا عقلِ کل سمجھنا شروع کردیتا ہے بس انسان ایک سمجھ سے دوسری سمجھ میں پھنس جاتا ہے اب اسکے اقدامات جو کہ بظاہر درستگی کرتے دیکھائی دیتے ہیں جبکہ درحقیقت اس کے برعکس ہورہا ہوتا ہے۔ مغربی میڈیا نے اسلام کے خلاف کیا کچھ نہیں دنیا کے سامنے نہیں پیش کیا۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والا واقع بھی اسی میڈیا کے مرہونِ منت ہے۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے اس کچھ کرنے میں ضروری نہیں کہ وہ اچھا ہی ہو، برا بھی ہوسکتا ہے اور برا کرنا اچھا کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو دنیا کی بڑی طاقت کہلوانے کا امریکی جنون بھی کچھ برا کر بیٹھا اور بدلاؤ کے اس دور میں نائن الیون کی تاریخ ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گئی۔ تاریخ دان لکھتے تھے کہ جنگ عظیم دوئم سے پہلے ایسا ہوا یا جنگ عظیم دوئم کے بعد ایسا ہوالیکن اب مورخین یوں تاریخ رقم کرینگے کہ نائن الیون سے قبل کی دنیا اور نائن الیون کے بعد کی آگ اور خون میں لپٹی دنیا۔ غور کیجئے دنیا جدید ترین ہوتی جارہی ہے کیسی کیسی سہولیات آسائشوں کی شکل میں میسر ہوتی جا رہی ہیں لیکن خوفناک حقیقت یہ ہے کہ یہ آسائیشیں ہی دنیا میں بد امنی کا سبب بننے کا ایک جواز بھی پیدا کر رہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آسائشیں، آلائشیں کب بنتی ہے، ظاہر سی بات ہے جب دنیا انسانی زندگی کیلئے محفوظ نہیں رہیگی (جیسا کہ دیکھائی دے رہا ہے )تو انسان کو شہروں سے نکل کر جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرنا پڑے گا یعنی جہاں سے انسان نے اپنا سفر شروع کیا تھا اب حضرت واپس وہیں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سکون نے وحشت کی شکل اختیار کرلی ہے اور اس وحشت کو ہم خود لئے گھومتے ہیں اب وہ وحشت جو جنگلوں میں رہتی ہے سکون بنے والی ہے۔ فارم ہاؤسز کا کاروبار بہت زور و شور سے چل رہا ہے کیا یہ فارم ہاؤس شہروں سے باہر نہیں ہیں کیا یہاں آپ مخصوص لوگوں کیساتھ وقت نہیں گزارتے۔ انسان تو ویسے بھی اپنے لاشعور کا غلام ہے۔ شعور میں آتے ہی سر پکڑ کے بیٹھ جاتاہے۔
تقسیم کا عدم توازن بگاڑ کا باعث بنتا جا رہا ہے، یہ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کاسنگین ترین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، تقسیم مال کی ہو، حقوق کی ہو یا انصاف کی دنیا آہستہ آہستہ مختلف معاملات میں پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ دنیا کی تباہی اسی دن شروع ہوگئی تھی جس دن امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکا تھا۔ امریکہ نے دنیا کو اپنی اجارہ داری کا پیغام بہت ہی بھیانک انداز میں دیا تھا۔ دنیا کی اکثر ریاستیں تو اس خوفناک طرز عمل سے خوفزدہ ہوگئیں لیکن اس دور میں حالات کی سنگینی اتنی تیزی سے دنیا کو معلوم نہیں ہوتی تھی بہت سارے معاملات تو اب جاکہ منظر عام پر آئے ہیں لیکن کیوں کہ وقت بہت آگے آچکا ہے اس لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ طاقت کے عدم توازن میں توازن پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے اب وہ خوف نہیں ہے جو ترقی کے اس دور سے پہلے رہا ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عام انسان نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک اتنا چھوٹا سا آلہ جسے ہم موبائل کہتے ہیں ساری دنیا میں ہاتھ میں لینے کہ مترادف ٹھہرے گا۔ گوگل ایک ایسا جانکاری کا خزانہ ہوگا جو آپکو آپکی ضرورت کے عین مطابق نا صحیح لیکن کہیں آس پاس چھوڑ آئے گا۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران پروفیسر اوین برائن ٹون جنہوں نے پینتیس (۳۵) سال جوہری جنگ کا مطالعہ کیا ہے نومبر ۲۰۱۷ میں دیا گیا ایک لیکچر سامنے آیا (جسے آپ چاہیں تو یو ٹیوب پر پروفیسر اوین برائن ٹون لکھ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن سکتے ہیں)۔ مختصرا یہ لیکچر اس بات سے آگاہ کرنے کیلئے تھا کہ اگر جوہری ہتھیار رکھنے والی طاقتوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ سمجھ لیجئے دنیا بہت قلیل وقت میں ذی روحوں سے نجات حاصل کرلے گی، وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بچ بھی جائے گا تو وہ کچھ دنوں کے بعدمرجائے گا کیونکہ زمین پر سے پانی خشک ہوجائے گا اور زمین کاشتکاری کے قابل نہیں رہیگی۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دنیا کا ہر فر د جانتا ہے اور وہ بھی جانتے ہیں جن کہ پاس اختیارات ہیں۔
