گردیوں دراصل گردی کی جمع ہے اور یہ کہاں کہاں استعمال ہو رہی ہے ہے پتہ چل جانے پر سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی (ویسے تو قارئین سمجھ گئے ہونگے)، عمومی طور پر غنڈہ گردی سے سماعتوں کی زینت بننے والا لفظ گردی، جب دہشت کیساتھ منسلک ہوا تو اس کی شہر ت میں چار چاندلگ گئے اور دہشت گردی دنیا میں سب سے زیادہ جانا پہچانا جانے لگا، اس دہشت گردی نے جہاں عملی طور پر دنیا کو خوفزدہ کیا وہیں ان لفظوں کے ملاپ نے بھی خوب دھوم مچا رکھی ہے۔ لفظ گردی کا بیدریغ استعمال اب پاکستان میں بطورپولیس گردی، میڈیا گردی، ڈاکٹر گردی، وکلاء گردی اور کبھی کبھار اساتذہ گردی (اب طلباء تنظیموں پر سے پابندی ہٹائے جانے کی بات چل نکلی ہے تو جلد ہی ایک بار پھر طلباء گردی بھی دیکھ سکیں گے)کی صورت میں دیکھائی دیا جانے لگا ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ گردی کیا بلا ہے، کیونکہ جس لفظ کیساتھ منسلک ہوجاتی ہے اسے خوف ناک بنادیتی ہے، اسے ڈر کی علامت بنا دیتی ہے۔ بہت ذاتی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچ سکا ہوں کہ لفظ گردی، گرد (دھول) سے لیا گیاہے کیوں کہ جب گرد اڑتی ہے تو ماحول کو تہہ و بالا کردیتی ہے اور یہ لفظ گردی جہاں بھی استعمال ہوتا سنائی دیتا ہے تو وہاں قانون شکنی کی بھی داستانیں رقم ہوتی دیکھی جاتی ہیں اور ریاست کو چیلنج کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔
تعلیم انسان کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اس بات کو دیکھیں کہ ایک پڑھے لکھے انسان اور ایک جاہل انسان میں کیا فرق ہے؟اب آپ مخالفت کرینگے کہ یہ تو کوئی پیمانہ ہی نہیں کیونکہ آجکل تو سارے الٹے کام پڑھے لکھے ہی کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ جس کا منہ بولتا ثبوت تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں نے گزشتہ روز (دسمبر ۱۱)کو پیش کیا جب کالے کوٹ میں ملبوس اپنے آپ کو قانون دان کہلوانے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اعلانیہ طور پر لاہور کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال پر دھاوا بول دیا۔
دل کے ہسپتالوں سے ہمارا ذاتی طور پر بڑا واسطہ رہا ہے ہمارے والد تقریباً پینتیس سال دل کے عارضے میں مبتلا رہے، کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں جانا آنا رہتا تھا لیکن کراچی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہمارا سب سے زیادہ اعتمادرہا جسکی ایک وجہ یہ کہ وہ ہسپتال صرف اور صرف دل کا ہی ہے اور دوسری اہم وجہ یہ کہ وہاں کا عملہ ہمیشہ مستعد اور چاک و چوبند پایا گیا اور ہمارے والد صاحب کو بروقت طبی سہولت فراہم کی جاتی رہیں بغیر کسی سفارش اور تعلق داری کہ، دل کہ ہسپتالوں کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والا عملہ خصوصی تربیت کا حامل ہوتا ہے اور وہ ہال جو ایسی صورتحال کیلئے مختص کیا گیا ہوتا ہے تمام تر جدید اور فوری ضرورت کے آلات سے لیس ہوتا ہے۔ مسلسل ایمبیولینس کے سائرن کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور مریض کسی بھی قسم کی تفریق سے بالا تر اپنے اپنے علاج کیلئے ہسپتال کر رخ کرتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے عملے کی ڈیوٹی (فرض) مکمل طور پر تھکا دینے والی ہوتی ہے جوکہ جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی ہوتی ہے۔ ایسے پیشے سے وابسطہ وہ تمام عملہ جو اس کام کو عبادت سمجھ کر سرانجام دے رہا ہے، صحیح معنوں میں قابل ستائش ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی لاہور کا ایک ایسا ہی ہسپتال ہے بلکہ زیادہ جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ اس ہسپتال میں تدریسی عمل بھی جاری ہے۔ یہ ہسپتال لگ بھگ ساڑے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہے۔ تقریباً سالانہ چالیس ہزار مریض اس ہسپتال سے اپنے دل کو درست رکھنے اور حسب ضرورت مرمت کروانے آتے ہیں۔ دل میں اٹھنے والی تکلیف کو ہمیشہ ہنگامی بنیادوں پر ہی سنبھالا دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے دل کے ہر ہسپتال میں ہر وقت ہنگامی صورتحال نافذ رہتی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ دل کے مریض کو اگر بروقت طبی امداد نا ملے تو وہ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور جان کی بازی ہارنے والا کسی کا لال، کسی گھر کا واحد کفیل، معصوم بچوں کی خوشیوں کا محور بھی ہوسکتا ہے۔
ابھی پاکستان برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کرنے کی کوششوں سے گزر رہا ہے، ابھی پاکستان پروٹوکول سے آزاد ہونا چاہ رہا ہے، پاکستان چاہ رہا ہے کہ بلاتفریق سب قطار میں لگیں اور اپنی باری پر اپنا کام کریں اور بغیر کسی کی مدد کے اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں۔ مذکورہ ہسپتال میں ایک وکیل صاحب اپنی والدہ کو علاج کیلئے لے کر آئے اور کسی قسم کی تلخ کلامی کی بدولت ایک تنازہ وجود میں آگیا جسکے بعد کچھ بد نظمی بھی ہوئی، ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اپنی جیت کی جشن نما تقریب میں تقریباً وکلاء برادری کی عزت نفس کو مجروح کیا اور وڈیو کے ذریعے سماجی میڈیا پر عام کردیا جس کو وکلاء برادری نے اپنے لئے کھلا چیلنج سمجھا اور باقاعدہ سماجی میڈیاپر موجود ویڈیو سے یہ واضح پتہ چل رہا ہے کہ وہ مذکورہ ہسپتال کو فتح کرنے جا رہے ہیں کیونکہ وہ باقاعدہ للکارتے ہوئے سنائی اور دیکھائی دے رہے ہیں۔ وکیلوں نے ناصر ف سرکار بلکہ ہر ذی شعور پاکستانی کو للکارا ہے کہ دیکھ لیں اس ملک میں جو جتنا چاہے کرلے کوئی انصاف نہیں، یہ معاشرہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مقولے پر چل رہا ہے۔ پی آئی سی کو ایک انتہائی شرمناک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا جب ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجودمریض عدم توجہی کی وجہ سے اس دنیا کو روتا دھوتا چھوڑ گئے۔ جس کی تقریباً ذمہ داری کالے کوٹ والے ہمارے معزز وکلاء کے سر جاتی ہے جنہوں نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر نا صرف سات انسانی جانیں لے لیں اور کتنی ہی انسانی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ مجرمانہ اقدام صرف وکلاء برادری کا ہی نہیں بلکہ ان محرکات کا بھی ہے جو ڈاکٹر وں کے رویوں کی وجہ سے کشیدگی کا باعث بنے۔ ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کے اعمال کیا آنے والی نسلوں پر یہ تاثر نہیں چھوڑ رہے کہ بھلا پڑھ لکھ کر ہم نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے ہیں یا پھر ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنا ہے۔ اس بات کو بھی خاطر میں رکھنا ہوگا کہ ملک کے حالات خراب کرنے میں اس سے پیشتر شہر کراچی استعمال ہوتا رہا ہے کہیں دشمن اب کی بار لاہور کو تو استعمال نہیں کر رہا؟ایک اور بات تحریر کی نظر کرتا چلوں کہ کیا اب وکیل اپنے پاس آنے والے مدعیوں کو یہی حربے بتائیں گے کہ جیساتمھارے ساتھ ہوا ہے تم بھی اس کیساتھ ویسا ہی کرلو۔ اب دیکھنا ہے تحریک انصاف کا انصاف کیا رنگ دیکھاتا ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے کہ سرکاری املاک پر حفاظتی دستوں کی تعیناتی کر دی جاتی ہے بجائے اسکے کہ عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات دیکھائے جائیں۔ پوری قوم حکومتِ وقت کی جانب متوجہ ہے کہ وہ اس گھمبیر معاملے کو کس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچائے گی اور آنے والے وقتوں کیلئے یہ گردی کا تاثر قطعی طور پر معاشرے سے خارج کرے گی۔ یاپھر ہمیشہ کی طرح دودن کیبعد کوئی نئی خبر پرانی خبر لے اڑے گی اور پھر کوئی نہیں گردی سڑکوں پر دندناتی دیکھائی دے گی۔