کبھی پاکستانی قوم نے کسی کا قومی شکریہ ادا کیا ہے؟ یا پھر کبھی کسی نے مسلسل ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں کہ قومی شکریہ ادا کیا جائے۔ جز وقتی شہرت کیلئے ہزاروں اقدامات بارہا کئے گئے ہیں اوران وقتی اقدامات سے وقتی افاقہ ہی ہوسکا ہے۔ ملک آج بدعنوانی کے سمندر میں کسی ہچکولے کھاتے جہاز کی طرح ایک دم سے نہیں پھنس گیا ہے، ملک کو اس منجدھار میں لانے میں وقت لگا ہے۔ لفظ لانے میں اس لئے لکھ رہا ہوں کیوں کہ سب کو سب کچھ بہت اچھی طرح سے پتہ چل چکا ہے۔ پاکستان کو زبوں حالی کا شکار کرنے والوں کا اصل مقصد کیا ہے شائد یہ بات وہ بھی نہیں جانتے بس دولت اور طاقت کی ہوس نے انہیں پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیاں بھلا دیں انہوں نے بھلادیا کہ پاکستان کا مقصد کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا تھا۔
آپ کی برقت سماجی میڈیا پر موجودگی شہرت کے حصول کیلئے بہت آسان اور سہل طریقہ ہے۔ کوئی بھی کچھ الٹا سیدھا کردے اور اسے لے کر سماجی میڈیا پر آجائے دنیا اسے جاننے لگے گی۔ ایک وقت وہ بھی گزرا جب مشہور لوگوں کو مشہور لوگ ہی جانتے تھے ورنہ ہر شخص عام تھا یا پھر ہر شخص خاص تھا یہ وہ وقت تھا جب دوسروں کی عزت و تکریم افراد کی اولین ترجیح ہوا کرتی تھی۔ آج دنیا میں عزت کے سوا ہر چیز باآسانی دستیاب ہے۔ کیونکہ عزتیں مشروط ہوچکی ہیں کسی کی عزت کسی حوالے سے ہے تو کوئی کسی حوالے سے عزت کا دعویدار ہے۔ غیر مشروط و بغیرحوالے کے اب عزت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ بظاہر محسوس کیا جارہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں عزت اور ذلت کے لفظوں کو لغت سے نکال ہی دیا جائے گا اور ان الفاظ کو سونے کے حروف سے لکھوا کسی اونچی جگہوں پر نسب کروادیا جائے گا تاکہ لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک اپنی نسل کو بتا سکیں کہ یہ وہ دو الفاظ ہیں جن کیلئے لوگ ایک دوسرے کی جانیں لے بھی لیا کرتے تھے اور اپنی جانے دے بھی دیا کرتے تھے۔
حوالے کے طور پر سماجی میڈیا پر چلنے والے تاریخ کے بڑے بڑے ناموں کی تضحیک ہوتی دیکھ ہی رہے ہونگے اور کوئی شک نہیں کہ آپ بھی ان تحریروں سے لطف اندوز ہورہے ہوں۔ لیکن کیا آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی بدولت ہماری اقدار ہم تک پہنچیں ہیں جن کی بدولت ہمیں پاکستان جیسی انمول نعمت میسر آئی ہے جن کا ادب ہماری رگوں میں سرائیت کیا ہوا ہے کیا ہم بھی اپنے آپ کو موجودہ مغرب ذدہ نسل کے حوالے کر دینگے ہماری اکثریت ایسا کرچکی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ بری طرح سے انتشار کا شکار ہوا جا رہا ہے۔
اس با ت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں، ہمیشہ جانے والے کہ گن گاتے ہیں اور جبکہ اسکی موجودگی میں اسکی ہر بات اور عمل میں کیڑے نکالتے ہیں اسکے ہر عمل کو عوام مخالف کہہ کر رد کردیتے ہیں یعنی کسی شخصی دشمنی کا شکار رہتے ہیں جیسے ہی وہ شخص اپنی کرسی سے اترتا ہے یا دارِفانی سے کوچ کرجاتاہے ہما ری ساری ہمدردیاں اسکے ساتھ ہوجاتی ہیں اور ہم بھول جاتے ہیں کہ اسکی موجودگی میں ہم لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ یہ غیر مستحکم معاشرے کی غیر مستحکم ذہنیت کا نتیجہ ہے ہم بچوں کی بچکانہ باتوں پر یہ کہتے ہوئے ہنس دیتے ہیں کہ یہ تو بچہ ہے۔
