چہرے نہیں نظام کو بدلویہ تو معلوم نہیں کہ یہ نعرہ کس نے اخذ کیا، لیکن یہ وہ نعرہ ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان کی فضاؤں میں گونج رہاہے اور تاحال فضاؤں میں معلق ہے اسے رکھنے کے لئے زمین نہیں مل رہی اور دفنا سکتے ہیں کیونکہ یہ چیختا ہی رہے گا۔ جب کہ سرزمین پاکستان سے بہتر اس نعرے کو پناہ دینے کیلئے کوئی اور زمین شائد کرہ عرض پر موجود نہیں۔ کبھی مذکورہ نعرے کی بازگشت بہت اونچی سنائی دیتی ہے اور کبھی یہ حالات و واقعات کے بوجھ تلے دب کر سرگوشیوں میں سنائی دیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں دیواروں پر بھی ملے جلے نعروں میں لکھا دیکھائی دیتا ہے اور دیکھائی بھی انہیں دیتا ہے جنھوں نے اس نعرے کو اس جگہ پر پہلے پڑھ رکھا ہوتا ہے۔ نعروں کی پیدائش بھی نظریوں سے ہوتی ہے اور پاکستان کو تبدیلی کے نظرئیے کا سامنا ہمیشہ سے رہا ہے شائد اسی لئے جب عوام کی حالت جواب دے جاتی ہے تو کسی ایسے نعرے کا وجود جنم لیتا ہے۔ جن لوگوں نے نظام کو بدلنے کے لئے کام کرنا ہوتا ہے وہ حالات کے موافق ہونے کے انتظار کے بغیر وقت کی رتھ پر براجمان چلے جارہے ہیں۔ یہ وہ نعرہ ہے جو عالمی سطح پر لگایا جانا چاہئے۔
تنقید برائے اصلاح بہت ضروری ہوتی ہے جو آنکھیں کھولنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ جیساکہ ڈھکے چھپے لفظوں میں لنگر خانوں کی بہتات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ اس سے کچھ مماثلت رکھتے ہوئے منصوبے پچھلی حکومتوں نے ماہانہ رقوم تقسیم کرنے کے سلسلے شروع کئے تھے جن میں سے کچھ جاری بھی ہیں یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ رقم تقسیم کرنے والے پروگراموں میں بے ضابتگیوں اور بدنظمیوں کے وسیع و عریض شگاف موجود ہیں جن پر پھر کبھی بات کرینگے۔ حکومت وقت نے ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا ہے اور بطورمثال اپنے سامنے رکھا ہے یہ لنگرخانے اور احساس پروگرام (جو بہت وسیع ہے) اسکے بنیادی جز ہیں۔ جسکا مقصد کم از کم ان لوگوں کو جنہیں فوری طور پر نوکریاں فراہم نہیں کی جاسکتیں دو وقت کی روٹی تو مہیہ کردی جائے۔ انسان کائناتی مسئلہ پیٹ کا بھرنا ہی تو ہے جس کیلئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے اگر اسکی بنیادی ضرورت کو پورا کر دیا جائے توگمان غالب کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی غلط کام کی طرف نہیں جائے گااور تخریب کی بجائے تخلیق میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ ریاست مدینہ کے تصور کو بھی ہر ممکن مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، افسوس تو اسوقت ہوتا ہے جب اسلام کا لبادہ اوڑھے لوگ اپنے سیاسی حواریوں کو خوش کرنے کیلئے ایسے بیانات داغ دیتے ہیں جو عام لوگوں کیلئے نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔
کیا ہم اس بات کی تائد کرسکتے ہیں کہ ماضی میں حکومتوں نے ایسے فیصلے کئے جو سراسر ذاتی مفادات پر مبنی تھے اور جنکی وجہ سے مستقبل کو برباد کردیا گیا۔ کیا آپ نے اپنے دور میں کبھی سنا ہے کہ پاکستان ریلوے نے منافع بنانا شروع کردیا، پاکستان کی بین الاقوامی ہوائی سروس نے ماضی کی اعلی ترین میعار کی روایات کو واپس اپنا خاصہ بنا لیا، پاکستان اسٹیل مل ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بن گیا (اسٹیل مل سے یاد آجاتا ہے کہ صاحب اقتدار کی اسٹیل مل منافع بخش جبکہ پاکستان اسٹیل مل بد ترین خسارے میں) اس ساری صورتحال کے ذمہ دار یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم سے انتقام لیا جا رہاہے۔ ماضی میں کبھی سچ نہیں بولا گیا بلکہ نورا کشتی طرز کی سیاسی باریاں چلتی رہیں عوام کبھی کسی کا جھنڈا اٹھاتے رہے اور کبھی کسی کی خاطر گولیاں اپنے سینے پر کھاتے رہے۔ سب کو دیکھائی دے رہا ہے کہ مزے کرنے والے آج بھی مزے ہی کر رہے ہیں۔ ہم اختلاف کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور تنقید کرنا اپنا پیدائشی فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ عمران خان کی حکومت میں انہیں ضروریات زندگی مفت ملنا شروع ہوجائینگی قطعی ایسا سوچنا حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہے۔ آج جونام نہاد سیاسی جتھا (پاکستان جمہوری اتحاد)لوگوں کو اس بات پر اکسا رہا ہے کہ حکومت نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو خدارا عام آدمی ان سے اتنا پوچھ لے کہ آپ کے دورے اقتدار نہیں ادوار اقتدار میں کون کون سے علاقوں میں دودھ کی نہریں بہہتی رہیں اور کہاں کہاں من و سلوی تقسیم کیا جاتا رہا۔
بدعنوانی کا کینسر نما عارضہ مہنگی ترین ادویات علاج معالجے سے ٹھیک ہوسکتا ہے اسکے ساتھ پڑوسی ملک کا حمائت یافتہ ٹولہ جو ہماری صفوں میں بطور گھس بیٹھئے موجو د ہیں، دنیا جہان سے نظریاتی اختلافات کا برملا اظہار، اسرائیل کوفلسطین کی آزادی تک تسلیم نا کرنے کا فیصلہ اور کشمیر کی جدوجہد آزادی کی سفارتکاری یہ چند وہ عوامل ہیں جو غربت کو مٹانے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر حکومت وقت کے سامنے کھڑے ہیں۔ پاکستان نظریاتی محاذوں پر اپنی فتح کا جھنڈا لہرا چکا ہے، اقوام عالم میں اپنے وجود کا احساس بھرپور اجاگر کرچکا ہے، بستر مرگ پر دوبارہ عمل تنفس بحال کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے، دنیا آپ کی سننے پر مجبور ہوگئی ہے، دنیاکے سامنے پاکستان اپنی طاقت کا لوہا منوا چکا ہے عملی طاقت کا مظاہرہ ساری دنیا نے ستائیس فروری کو دیکھا ہے۔
حکومت وقت کی اولین ترجیح عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا ہے اور اسکے لئے ہر ممکن اور ہر دم کوشاں ہے کہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ ذرائع پیدا کئے جائیں جس کا منہ بولتا ثبوت سیاحت کے شعبے پر بھرپور توجہ کا دیا جانا ہے اور اسکا منہ بولتا ثبوت آئے دن وزیر اعظم بذات خود اور دیگر حکومتی اراکین پاکستان میں موجود ایسی تاریخی جگہوں کا دورہ کرتے دیکھائی دیتے جن کو وقت نے مٹی اور دھول میں چھپا دیا تھا۔ اسکے علاوہ تعمیرات کے شعبے کی بھرپور حوصلہ آفزائی کی جارہی ہے کیونکہ اس سے بھی عام آدمی کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حالات سازگار نہیں ہیں دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہے لیکن دوباتیں حالات کو سمجھنے کیلئے اور ان سے نمٹنے کیلئے بہت ضروری ہیں ایک تو یہ کہ تعلیم، شعور کیساتھ حاصل کریں (کسی کی طے شدہ سوچ کو مسلط ہونے سے روکا جائے)اور دوسرا یہ کہ کوئی بھی فیصلہ بغیر حقائق اورتجربات کے نا سنایا جائے یا کیا جائے۔ قوم کو تدبیر اور تدبر پر عمل کرنا ہوگا۔ کون ہمارے دھیان کو بھٹکانے کی کوشش کر رہا اور کون ہمارے دھیان پر اکسا رہا ہے۔ قوموں کی ترقی میں فیصلوں کی بڑی اہمیت ہے اور ان فیصلوں پر قوموں کا ردعمل قوم کے وقار کی ضمانت ہے، ان سب باتوں کیلئے ضروری ہے کہ دھیان رکھیں اپنی صفوں میں اپنی حدوں میں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کچھ وقت اپنے آپ کو دینا چاہئے جس سے انکی مراد یہ ہوتی ہے کہ سکون کا سانس لیجئے پھر دیکھئے کہ کون کیا کررہا ہے بھاگ دوڑ میں لگانے والے کون ہیں اور جو آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ بھاگ دوڑ لگی ہی رہے۔ لنگرخانے اسوقت تک چلنے دیجئے جب تک وہ وقت نہیں آجاتا جب ان لنگر خانوں کو اسلئے بند کرنا پڑ جائے گا کہ یہاں کھانا کھانے والے اپنے اپنے کارخانوں میں مصروف عمل ہوجائینگے اور اپنا کھانا پینا اپنے بال بچوں کیساتھ کرینگے۔ ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آجائے گا۔ پھر نظام بدل جائے گا پھر چہروں سے کوئی فرق نہیں پڑیگا۔
یہاں فیض احمد فیض صاحب کی نظم سماعتوں میں گونجنے لگتی ہے جس کا عنوان ہے
ہم دیکھیں گے۔ انشااللہ