ہم پاکستانی تاریخ کے اہم ترین دور میں زندہ ہیں۔ اہمیت کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ پاکستانیوں ں نے اپنی پہچان تلاش کر لی ہے اور اب اسے منوانے کے درپے ہیں، دوسری طرف پورا عالمی منظرنامہ اپنی اہمیت کی داستان سنا رہا ہے۔ آج دنیا کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے سے کسی نہ کسی وجہ سے جڑی ہوئی ہے۔ کسی کے مفاد کسی کے ساتھ وابستہ ہیں اور کوئی اپنے مفاد کی خاطر اپنے پڑوسی ممالک سے بھی باز رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تخریب کاری اور دہشت گردی نے اپنی شکل اس لئے بدل لی ہے کہ سماجی ابلاغ کچھ بھی چھپنے نہیں دے رہا اور نہ ہی کسی دباؤ کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہے جبکہ ساری دنیا نے اس حوالے سے قوانین کا اطلاق کر رکھا ہے۔ اس ڈھونگی دنیا میں اب تو سب کچھ صاف صاف دیکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان میں عام آدمی سے لے کر انتہائی خاص افراد تک سب ایک ہی نظریئے کے تحت پاکستان میں مقیم ہیں اور وہ یہ ہے کہ میں اپنا فائدہ کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟
دوسری طرف ہم پاکستانیوں کا سب سے بہترین مشغلہ کرکٹ یا پھر سیاست پر گھنٹوں بیٹھ کر گفتگو کرنا ہے اور کسی بھی عمل کیلئے اپنی عدم دستیابی کیلئے معذرت پیش کر دینا ہے۔ معلوم نہیں کب سے ہم پاکستانیوں کی زندگی ایک چکر میں گزر رہی ہے نہ تو ہم پریشان ہو رہے ہیں اور نہ ہی چکر ختم ہو کر دے رہا ہے البتہ یہ ضرور ہے چکر ہی چکر میں لوگ بدلتے جا رہے ہیں (اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد)۔
افراد کی ایک قلیل تعداد جو اپنے مستقبل کیلئے بہت زیادہ حساس ہوتی ہے اور اپنی زندگی کو قیمتی سمجھتے ہوئے اس گردشی گرداب سے نکلنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور کسی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ عثمان خواجہ، حمزہ یوسف، سکندر رضا اور ان جیسے بہت سارے لوگ دنیا کے افق پر چمکتے دمکتے دیکھائی دیتے ہیں یہ اپنی قدر منوا لیتے ہیں کیوں کے دنیا میں میرٹ (اہلیت) کا نظام چلتا ہے۔
ہم جس نظام کا حصہ ہیں یہاں کوئی بھی اہم نہیں ہے یا پھر سب ہی اہم ہیں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی نہیں سنتا اور اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک ادارہ دوسرے ادارے کی بات جو حکم کا درجہ رکھتی ہے مسترد کر دیتا ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ہمیں اپنے کردار پر نظر ڈالنی ہوگی۔ جب ہم عبادت کرتے ہیں تو اس کا خالص مقصد یہ ہوتا ہے کہ خالق کائنات کو راضی کر لیا جائے تاکہ ہم ان نعمتوں تک پہنچ سکیں کہ جن کی ہم کوشش نہیں کرتے۔
ہم اپنی اولاد کیلئے اور اپنی ذاتیات سے منسلک دعائیں کرتے ہیں یہاں ہمیں یہ پتہ چلا کہ اپنے لئے ہم ہی اہم ہیں، جبکہ ہمارے لئے ہمارے دین کا نفاذ، ملک کا استحکام، معاشرے کا سدھار، معیشت کی بہتری، اور اسی طرح کے دیگر امور بھی برابر کی اہمیت رکھتے ہیں جو ہماری دعاؤں میں شائد ہی شامل ہوتے ہیں اسی طرح ہم اپنے ارد گرد ہونے والے معاملات سے بےخبر اپنی راہ لئے چلے جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی طرح سے راستہ سہی اور سیدھا مل جائے، ہماری راہ میں رکاوٹ نہ ہو۔
