بہت سے انگریزی الفاظ بطور اصطلاحات ملکِ خداداد پاکستان میں مسلط ہیں جو اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ انگریز نا رہے لیکن انکی زبان انگریزی تاحال اپنا رعب و دبدباقائم کئے ہوئے ہے اور ان سے آزادی کے کوئی آثار تا حال دیکھائی نہیں دے رہے بلکہ اب تو ہم عام پاکستانی بھی خود نئی نئی اصطلاحات انگریزی ہی میں معاشرے میں روشناس کروا رہے ہیں، سوشل ڈسٹینسنگ (سماجی فاصلہ) جو ہمیں کورونا نے تحفے میں دیا ہے۔ ایسی ہی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے کوٹہ سسٹم، بہت ممکن ہے کہ ہماری نئی نسل اس اصطلاح سے واقف ضرور ہو لیکن اس کے مطلب سے ناواقف ہو یا اسکے اثرات کو نا سمجھتی ہو۔
کوٹہ سسٹم انگریزی زبان میں رائج ایک نظام ہے، جو تقسیم ہند کے بعد ستمبر ۸۴۹۱ میں پاکستان میں نافذ کیا گیا، اسکا بنیادی مقصد کم وسائل کے علاقوں میں رہنے والوں کا حصہ زیادہ وسائل والے علاقوں میں مختص کر دیا جائے تاکہ کسی حد تک برابری لائی جا سکے اور وقت کیساتھ ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ مقصد نیک تھا، جذبہ حب الوطنی کی ایک مثال تھا، وقت بدلتا رہا لیکن وسائل اس حساب سے نہیں بڑھے جس حساب سے مسائل میں اضافہ ہوا لیکن کوٹہ سسٹم جوں کا توں رائج رہا اور جب کبھی وقت آیا کہ اس نظام پر نظر ثانی کی جائے تو بغیر نظر ثانی کئے اسی طرح چلتے رہنے کی توثیق کی جاتی رہی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے شہروں کے مقامی لوگوں کیساتھ زیادتی ہونا شروع ہوگئی۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس بات کا تکازہ کرتی رہی کہ کوٹہ سسٹم پر مل بیٹھ کر کوئی متوازن حل نکالا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نظام سے لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے مقامی لوگ کتنے متاثر ہوئے اندازہ لگانا ذرا مشکل کام دیکھائی دے رہا ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بنا۔
دورِ جدید میں ایسا کوئی بھی عمل جس کی وجہ سے قابلیت کا راستہ روکا جاتا ہو اسکو بدلنا ارباب اختیار کی اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، بصورت دیگر نوجوانوں میں مایوسی اور اسکے نتیجے میں خود سوزی یا پھر خود کش بننے کا رجحان فروغ پانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اسکی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جوکہ بروقت ترامیم نہیں لاسکی ہوتی۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ضرورت کے تحت گاڑی کو دھکا لگایا جاتا ہے ورنہ یہ گاڑی سالہا سال ایک جگہ کھڑی رہتی ہے جس طرح سے اسلام میں اجتہاد بند ہونے کے بعد سے مسائل کا انبار لگتا چلا گیا، اسی طرح سے پاکستان میں تحقیق اور تخلیق پر کام نہیں ہوتا۔ جب سے سماجی ابلاغ نے اپنی جگہ بنائی ہے تو کچھ لوگوں نے کام کرنا شروع کردیا ہے لیکن باضابطہ حکمت عملی کی عدم دستیابی کے باعث کام بھی وقتی گزارے والے ہوتے ہیں جیسے کہ سڑک کبھی کہیں سے ٹوٹ جاتی اور کبھی کہیں سے، ہوتا کیا ہے جہاں جہاں سے سڑک میں گڑھے پڑتے ہیں وہاں وہاں عارضی مرمت کر دی جاتی ہے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہر بار ادارے کو مکمل سڑک کی مرمت کی رسید تھما دی جاتی ہے اور رقم بانٹ لی جاتی ہے۔