دنیا کو اس آگ میں جس میں جل کر جلد ہی ختم ہونے جارہی ہے، امریکہ نے دھکیلا ہے یہ بات سمجھ سے قاصر ہے کہ تاریخ ایسی عظیم ریاستوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے بغیر کسی وجہ کہ خاموشی اختیار کر کے عالمی دہشت گردی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا موقف بہت واضح رہا ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتااور نا ہی کوئی ملک ہوتا ہے جب کہ دنیا نے پاکستان کو یہ باور کرانے کی بارہا کوشش کی ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے اور پاکستان دہشت گردوں کا ٹھیکانہ، ابھی گزشتہ کل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پھر سے بھارتی الزامات کی توثیق کردی کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اب جب نیوزی لینڈ کہ شہر کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کی عبادت گاہ (مسجد) میں ایک سفید فام غیر مسلم نے جیتے جاگتے اپنے رب کے حضور حق بندگی ادا کرتے مسلمانوں کو اپنی نفرت کی گولیوں سے انہیں شھادت کے رتبے پر فائز کردیا۔ پچاس جیتی جاگتی ہنستی کھیلتی زندگیوں کے چراغ گل کردئے گئے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایسا کچھ کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ نیوزی لینڈ میں ایسا ہوجائے گاجیساکہ ہم پاکستانی تو ہر وقت ایسے کسی بھی حادثے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آگ نفرت کی ہو یا ایندھن کی جہاں بھی لگتی ہے سب راکھ کر دیتی ہے۔
دنیا اپنے نیچے بارود بچھا چکی ہے آگ اور نفرت کا بارود، اسلحہ بیچنے والے بس یہ سمجھ کر اسلحہ بیچ رہے ہیں کہ یہ اسلحہ انہیں کچھ نہیں کہے گا جبکہ یہ بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ گولہ بارود کی آنکھیں نہیں ہوتیں جب یہ چلتی ہیں تو بس تباہی ہوتی ہے نایہ دیکھتا ہے کہ جس پر چلانا ہے اسی پر چل رہا ہے یا پھر کوئی اپنا اسکی زد میں آکر جان کی بازی ہار جائے گا۔ موجودہ صورتِ حال جہاں کشمیر اور فلسطین میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جہاں پاکستان اور ہندوستان کی فوجیں سرحدوں پر چوکنی کھڑی ہیں، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی تباہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چھڑنے والی جوہری جنگ کی منتظر ہے۔ پاکستان ہندوستان ہی نہیں ہرطرف سے دھمکی آمیزبیانیوں کا شور ہے اور امریکہ ہے کہ اپنے صدر کے صدارتی شوق میں گھر کر گیا ہے۔ پاکستان میں کامیاب پاکستان سپر لیگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور اب پاکستان آسٹریلیا سے سریز کھیلنے دبئی جا رہا ہے کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ اس وقت جب کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعے میں سفاک اور درندہ صفت دہشتگرد کا تعلق آسٹریلیا سے ہے تو کیوں نا سریز کے سارے میچز کالی پٹی باندھ کر کھیلیں اور دنیا کو اپنامثبت احتجاج پیش کریں اور اسکی پیشگی اجازت کرکٹ کاؤنسل سے حاصل کریں، دنیا نے اپنی آنکھوں سے آرمی کیپ پہن کر کھیلنے والوں کو بھی خوب دیکھ رکھا ہے۔
وقت آن پہنچا ہے کہ ہم جذباتی ہونا چھوڑ دیں اور اصولی موقف اختیار کریں۔ وقت، حالات اور مذہبی پیشنگوئیاں دنیا کو اپنے انجام کی جانب لیجاتی واضح طور پر دیکھائی دے رہی ہیں، ہم تو صرف وہی دیکھ سکھتے ہیں جو ہمیں دیکھایا جا رہاہے جبکہ قدرت نے جو سوچا ہواہے وہ تو ہوکر ہی رہنے والے ہے۔ سمجھ سے تو بالا تر ہوچکے لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ اب دنیا کہ حالات سنبھل سکیں گے؟