تاریخ کی کھوج سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ انسان کو اپنی حفاظت کا مسئلہ موت کے اسباب کے پتہ چلنے سے شروع ہوتا ہے اور زندگی کے تسلسل اور جسم کی نشونما کیلئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذا کے حصول کیلئے انسان کواپنے سے زیادہ طاقتور کسی دوسرے جاندار کو زیر کرنا تھا جس کے لئے اسے کسی ایسے سبب کی ضرورت پڑنی تھی جو اسکی حفاظت کرتے ہوئے سامنے والے کو زیر کردے۔ جب کوئی آپ کی طرف آپ کو نقصان پہنچانے کی غرض بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو قدرتی طور پر آپکے ہاتھ آس پاس سے کسی چیز کو تلاش کرلیتے ہیں جسے بطور ڈھال یا بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکے۔ پتھر ایک ایسی بنیادی چیز ہے جو روئے زمین پر پہلے دن سے دستیاب ہے اس دستیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان نے اسے زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے کیلئے نوک بنائی اور زیادہ پر خطر بنالیا، پھر درختوں کی لکڑیوں کو انسان نے اپنے سہولت کار بنالیا، تیر کمان اور دیگر ضروریات کی اشیاء ترتیب دے لیں۔ اس طرح سے سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور گمان سے لکھ دیتے ہیں کہ انسان نے پہلی تلوار یا چاقو بھی پتھر سے بنایا ہوگا اور پھر لکٹری کو بھی اس عمل کیلئے استعمال کیا ہوگا، ان ہتھیاروں کی بنیاد پر ایسے جانوروں کو جن پر سواری کی جاسکتی تھی اپنے ذرائع آمد ورفت کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔
انسان ان ایجادات کی بنیادی وجہ پر آج بھی قائم ہے اور ہر روز مزید بہتری اور تکنیک کے استعمال سے جدید ترین اسلحہ بنانے میں مگن ہے۔ ساتھ ہی انسان کویہ بھی سمجھ آگیا کہ ان کی بنیاد پر وہ کتنا طاقتور ہوسکتا ہے اور کمزور کو کس طرح سے اپنے تابع کرسکتا ہے۔ آج انسان انسانیت کی بقاء کی آڑمیں اسلحے کی دوڑ میں سبقت لیجانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل طاقت کی اس دوڑ میں مادی طور پر بہت آگے نکل چکے ہیں ان میں امریکہ کا کردار یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی صنعت اسلحہ بنانے کی ہے اور یہ اسلحے کی خرید و فروخت کو کاروبار سے تشبیہ دیتا ہے ساتھ ہی دنیا جہان میں جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، کشمیر، ایران اور قطر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ شاہ سے کہا جاتا ہے کہ جاگتے رہنا اور چور سے کہاجاتا ہے چوری کرو۔ بنیادی ہتھیاروں کے بل بوتے پر انسان نے سرحدوں کاتعین کیا اور قبیلے یا ممالک تشکیل دیئے۔ ایک اندازے کیمطابق بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک لڑائی کیلئے گھوڑے اور تلواریں استعمال ہوتی رہی ہیں اور پھر خلافتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہوگیا۔
اکیسویں صدی کی آمد کا ڈنکا بہت زور و شور سے بجایا گیا جس کی بنیادی وجہ احساس محرومی کو بڑھاوا دینا ثابت ہوااور جو اس بات کی ترجمانی کرتا محسوس ہوا کہ صرف ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک ان میں بسنے والے لوگ اکیسویں صدی میں داخل ہوسکینگے جو کہ اس کی ضروریات پوری کرسکینگے۔ حکمت عملی مرتب کرنے والوں خوب نفسیاتی جال بنا تھا لیکن قادر مطلق کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ گھوڑے اصطبل میں آرام دہ زندگیاں گزارنے لگے اور تلواریں مرد مجاہد کی کمر بستگی سے آزاد ہوئیں اور میان سمیت ٹھنڈے کمروں کی دیواروں کی زینت بن گئیں اسطرح سے دونوں کی روحانی موت واقع ہوگئی۔ گھوڑوں اور تلواروں سے کیا باز ہوئے کہ مسلمان اپنا رعب اور دبدبا ہی گنوا بیٹھے، اسطرح سے سازشی دماغوں نے مسلمانوں سے تلوار اور گھوڑوں کا تعلق ختم کرنے کی طویل جدوجہد میں کامیابی حاصل کرلی ساتھ ہی انہوں نے ایسے ہتھیار تیار کرلئے جن سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی جانیں لی جاسکتی ہیں۔ بندوق، توپ، میشن گنیں، راکٹ، سب سے بڑھ کر ایٹم بم اور مہلک ترین کیمیائی ہتھیار بنا لئے اور اپنی ان دنیاوی طاقتوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو ہر ممکن تنزلی میں دھکیلنا شروع کردیا۔
مسلمانوں نے بہادری کی داغ بیل بدر کے میدان میں ڈالی، جہاں تین سو تیرا اصحاب ؓ نے کفار مکہ کے ایک ہزار کے لشکر کو شکست فاش دی اور اپنے رعب اور دبدبے کا آغاز کیا۔ یہاں سے کفار پر مسلمانوں کی ہیبت نے گہرا ہونا شروع کیا۔ یہ میدان عمل میں کھڑے ہوکر کی جانے والی دعاؤں کا نتیجہ تھا جس کا رعب رہتی دنیا تک کیلئے قائم ہو گیا۔ جنگیں تلواروں، نیزوں اور زرہ بکتر پہن کرمیدانوں میں لڑی جاتی تھیں، دشمن اور دوست کی شکل میں غدارسامنے ہوتے تھے اورجو حقیقی دوست اور ساتھی ساتھ ہوتے تھے، عظیم مقاصد کے حصول کیلئے برسر پیکار ہونے والے ناتو میدان سے بھاگتے تھے اور نا ہی جیتے جی سامنے والے کو بھاگنے دیتے تھے، بھاگنے والا چھپ سکتا تھا اور نا ہی کسی کی بہادری کو چھپایا جاسکتا تھا۔ زرق برق سے آراستہ محلوں اور ٹھنڈے پر تعیش ایوانوں کے بجائے فیصلے فل فور میدانوں میں ہوتے تھے۔ ان ہی میدانوں سے ہیرو بنتے تھے اور یہی میدان بزدلوں کو نگل لیتے تھے۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کوکفار پر فتح و نصرت فرما کر بارہا باور کرادیا کہ جنگی سازوسامان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دین کی سربلندی کیلئے اس یقین کے ساتھ نکلنا کے زندگی جس کی امانت ہے وہ کوئی اورلے ہی نہیں سکتا۔
ہم نے اپنی دنیاوی کمزوریوں کو دائمی کمزوریاں سمجھ لیا ہے اور یہ کمزوریاں باقاعدہ ہم میں تقسیم کی گئیں، ہم نے خوشی خوشی انہیں بطور طوق اپنے اپنے گلوں میں پہن لیا۔ اس طوق سے کمال یہ ہوا کہ ہم ناصرف ایمانی طور پر کمزور ہوتے چلے گئے بلکہ ہمارے جسموں میں بھی وہ سکت باقی نا رہی اور تو اور ہماری سوچوں کے زاوئیے بھی زن، زر اور زمین کی ہوکر رہ گئی۔ اب چونکہ اکثریت ایسی ہی ہے تو پھر اقلیت کا تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مسجدوں، مدرسوں اور دیگر مذہبی اداروں کو چندے کی مد میں خطیر رقم دے کر دل کو بھلالیتے ہیں کہ ہم بھی دین کی سر بلندی کیلئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہم نے دین اسلام کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا جیسے کہ دوسرے مذاہب میں ہوتا رہا ہے ایک وہ حصہ جو دنیا کیلئے وقف ہوتا ہے اور دوسرا وہ حصہ جو رمضان میں ہی دیکھائی دیتا ہے جیسے بارہ مہینے دنیا کیلئے اور صرف ایک ماہ دین کیلئے۔ اسے بدقسمتی کہیں یا پھر آزمائش کے ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں نے ہی پہنچایا اور اس کے پیچھے دنیا اور اسکی مال و متاع کی چاہ تھی۔ جولوگ دنیا کی خیرہ کردہ روشنی سے بچ بچا کر چلنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں انہیں قرانی آیات سے وظیفے نکال کر انکے پیچھے لگا دیا گیا، غرض یہ کے ہر ممکن کوششیں جاری ہیں کہ ہر طرح کے مسلمان کو اسکی طرح سے الجھانے کے اسباب ہوتے رہیں اور بنیادی مقصد کی طرف نا لوٹ پائے۔ گھوڑے اصطبل میں کیا گئے ہماری تلواریں رقص کیلئے چمکائی جانے لیگیں ناکہ دشمن پر کاری وار کیلئے۔