کراچی پاکستان کا معاشی حب تصور کیا جاتا ہے جسکی ایک بنیادی وجہ یہاں بندرگاہ کا ہونا ہے۔ بد قسمتی سے شہر کراچی عرصہ دراز سے بد نظمی کا شکار ہے جسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود شہر کراچی کے نظم و نسق کیلئے خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی جاسکی۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف کراچی میں ایک سیاسی جماعت وجود میں آئی لیکن وہ اپنے مرکزی نکتے سے منحرف ہوگئی اور سیاسی بھول بھلیاں کی نظر ہوگئی۔ تخلیق پاکستان کیبعد کراچی کو دارلخلافہ بنایا گیا لیکن بعد ازاں دارالخلافہ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور کراچی صوبہ سندھ کا داراخلافہ بن کر رہ گیا۔ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں ہو یا پھرحزبِ اختلاف میں، ہمشہ سے اس سے وابسطہ لوگ بااختیار رہتے ہیں۔ اداروں میں وابسطگیاں ہیں اگر کوئی کام کرنا بھی چاہے تو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ جماعت اسلامی مسائل کی نشاندہی تو خوب کرتی ہے اور اس کے حل کیلئے بھرپور احتجاج بھی کرتی ہے لیکن اسمبلیوں میں موجود نمائندوں کی قلیل تعداد کے باعث کوئی خاص دباؤ ڈالنے سے قاصر رہتی ہے، کراچی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ایم کیوایم پاکستان وفاق میں حکومتی جماعت تحریک انصاف کی حمائیتی ہونے کے باعث سندھ میں حزب اختلاف کی نشستوں پر براجمان ہیں جس کی وجہ سے سارا بار انہیں پر ڈالا جاتا ہے، تحریک انصاف کے نمائندوں نے سندھ حکومت کو کسی حد تک جھنجھوڑ کر رکھا ہوا ہے کیونکہ انکی پشت پناہی وفاق کر رہا ہے۔ جیسا کہ حالیہ حالات میں وفاقی وزیر برائے بندرگاہ اور شپنگ علی زیدی صاحب نے ایک بار پھر نالوں کی صفائی کیلئے بھر پور کوششیں کیں اور وہ رنگ لائیں لیکن ہمارے موضوع کا سبب بھی علی زیدی صاحب ہی بنے ہیں کہ انکے ماتحت ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ نے نوکریوں کیلئے ایک اشتہار دیا جس میں کچھ اسطرح لکھا تھا کہ سوائے کراچی کے ڈومیسائل رکھنے والوں کے تمام جگہوں سے لوگ درخواستیں بھیج سکتے ہیں۔ کتنی ہی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں کام کرنے والا ادارہ کراچی کے ڈومیسائل کیلئے نہیں ہے۔ آج جبکہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے نا کسی کی کارگردگی اکیسویں صدی میں بھی کوٹہ سسٹم پر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہوگی کہ نا تو لکھنے والوں نے کراچی کی ابتری کے ایک انتہائی محرک پر قلم کیوں خاموش ہیں۔
ہماری حکومت وقت استدعا ہے کہ وہ غور کرے کہ کیا واقعی کوٹہ سسٹم پر جدید سطور پر کام ہونا چاہئے جسکے لئے ضروری ہے کہ ملک کے دانشوروں کو اکھٹا کریں اور ایک اعلی سطح کی کمیٹی بنائیں اور اس کمیٹی کے ذمہ کوٹہ سسٹم کی بھرپور جانچ پڑتال کی جائے اسکی موجودہ خامیوں کو سامنے رکھا جائے اورہر ممکن اقدامات سامنے لائیں جائیں کہ کس طرح سے ان خامیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اگر لازمی سمجھا جائے تو اسمبلیوں میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لایا جائے۔ ابلاغ بھی اپنی ذمہ داری بغیر کسی طرفداری کے نبھانے کی کوشش کرے۔ مذہبی، علاقائی اور لسانی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص محب وطن ہوتے ہوئے اس موضوع کو زیر بحث لایا جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کوٹہ سسٹم بات ہونی چاہئے یا نہیں لیکن وقت تقاضہ کرتا دیکھائی دیا تو آپ کے سامنے اپنے بکھرے ہوئے خیالات رکھ دئیے ہیں۔