پاکستان کے اب تک کے سب سے متحرک چیف جسٹس (قاضی القضات) اپنے عہدے سے تکمیل مدت کے بعد سبکدوش ہوگئے۔ یہ برملا لکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی آب و ہوا میں مخلتف نوعیت کی تبدیلی کا باعث پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو جاتی ہے۔ یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی بہت زیادہ تلخی جسکی وجہ جھوٹ اور بدعنوانیوں کا جال ہے جس کے باعث زبان بھی بگڑ گئی۔ اس بگڑی زبان کا ہی نتیجہ ہے کہ کچھ زیر زمین حالات میں استحکام آتا محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایک تو ہم لوگ جذبات میں آکر اپنی توانائیاں ضائع کر بیٹھتے ہیں جس کا ہمیشہ سے فائدہ روائتی سیاست دانوں نے خوب اٹھایا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب نے قانون دانوں کو فرسودہ نظام سے باہر نکلنے کی بھرپور ترغیب دی ہے اور عملی طور پر اقدامات کرکے دیکھائے انہوں نے، عدالتی نظام میں بدعنوانی کوانصاف کا قتل قرار دیا اور افسوس یہ قتل عام پچھلے ستر سالوں سے ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ملک کی تاریخ میں ڈیم بنانے کا وہ عملی قدم اٹھایا جس کا کبھی کسی نے سوچا تک نہیں تھا اور اگر کچھ کیا بھی تھا تو سوائے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے، اللہ نے چاہا تو ڈیم بن جائینگے اور محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کا نام رہتی دنیا تک کیلئے امر ہوجائے گا یو ں تو اور بھی ایسے کام ہیں جو اپنی نوعیت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفع ہو ئے ہیں۔ چیف صاحب کا سب سے بڑا کام خاموش آہوں اور سسکیوں سے گونجی خوفناک عدالتی عمارتوں سے باہر نکل کر عوام کیساتھ عوام کے مفاد میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے کی تشخیص کیساتھ انہیں صحیح کرنے کے احکامات صادر کرنا اور انکے بارے میں بار بار پوچھتے رہنا۔ چیف صاحب کی بدولت یہ یقینی ہوسکا کہ ملک میں کسی بہت ہی بڑے آدمی کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا، چیف صاحب گاہے بگاہے جہاں حکومت وقت کے کارناموں کو سرہاتے سنائی دیئے وہیں قابل تنقید اقدامات پر بھر پور کاروائی بھی کی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار صاحب ٹیپو سلطان کے اس قول کا ایک اور منہ بولتا ثبوت بن گئے جس میں سلطان نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے کہیں بہتر ہے۔
چیف صاحب ہمیں نہیں معلوم پاکستانی قوم کس طرح سے آپ کا شکریہ ادا کریگی لیکن ہم اپنے اس مضمون کی بدولت آپ کاتہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے عدالتی نظام میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، آپ نے امیر غریب کی تفریق ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ عدالتی نظام اور کتنا بہتر ہوتا ہے، نظام کو خراب کرنی والی کالی بھیڑوں کو اس نظام سے کیسے نکالا جائے گا، کیسے اس نظام کو سیاست سے بچایا جائے اور کب عام آدمی کو بغیر ایک پیسہ خرچ کئے انصاف فراہم کیا جائے گا۔ ریاست اپنے پیروں پر کھڑی ہونا شروع ہورہی ہے اور اس میں چیف جسٹس صاحب کا کردار اسکے ہر اول دستے میں سے ایک ہیں۔ یہ یقین کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ آج نا صحیح لیکن آنے والے وقتوں میں عوام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کانام لے لے کر دعائیں دینگے، چاہے اسکی ایک اکیلی وجہ یہ ڈیم ہی کیوں نا ہوں۔ کیوں آج لوگوں کی سیاسی وابستگیاں انہیں ایسا کرنے سے روک رہی ہونگی لیکن کل جب ہر فرسودگی سے نجات پا لینگے تو ضرور پذیرائی کرینگے۔