ہمیں یہ بات کبھی بھی گوارہ نہیں ہوتی کہ کسی کی منفی کارگردگی کا تذکرہ کریں اور اس میں مین میخ نکالتے پھریں، دوست احباب کا کہنا ہے کہ منفی پہلوؤں میں سے بھی جناب کوئی نا کوئی مثبت نقطہ نظر نکال ہی لیتے ہیں(یہ اللہ کی خصوصی نعمت ہے)۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرتا کہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور جدوجہد کا مزہ اسی وقت آتا ہے جب کوئی آپ کی کارگردگی کو سرہاتے ہوئے آپکی اصلاح کرے۔ اب اگر آپ سرہائے جانے کو تو ٹھیک سمجھیں اور کی جانے والی اصلاح پر دھیان نا دیں تو کام میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے اور کہیں سے طبعیت میں تکبر کی علامات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ اپنے اردگرد رہنے والوں کو، وہ کسی بھی طرح کے کاموں میں بر سر پیکار ہوں انکی کارگردگی کو سرہاتے رہیں تاکہ انکا دل انکے کام میں اچھی طرح لگا رہے اور مزید بہتری کیلئے کوشاں رہیں۔
جس کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا ہو یا پھر جس کی پرورش غلام زدہ ماحول میں ہوئی ہو بھلا وہ کس طرح سے اپنی غلامی کے دکھ سے باہر نکل سکتا ہے، یہ ایک ایسے المیہ ہے کہ ایسے لوگ آزاد ہو بھی جائیں تو انکے عملی اقدامات انکی غلامی کی کہانی سناتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ہمارے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہے آپ کسی سے بھی گفتگو کر نا شروع کریں وہ آپ کے سامنے ملک کے مسائل سے شروع کرے گا اور اپنے مسائل کی ایک طویل فہرست سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ سب معاشرے دکھی ہی ہیں، دنیا سماجی میڈیا پر سمٹ آئی ہے مشکل سے دس سے پندرہ منٹ میں کوئی بھی واقع جو دنیا کے کسی بھی پسماندہ ترین علاقے میں رونما ہوا ہو ساری دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک انسان سوچتا وہی ہے جو وہ سوچنا چاہتا ہے جبکہ ایک انسان اپنی بے قابو سوچوں سے لڑتے ہوئے ان سے ہٹ کر کچھ مختلف سوچنا چاہتا ہے ایسے لوگ مخصوص سوچ کے دائرے سے باہر سوچتے ہیں اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو تبدیلی کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں لوگوں سے معاشرے میں توازن بحال ہوتا ہے۔ ایک فرد نے اپنے آباؤ اجداد کے کاروبار کی بدولت بہت ترقی کر لی لیکن نا تو وہ کاروبار کے طور طریقے بدل سکا اور نا ہی اسنے اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے اپنے نظام ا لاامور میں وقت کی مناسبت سے تبدیلی کی وہ آج دنیا پر حکومت کرتے دیکھائی دے رہے ہیں، جو اپنے ماضی میں الجھے رہے اور ماضی کی ہی گتھیاں سلجھاتے رہے ان میں سے اکثر تو تاریخ کی تاریکی کا حصہ بن چکے اور جو بچے ہیں وہ اب بھی تاریکی میں ڈوبنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لوگ واہ واہ تو کرتے سنائی دیتے ہیں لیکن اپنے اندر اس اہلیت کو جگہ دینے سے شائد خوفزدہ دیکھائی دیتے ہیں جو ان میں دیکھائی دینا چاہئے۔
ایک عام سا معاشرتی تا ثر ہے کہ کسی محکوم کو حکم دینے کی اجازت دے دیں تووہ سوائے دوسروں کی تضحیک اور جھکے رہنے کے شائد ہی کوئی اور حکم دے سکے، یعنی جسکی زندگی حکم کی بجا آوری میں گزری ہو وہ سوائے اپنی اناکی تسکین کیلئے دوسروں کیساتھ کچھ اچھا نہیں کرسکتا (ہوسکتا ہے آپ متفق نا ہوں لیکن یہ فلسفہ اکثریت پر لاگو ہوتا ہے )۔ موجودہ کشیدہ حالات پر لکھا ہوا ہمارا ایک مضمون بغیر ویزہ پاسپورٹ بذریعہ ایمیل پڑوسی ملک پہنچ گیا جہاں سے ایک صاحب (جوکہ سید زادے ہیں) کی طرف سے یہ جواب موصول ہوا جوکہ حرف با حرف منقول ہے 235 آپ کے خیالات آپ کو مبارک میں ایک وطن پرست ہندوستانی ہوں اور آپ کے خیالات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں براہ کرم مجھ سے مرسلت نہ کریں 235۔ اندازہ لگائیں کہ اہل علم بھی اس طرح سے رد عمل دے سکتے ہیں اور اس ملک کے اہل علم جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک کہتا ہے۔ اس سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ بھارتی سرکار کیسے لوگوں کے ووٹوں سے برسر اقتدار آتی ہے۔ پاکستان میں تو آج بھی اور ہمیشہ سے ایسے لوگ موجود رہے ہیں جن کا موقف یہی ہوتا ہے کہ امن کی بات کی جائے سلامتی کی بات کی جائے اور ایک دوسرے کی اہمیت کو اہم سمجھا جائے اور ان باتوں کو دھیان میں رکھا جائے جو دونوں کیلئے نقصان کا باعث ہے۔
علم روشنی تو ہے لیکن روشنی وہیں پہنچ سکتی ہے جہاں اسکو پہنچنے کیلئے راستہ ملے گا آپ اپنے کھڑکیاں دروازے اور روشن دان بند رکھیں اور شور مچائیں کہ اندھیرہ ہے۔ فیصلوں کیلئے وقت اور حالات کی نزاکت بہت اہم ہوتی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کی حکومت نے کسی قسم کی ہنگامی صورتحال کا عندیہ نہیں دیا اور ناہی کوئی طے شدہ حکومتی معاملات منسوخ کئے اور نا ہی کسی قسم کا کوئی ایسا قدم اٹھایا جس سے قوم کو کسی قسم کی ذہنی مشکل کا شکارہو، گوکہ قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا اور ایک بار پھر وزیر اعظم اور قومی سلامتی کمیٹی نے ممبران پاک فوج کو بلند و بانگ انداز میں یہ اجازت دی کہ اگر دشمن کسی بھی قسم کی سرزنش کرے تو اسکا سر اسی وقت کچل دینے کا عملی قدم اٹھایا جائے، جس سے یہ بات دنیا اور خصوصی طور پر پڑوسیوں کو سمجھ آگئی ہوگی کہ اب اس فیصلے کیلئے کہ فلاں نے یہ کردیا ہے تو ہم کیا کریں کیلئے اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور سارا کا سارا اقدام اسمبلیوں میں تحلیل ہوکر رہ جائے۔ ہزار سال مسلمانوں کہ حکم کی تعمیل کرتے کرتے بھارتی ذہنیت محکوم ہوچکی جسکا منہ بولتا ثبوت پاکستان کیخلاف بنا سوچے سمجھے ہی غیر ذمہ دارانا بیانات جاری کردیتی ہے اور اپنی ہی جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہے۔ کشمیر میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم بھی اس محکومانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ انکا سمجھنا ہے کہ یہ کشمیر میں اپنی تاریخی غلامی کا بدلہ لے رہے ہیں جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ تاریخ ان لوگوں کو کن ناموں سے رقم کر رہی ہے۔ دوسری طرف کشمیری اپنی جانوں کی بیدریغ قربانیاں دے رہے ہیں اور وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جو سرانکے کاندھوں پر سجے ہیں وہ صرف اور صرف اللہ کی بارگاہ میں جھکنے کیلئے، وہ جانتے حکم انہیں کا چلنے والا ہے۔ سب سے بڑی افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا کو ہر روز قتل ہونے والے کشمیریوں کا خون دیکھائی ہی نہیں دیتایا پھر دنیا بھی وہی چاہتی ہے جو بھارت کرتا دیکھائی دے رہا ہے؟ زنجیر جو پہناؤ گے جھنکار تو ہوگی۔
پاکستان کے سیاستدانوں ملک کو ہمیشہ آپ نے اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا ہے خدارا اب آپ لوگ پاکستان کیلئے استعمال ہوں، کچھ ایسا کرجائیں کہ پچھلے سارے کئے دھرے پر پانی پھر جائے اور آنے والی نسلیں آپ کی کردار کشی کرنے کی بجائے آپکی برے وقت میں پاکستان کیلئے دیکھائی گئی کارگردگی کو سرہائیں۔ یاد رکھیں !ہم حاکم ہیں ہماری سوچ اور ہمارا عمل حاکموں والا ہی ہونا چاہئے۔