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کبھی سڑک پر ٹریفک میں پھنس جانے کے بعد آپ ادھر ادھر سے نکلتے ہیں تو پلٹ کر دیکھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ یار ہم تو نکل گئے اور گاڑی کے رفتار بڑھاتے ہوئے نکل جاتے ہیں، ایک طرف تو قطار میں لگنے سے بچنے کیلئے کسی بھی طرح کا اقدام اٹھانے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن اگر کہیں قطار میں لگ جائیں تو ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح سے جلد از جلد اپنا کام ہو جائے۔ اس ساری گفتگو میں اہم ترین ہم تھے اور ہم سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔ جب آپ کسی بھی چیز کا خیال نہیں کریں گے یا خیال کرنے والوں کی توجہ نہیں دلوائیں گے تو پھر چیز نے تو خراب ہونا ہی ہے پہلے تھوڑی اور پھر مکمل طور تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔
پاکستان کو کبھی بھی حقیقی جمہوری نظام میسر نہیں آسکا کبھی فوجی مارشل لاء لگے رہے تو دوسری طرف سیاسی مارشل لاء نے اقتدار کے مزے لوٹے اور تاحال لوٹ رہے ہیں۔ سیاسی مارشل لاء کو ہمارے ملک میں بطور جمہوریت عوام میں مشہور کیا گیا اور بدقسمتی سے عوام بھی ایسا ہی سمجھتی چلی آ رہی ہے۔ کسی بھی نظام کا جب عملی کام ہی بدل دیا جائے تو بھلا نام کو کیسے زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
جس کی روح سے سیاسی مارشل لاء کو باقاعدہ طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ یہ تو ذاتی مفادات کے لئے برسر پیکار ہونے کا نظام ہے۔ یہاں تو سیاسی جماعتیں بھی افراد کے گرد بنتی پنپتی اور ختم ہوتی دیکھی گئی ہیں۔ افراد اپنے مفادات کی بھینٹ کچھ بھی چڑھانے سے گریز نہیں کرتے۔ ہماری تاریخ نظریہ ضرورت سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے ادارے استحکام کھو بیٹھے ہیں اسی طرح سے انصاف کی باقاعدہ بولی لگتی دیکھی گئی ہیں۔
ہم سب نے دیکھا ہے کہ ہم پہلے اپنے لئے، پھر اپنے خاندان کیلئے، پھر اپنی زبان کیلئے، پھر اپنے علاقے کیلئے، پھر اپنے مسلک کیلئے اور پھر پتہ نہیں کب پاکستان کیلئے سوچنا شروع کرتے ہیں۔ اس ڈگر پر ہمیں باقاعدہ اور منظم طریقے سے چلنے پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اپنی تمام تک خوبیوں کیساتھ بس اپنے مکینوں کی نظروں اور توجہ سے محروم ہو جائے اور تباہی کی طرف پیش قدمی شروع کر دے، یہ پیش قدمی جاری و ساری ہے۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ پاکستان کسی مخدوش عمارت کی طرح منہدم ہونے والا ہے۔
لیکن ایک طاقت ہے کہ جس نے یہ عظیم سرزمین برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک کرنے کیلئے بنائی تھی ایک نظرئیے کو دوام بخشنے کیلئے بنائی تھی اور اپنے دین کے نفاذ کیلئے بنائی تھی۔ ہماری سوچ کو داخلی معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں مقصد بھی صرف اچھی تنخواہ والی نوکری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے یہ ان کی کامیابی ہے۔ ہمیں مقصد حیات کیساتھ سامانِ حیات بھی میسر کیا گیا تھا لیکن ہم اپنی صفوں میں گھس بیٹھیوں کو پہچان نہیں سکے اور شائد تاحال پہچاننے سے قاصر ہیں۔
آج ادارے اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑتے دیکھائی دے رہے ہیں، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اداروں نے پاکستان کے استحکام کی خاطر کبھی اقدامات نہیں اٹھائے صرف اور صرف اپنی اپنی بقاء کیلئے آگے بڑھتے رہے جس کی وجہ سے پاکستان کو عظیم نقصان پہنچتا رہا ہے۔ آج دشمن یقیناََ ہماری کمزور ہوتی سرحدوں کو دیکھ رہا ہے کیوں کہ ہم تو صرف اپنے ادارے یا اپنے نجی گھر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج پاکستان ہم پاکستانیوں سے پوچھ رہا ہے کہ اس سرزمین پر سب انفرادی زندگیاں کیوں گزارنا چاہتے ہیں، قومی تشخص کہاں رہ گیا ہے، اس سرزمین پر اب پاکستان کہاں ہے؟