پچھلی تین دھائیوں سے وفاق میں مخلوط حکومتوں کا دور دورہ رہا ہے سوائے ایک دفعہ کہ جب 1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی قیادت میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور یہ واحد موقع تھا کہ انہیں وفاق میں اپنی حکومت بنانے کیلئے کسی سے الحاق کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مخلوط حکومت کی تشکیل میں ایم کیو ایم نے ہمیشہ بادشاہ گر کی سی اہمیت پائی اور ایسا ہی اس حکومت میں ہوا۔ طنز و تنقید کے بوجھ تلے دبی ایم کیوایم جو کہ اب ایم کیوایم پاکستان کے نام سے جانی جاتی ہے، حالیہ انتخابات میں ۲۲ اگست کے واقع کیبعد بہت کچھ کھویا لیکن قدرت نے مخلوط حکومت کیلئے انکا کردار شائد ایم کیو ایم پاکستان کی بقاء کیلئے زندہ رکھا۔ ہمارے ملک میں سیاست حکومت کیلئے اور حکومت مفادات کیلئے کی جاتی رہی ہے، جب مفادات کی بات آتی ہے تو مخلوط حکومت میں مفادات تمام شامل جماعتوں کے برابر ہوتے ہیں گوکہ ایک طے شدہ لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔ حکومتی فیصلے فقط حکومتی نہیں ہوتے بلکہ ہر اس سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں جوکہ اسوقت کی جمہوری حکومت کا حصہ ہوتی ہے۔ ویسے تو یہ اسے جمہوریت کا حسن بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی بقا کی خاطر سب مل کر حکومت کی تشکیل کرتے ہیں اور ملک کی بہتری کیلئے فیصلوں کی توثیق کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت بھی مخلوط حکومت ہے گوکہ وزیر اعظم صاحب کا یہ سمجھنا ہے کہ انکے اتحادی ان پر ایسے بھروسہ کرتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے سیاسی جماعتوں کے قائدین پر کرتے ہیں جوکہ یکسر غلط ثابت ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومت ملک کو بہتر بنانے کیلئے کی جاتی ہے یا پھر جمہوریت یا کسی اور نظام کو بچانے کیلئے کی جاتی ہے۔ پھر سیاسی جماعتیں کم قابل ذکر ہوتی ہیں، قابل ذکر شخصیات ہوتی ہیں جو ہمارے ملک میں اپنے آپ میں اکیلے ہی پوری سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں قابل ذکر نام محترم شیخ رشید احمد، چوہدری برادران اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔
جیساکہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ایم کیوایم نے ہمیشہ سے ان مخلوط حکومتوں میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، ایم کیو ایم نے جمہوریت کی بقاء کیساتھ ساتھ کراچی کے مفادات کی خاطر ہمیشہ حکومت بنانے والوں کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے اور ایسا ہی حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ہوا۔ ایم کیوایم پاکستان خصوصی طور پر کراچی اور عمومی طور سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی ہے، کراچی اور بقیہ شہری سندھ کو اب تک اسکا حق دلانے میں ناکام رہی ہے جبکہ مئیربھی ایم کیو ایم کے رہے اور ناظمین بھی لیکن مقاصد کا حصول کہیں ممکن ہوتا دیکھائی نہیں دیا۔ بنیادی منشور مظلوم کو اسکا حق دلایا جائے گا ابھی تک جوں کا توں ہے جبکہ مظلوموں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے لیکن حقوق کی فراہمی ہوتی دیکھائی نہیں دے رہی۔ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان جو کہ ایک عوامی جماعت تھی عمومی جماعت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ایک انتہائی تدبر اور فہم و فراست سے بھرپور شخصیت ہیں، حالات و واقعات کی سختی جھیلنا اور ان سے نمبرد آزما ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے کبھی ذاتی مفادات کی خاطر سمجھوتے نہیں کئے اور نا ہی سستی شہرت کیلئے میڈیا کو استعمال کیا۔ انکا حکومت سے بطور وفاقی وزیر علیحدگی اختیار کرنا انکا کراچی کی عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری نا پوری ہوپانے کی دلیل ہے۔ حکومت کیلئے ڈاکٹر صاحب کا یہ اقدام تشویش کا باعث تو بنا ہوا ہے لیکن حسبِ معمول جمہوریت کی بقاء اور امور مملکت کے وسیع تر مفاد میں حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی دیکھا دیکھی دیگر اتحادی سیاسی جماعتو ں نے بھی اپنے اتحادی ہونے کی یاد دہانی حکومت کو کرائی ہے، جوکہ حکومت کے جارحانہ روئیے میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس بات پر بھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ یہ فیصلہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ذاتی حیثیت میں کیا ہوگا کیونکہ جزوقتی ایم کیو ایم پاکستان کی مکمل قیادت وہ خود ہی ہیں اور ان پر باقی ذمہ داران کا مکمل اعتماد بظاہر دیکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ انکی یا ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی بصیرت نہیں کہ انہوں نے وعدے نا پورے کرنے پرصرف اپنی وزارت سے استعفی دیا ملک اور کراچی کے وسیع تر مفاد میں انہوں نے حکومت وقت کی حماءت جاری رکھنے کا بھی باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ یہ بھی سوال گردش کر رہے ہیں کہ اگر انہوں نے استعفی دیا ہے تو پھر بیرسٹر فروغ نسیم کیوں مستعفی نہیں ہوئے۔
ایم کیوایم پاکستان مسلسل ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر کر بھی اپنی حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ بہر حال ایم کیو ایم پاکستان ایک بہت بڑے بحران سے ایک بار پھر نکل آئی اور یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم پاکستان اور اسکے ووٹرزکو حکومت وقت نے عزت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ حکومت میں شراکت دار رکھا۔ اب اسے شراکت داری کہیں یا پھر ایم کیو ایم پاکستان کو کنگ میکر کہہ لیں، لیکن اب کہیں انتظامی لحاظ سے ایم کیو ایم پاکستان کمزور دیکھائی دے رہی ہے۔ ایک تجزئے کہ مطابق ایم کیو ایم پاکستان مسلسل داخلی بحران کی زد میں ہے اور اسی طرح سے ووٹرز اور سپورٹرز بھی کسی ایک جانب اپنی توجہ مبذول کرانے سے گریزاں دیکھائی دے رہے ہیں اور سیاسی وابستگی کاشہر کراچی میں ایک خاموش بحران کھڑا ہوتا محسوس کیا جاسکتا ہے۔ گوکہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت ایک مثبت سیاسی بصیرت رکھتی ہے اور تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتوں سے اچھے مراسم رکھنے کے باوجود ابھی تک جماعتی فیصلوں میں وہ تدبر جو دیکھائی دینا چاہیے تھا، دیکھائی نہیں دے رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت کو گزارو والے فلسفے پر سیاست کی جارہی ہے جو کہ ایم کیو ایم پاکستان کو زیب نہیں دیتی۔ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو عملی کاموں پر یقین رکھتی ہے اور عوام تک اسکا حق پہنچانے کیلئے میدان عمل میں برسرپیکار۔
حکومت وقت اور خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ذاتی حیثیت میں کراچی کے مسائل عملی طور پر حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگاگوکہ ستمبر 2019 میں ایک بارہ رکنی کمیٹی فروغ نسیم صاحب کی قیادت میں تشکیل دی گئی تھی کہ کراچی کے مسائل اور انکے حل پر کام شروع کیا جائے لیکن اس کمیٹی کی پہلی ملاقات کے بعد سے آج تک اس حوالے سے کوئی خاص خبر منظر عام پر نہیں دیکھائی دی گئی۔ اب یہاں دو باتیں قابل ِ ذکر ہیں ایک تو یہ کہ حکومت وقت کو بیرونی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن سے بروقت نمٹنے کیلئے سفارتی محاذ پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور سرحدوں پر عسکری قیادت پورا دھیان لگائے بیٹھی ہے تو دوسری طرف داخلی سیاسی بحران کھڑا کرنے کی سازش کیساتھ ساتھ ایک بار پھر ملک میں دھماکے ہونا شروع ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کو ایسے حالات میں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور مختلف محاذوں پر بھرپور ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ غیرملکی ہاتھ چلنے کی کوشش بھی نا کر سکے۔ یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ حکومت نے ابھی تک یہ تاثر نہیں دیا ہے کہ وہ حمائتیوں کے رحم و کرم پر ہے۔