یہ پاکستان اور ہندوستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے درمیان کشیدگی آج کی بات نہیں ہے۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان دیکھیں تو اسمیں بھی اس بات کی جھلک نظر آتی ہے کہ یہ معاملات جلد معمول پر آجائینگے جیسے ہندوستانی صاحب اقتدار نے حالات کی خرابی کی اطلاع امریکی صدر تک پہلے ہی پہنچا رکھی ہوجس کی ایماء پر انہوں نے کہا ہو کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا (خدا کرے کے بات اس سے آگے نا بڑھے)۔ گوکہ صدر دونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ پریشان ہوتے نہیں پریشان کرتے ہیں جیسے کہ انہوں نے تقریباً امریکیوں اور اپنے آس پڑوس والوں کو کر رکھا ہے۔ شمالی کوریا کہ صدر کے ساتھ ہونے والی انکی ملاقات بھی کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلطان کا خصوصی پیغام لیکر سعودی وزیر خارجہ آج پاکستان پہنچ رہے ہیں، ترقی نے بھی اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے، چین نے دونوں ملکوں کو بیٹھ کر بات کرنے کا بھرپور مشورہ دیا ہے اور ایسا کچھ ایران کی جانب سے بھی سنائی دے رہا ہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ہندوستان الٹی ہوگئیں سب تبدیریں کی کیفیت سے دوچار ہوچکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان آج تک پاکستان کیخلاف کچھ بھی ثابت نہیں کرسکا اور بھلا من گھڑت چیزیں کیسے ثابت کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان نے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کا مشترکہ اجلاس چل رہا ہے جس کا ایک دور ہوچکا ہے، اس مشترکہ اجلاس میں پہلی دفعہ ملک کے تمام سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی تقاریر پر بے دریغ تالیاں بجاتے دیکھا گیا اور پہلی ہی دفعہ کسی کی تقریر پر تنقید نہیں کی گئی۔ یقیناًہندوستان کیلئے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہوگا کہ یہ لوگ تو ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے، انہیں کیا ہوگیا ہے سب کہ سب ایک ساتھ ہمیں ناصرف آنکھیں دیکھا رہے ہیں بلکہ ایک آواز ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ مشترکہ اجلاس اور مشترکہ قرارداد کا منظور ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ ہم اندرونی طور سے تو تقسیم ہوسکتے ہیں لیکن اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت قطعی برداشت نہیں کرتے۔ جہاں پاکستان کو انتہائی نازک صورتحال درپیش ہے لیکن پاکستان کی قیادت نے صورتحال کی سنگینی خود جھیلنے کا عزم کر رکھا ہے، غور کیجئے کسی قسم کی ہنگامی صورتحال کا اعلان نہیں کیا گیا، کسی کو طے شدہ معاملات کو تعطل کا نہیں کہا گیا اور نا ہی میڈیا پر چلنے والے پروگراموں کو روکا گیا ہے، ناہی تعلیمی اداروں یا دفتروں کو بند کرنے کا فرمان صادر ہوا ہے اور کسی بھی قسم کا ایسا کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے کہ قوم کو پریشان ہونا پڑے، ہندوستان کے مقابلے میں ہماری تمام میڈیا ٹیموں نے بھی بہت ہی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ کل پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین احسان مانی صاحب نے بھی پاکستان سپر لیگ کے طے شدہ مقابلوں کے انعقاد کا بھی اعلان کردی ہے۔ کیا یہ سب دنیا کی یقین دہانی کیلئے کافی نہیں کہ پاکستان کیا چاہتا ہے اور کس قسم کی تیاری میں مصروف ہے۔ کپتان اور انکی ٹیم جس میں اسوقت پوری اپوزیشن بھی شامل ہے کسی بھی طرح سے قوم کو نازک صورتحال کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے اور دنیا کو یہ واشگاف لفظوں میں بتا رہے ہیں کہ پاکستان کسی قسم کے جنگی جنون میں مبتلا نہیں ہے۔ اب وقت اور حالات کی سنگینی سے پوری قوم آگاہ ہے اور سماجی میڈیا اٹھا کر دیکھ لیجئے پوری پاکستان میں موجود قوم (جن میں اقلیت بھی شامل ہیں) ہی نہیں بلکہ بیرون ملک پاکستانی بھی کپتان، انکی ٹیم اور افواجِ پاکستان کے شانا بشانا کھڑے ہیں اور ہر قسم کا تعاون پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی اعلی قیادت نے پہلے دن سے جنگ نہیں امن کی بات پر زور دیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی ہندوستان کو آگاہ کر دیا ہے اور آج اس تکینک کے دور میں یہ جاننا کسی کیلئے بھی مشکل نہیں ہے کہ جنگوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ ہم ہندوستانیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ کسی بھی ڈھونڈنے والی ویب سائٹ پر دنیا میں ابتک لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں معلومات نکالیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے ہم وطنوں کیساتھ بانٹیں کہ یہ جنگیں تاریخ کہ چہرے پر بدنما داغوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں اوراس بات پر بھی غور کریں کہ جو جنگیں لڑی گئیں وہ پرانے وقتوں کی تھیں کم تکنیک اور مخصوص ممالک کی اجارہ داری کے دور میں لڑی گئیںآج تکنیک کے دور میں جب تقریباً دنیا کے اکثر ممالک بشمول پاکستان اور ہندوستاں نے جوہری ہتھیار بنا رکھے ہیں جو کتنے مہلک ہیں دور حاضر کا بچہ بچہ جانتا ہے اور ہمارا بچہ بچہ تو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اب جنگ ہوئی اور وہ بھی دوجوہری طاقت و ہتھیار رکھنے والوں میں ہوئی تو دنیا میں تیسری جنگ عظیم شروع ہوجائے گی اور جو پچھلی دو عظیم جنگوں کی طرح سالوں نہیں چلے گی بلکہ دنوں میں صفہ ہستی سے ہر ذی روح کا خاتمہ کردینے کیلئے کافی ہوگی، پھر کسی کے کچھ کرنے کیلئے کچھ بچنے والا نہیں ہوگاناہندوستان کے چناؤ کی ضرورت ہوگی اور ناہی دنیا میں مورخین بچیں گے۔
ہندوستان نے جنگ کا ایسا راگ آلاپ رہا ہے جس کا کوئی سر ہی نہیں ہے، جنگ کی باتیں ہندوستان کر رہا ہے جوکہ دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ جتنی پاکستان کیلئے اہم ہیں اتنی ہی باقی ماندہ ایشیاء اور دنیا کیلئے بھی اہم ہیں۔ یہ وہ جنگ ہوگی جسے شروع تو ہندوستان کرے گا لیکن ہندوستان کا حملہ پوری دنیا پر حملہ ہی تصورکیا جانا چاہئے۔ پاکستان کیلئے یہ تمام باتیں اہم ہیں کہ کون اس کڑے وقت میں کیا کر دار ادا کر رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہوچکی ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت میں جنگ کا خواہاں نہیں ہے لیکن یہ بات بھی ہر ایک پاکستانی کی زبان پر ہے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی اگرہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی تو ساری کی ساری ذمہ داری ہندوستان کی ہوگی اور ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اس پاک سرزمین کی حفاظت کیلئے لڑینگے۔
جہاں پاکستان پہلے دن سے امن کا پرچم بلند کئے ہوئے ہے وہیں ہندوستان روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی سرحدوں پر دراندازی کئے جا رہا ہے۔ دنیا کو گواہی دینی پڑے گی کہ پاکستان نے ایک آواز ہوکر چاہے حکومتی آواز ہو یا پھر حکومت مخالف آواز سب نے ہی جنگ نہیں امن کا پیغام ہندوستان کو دیا ہے۔ ایسے حالات میں جب پاکستان ہندوستانی ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھی خیرسگالی کے طور پر رہا کرنے جا رہا ہے تو دنیا کو گواہی کیلئے سامنے آنا چاہئے اور پاکستان کے خیرسگالی کیلئے کئے جانے والے تاریخی اقدامات کو نا صرف سرہانہ چاہئے بلکہ ہندوستان پر بھی ایسے مثبت اقدامات کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا چاہئے تاکہ دنیا تیسری جنگ عظیم سے جہاں تک ممکن ہوسکے بچ جائے۔