ہم پاکستانیوں میں ایک عمومی تاثر ہے کہ ساری دنیا کے نظریات ترتیب دینے اور ان پر حکومت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے کاندھے پر بیٹھ کر ساری دنیا میں اور خصوصی طور پر مسلم دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اس جھانسے میں رکھ کر کوئی اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا نے ہمیں ایک ایسے چکر میں الجھایا ہوا ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں بھلا اس سے دنیا کو کیا فائدہ ہورہا ہے۔ دنیا نے ہمیں آگے دیکھنے سے محروم کر رکھاہے (یعنی سراٹھانے کی اجازت نہیں ہے)، ہم اپنی عادات پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ فلاں کے پاس فلانی چیز ہے اور میرے پاس نہیں ہے، اب میں نے ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ میں بھی وہ چیز حاصل کروں بلکہ اس سے بہتر لے کر دیکھاوں، یہ تقاضے ہم خود نا کریں تو ہمارے ساتھ وابسطہ رہنے والے کرتے ہیں۔ یوں بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم سب نے اپنی گردنوں میں آسائشوں کے طوق ڈال رکھے ہیں۔
ہم سمجھ چکے ہیں کہ امریکہ میں ہونے والا(یا کیا جانے والا) 9/11 کا سانحہ دراصل پاکستان پر پھینکا جانے والا ایک انتہائی بھیانک جال تھا، یہاں لفظ خوش قسمتی لکھا جائے یا بد قسمتی یہ خود ہی فیصلہ کرلیجئے گا کیوں کہ اس جال میں پاکستان کسی حد تک تو پھنسا لیکن دنیا میں اپنی اہمیت اور افادیت کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ قدرت کی کاریگری ہے کہ پاکستان پر کیا جانے والا دشمن کا ہر وار ہربار الٹا ہی پڑتا ہے۔ افغانستان سے امریکہ اپنی فوجیں نکالنے کے عمل سے پاکستان کو باہر رکھنا چاہ رہا تھا لیکن ایسا ممکن ہو نہیں سکتا تھا کہ بغیر پاکستان کی شمولیت یا مدد کے یہ عمل خوش اسلوبی سے طے پاجاتا۔ جب یہ مضمون آپ مطالعہ کر رہے ہونگے اس وقت امریکہ کے افغان امور کیلئے خصوصی نمائندے خلیل زالمے پاکستان تشریف لاچکے ہونگے اور ملا برادرز کی قیادت میں افغان طالبان کا وفد اسلام آباد میں حکومتی اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں مصروف ہوگا۔ ایک بار پھر امریکہ کو اس بات کا یقین ہوگیا اور امریکی سوچ بچار کرنے والوں نے بھی اس بات کو خارج از امکان قرار دے دیا کہ بغیر پاکستان کی حمایت کے افغانستان سے امریکی افواج کا پر امن انخلاء ممکن نہیں۔ کیونکہ امریکی صدر جذبات میں افغان طالبان سے مذاکرات نا کرنے کا کہہ چکے تھے جس پر وزیر اعظم پاکستان کی پیشکش پر یہ عمل دوبارہ شروع ہونے جا رہا ہے، اب یہاں سے پاکستان اپنا ایک اہم ترین کارنامہ سرانجام دینے کی جانب پیش قدمی کرتا ساری دنیا کو دیکھائی دے گا۔ یہ سب قدرت کے کام ہے انسان تو بس حکمت عملیاں ہی بناتا رہتا ہے۔
کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اورمسلسل مشکلات میں اضافہ، بھارت کیساتھ روز انہ کی بنیاد پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور ملک میں موجود سیاسی جماعتیں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے مفادات کو خاطر میں نہیں رکھا۔ ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے تقریر اچھی نہیں کی گویہ انکے خیال کی ترجمانی سماجی میڈیا پر کسی نے کیا خوب کی ہے کہ وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ خودکش جیکٹ پہن کر تقریر کرتے اور آخر میں خود کش حملہ کردیتے۔ یہ سوچ بھی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ خود کش حملے کی باتیں کرنے سے بھی انہیں ہی فائدہ پہنچنے والا ہے کیونکہ دنیا پہلے بھی ایسی باتیں کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ چکی ہے اور یہاں یہ سب کچھ ایک سیاسی جماعت کے ذمہ ڈال دیا جانے کا امکان دیکھائی دے رہا ہے، کرسی اور اقتدار کے بھوکے لوگ قدر و منزلت سے قطعی نا آشنا ہیں۔ دنیا تذبذب کا شکار ہوچکی ہے، ان تمام رازوں پر سے پردے ہٹائے جا چکے ہیں جن سے دنیا خوفزدہ تھی، تمام زیر لب کی جانے والی باتوں کو چیخ چیخ کر دنیا کو سنا دیا گیا ہے۔ دنیا کے ہر ملک کو اس سوچ میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ کس طرح سے اپنا ملک اور اپنے لوگوں کو بچایا جائے لیکن ہماری بد قسمتی دیکھیے کہ دنیا کو جگانے والے ملک میں، اجارہ داری رکھنے والے لوگ اپنی سیاسی بساط بچھائے بیٹھے ہیں، دنیا آپ کے حکمران کی طرف بطور ایک رہنماء دیکھ رہی ہے اور آپ ہیں کہ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میڈیا پر دیکھ لیں یا پھر اخبارات دیکھ لیں بس ایک ہی شور سنائی دیتا ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ کوئی حکومت کو درپیش خارجی مسائل تو ایک طرف داخلی مسائل کے بارے میں بھی کئے جانے والے اقدامات پر بات کرتا سنائی نہیں دیتا۔ قانون ساز ایوان اپنا تقدس کھوتے جارہے ہیں اور دیکھائی یہ دے رہا ہے کہ جمہوریت کو بچانے والے درحقیقت جمہوریت کو دھکے دے دے کر نکال رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی، ایران اور شمالی کوریا امریکہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہے ہیں اور سب سے اہم افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء درحقیقت یہ خطے کے مسائل نہیں ہیں یہ پاکستان کے مسائل ہیں، پاکستان کیلئے ہمیشہ سے ایسے سنگین حالات پیدا کئے جاتے رہے ہیں کہ وہ اپنے اندر استحکام پیدا نا کرسکے اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ دشمن کے آلہ کار پاکستان کے اندر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جو بیرونی مالی امداد کی بدولت داخلی حالات کو خراب رکھنے میں کامیابی سے اپنی کارگردگی دیکھاتے رہتے ہیں۔
جیسا کہ عام لفظوں میں مندرجہ بالا سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں جن میں اسوقت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) تو کسی حد حالات کی سنگینی کو سمجھ رہی ہے اور کسی ایسے اقدام کی جس سے ملک کی داخلی صورت حال خراب ہونے کا خطرہ ہو گریزکر رہے ہیں لیکن ہمارے ملک کی ایک نامی گرامی شخصیت مولانا فضل الرحمن جن کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ملک کو کسی سنگین بحران میں دھکیل دیا جائے۔ ان صاحب بصیرت شخصیت کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کیساتھ پچھلے دو ماہ سے کیا کر رکھا ہے۔ اب یہ مولانا صاحب 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے کیلئے نکل رہے ہیں، کوئی ذی شعور اور محب وطن پاکستانی ایسا کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
سارے حالات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ہ میں بیرونی خطرات تو ہیں لیکن ان سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس دنیا کی بہتری فوج موجود ہے لیکن اصل خطرہ جو ہ میں اندر سے کھوکھلا کر کے دشمن کے سامنے تر نوالا بنا کر پیش کرنے والوں سے ہے، اب عوام خود فیصلہ کریں۔