گزشتہ دس دنوں سے فلسطینیوں بشمول معصوم بچوں اور خواتین پر اسرائیلی کس طرح سے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہے ہیں وہ دنیا کی کسی آنکھ سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اسرائیلی فوجیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول میں دوران نماز حملہ کردیا جو انسانیت کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، لیکن تقریباً دو ارب مسلمانوں نے یہودیوں کے اس بیہیمانہ عمل پر بے حسی کی ایک اور اعلی ترین مثال قائم کردی۔ تمام امت نے خون میں نہائے ہوئے فلسطینوں کی پروا کئے بغیر عید الفطر بھی منالی یہ تو بھلا ہو کرونا کہ لوگوں کی تفریحات کو محدود کردیا ورنہ ہم فلسطینی بچوں کو کیا منہ دیکھاتے۔ فلسطین جوکہ انبیاء کی سرزمین ہے اور تمام مذاہب کیلئے یکساں قابل عقیدت و احترام ہے۔ یہ فلسطینی اس مقدس سرزمین کی نگہبانی پر اپنا تن من دھن قربان کرتے چلے جارہے ہیں یہ آج بھی ہتھیار کی سب سے پہلی قسم یعنی پتھر سے دنیا کی سب سے جدید آلات سے لیس فو ج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ ہمیں یقین ہے انہیں سوائے اپنے خالق اللہ بزرگ و برتر کے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ناہی کسی کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کی جنگ پتھروں سے لڑ رہے ہیں یہ انکے خالص عقیدے کی بھی ترجمانی ہے کہ کس طرح سے ابراہا کے لشکر کو پتھر کی کنکریوں سے نیست و نابود کیا گیا تھا۔ انکے پتھر بھی بہت جلد کسی ایسے ہی کرشمے کی جھلک دنیا کے سامنے لائینگے۔ ہم نے اسلحہ سازی میں خوب ترقی کر لی ہے لیکن ہماری ایمانی طاقت اتنی ہی کمزور ہوگئی ہے، ہم نے اپنی آسائشوں کے چھن جانے کے خوف سے، معیشت کے مسائل کو دنیا و آخرت کا مسئلہ سمجھ لیا ہے، یہی ایک ایسا سبب رہ جاتا ہے کہ جس کے پیچھے چھپ کر جان بچائی جاسکتی ہے۔
اب آپ سماجی ابلاغ اٹھا کر دیکھ لیں ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا بغیر کسی مذہب رنگ و نسل کی تفریق کے فلسطینیوں کے حق میں انسانیت کیساتھ انسانیت سوز مظالم روکنے کیلئے سڑکوں پر نکل کھڑی ہوئی ہے لیکن یہاں بھی ہم لوگ نہیں ہیں، ہمیں دنیا کی معیشت عام لفظوں میں دنیا کو کھانا کھلانے والوں نے ایسا کرنے سے منع کر رکھاہے۔ انسانیت کے علمبرداروں نے بغیر کسی عملی کام کئے سماجی ابلاغ کو میدان جنگ سمجھ رکھا ہے جس کی بنیاد پر مخصوص طبقے کو ہی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے موجودہ حالات قیامت کی آخری نشانیوں میں شامل نشانی ہیں۔ اب کس کا انتظار ہے اب کوئی نہیں آئے گا ہم نے ہی محمد بن قاسم بننا ہے ہم میں سے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کو پیدا ہونا ہے، کہیں ایسا نا ہوجائے کہ دنیا تو جائے گی ہی کہیں سفر آخرت بھی پل صراط سے آگے نا بڑھ سکے۔ ہمیں انتہائی شرمندگی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے تاحال اس موضوع پر کچھ لکھنے سے قاصر رہے کہ وقت ہم سے کچھ طلب کر رہا ہے ہم ہیں کہ تلوار کی بجائے قلم اور گھوڑوں کی بجائے سماجی ابلاغ استعمال کر رہے ہیں۔
جنگ نہیں کرنی نا کریں لیکن اسرائیل کو بطور متحد ہ امت مسلمہ ایک ایسا پیغام تو دیں کہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ کس کے ماننے والے ہیں اور کس کے لئے جام شھادت پینے والے ہیں۔