دنیا میں کرکٹ کی رنگینیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں اور کرکٹ باقاعدہ طور پر کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا تھا لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دشمنوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی تھی۔ سن ۲۰۰۸ میں ہمارے پڑوسی ملک میں انڈین پریمئر لیگ کے نام سے اس کرکٹ کے کاروبار کو چار چاند لگے۔ پہلے سیزن میں پاکستانی کھلاڑیوں کو خریدا گیا اور کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا، اس لیگ کی پاکستان کیلئے اہم بات یہ تھی کہ اسوقت کے پاکستانی آل راؤنڈر سہیل تنویر نے ۱۴ رنز دیکر ۶ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا ریکارڈ بنایا اور اس لیگ میں ابھی تک برقرار ہے لیکن نفرت کی عالمگیر مثالیں قائم کرنے والے اس ملک نے اپنی ویب سائٹ پر یہ ریکارڈ تو لگا رکھا ہے لیکن دیگر کھلاڑیوں کے ریکارڈ کیساتھ انکی تصاویر آویزاں ہیں لیکن سہیل تنویر کی تصویر نہیں ہے یہ بھی یاد رہے کہ سہیل تنویر کی بدولت انکی ٹیم راجھستان رائیل نے یہ پہلی لیگ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اگلے ہی سال ۲۰۰۹ میں پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن ٹیم پر لاہور میں مسلح حملہ ہواجس کے بعد سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ تاحال بحال نہیں ہوسکی ہے، جزوی طور پر ایک دو دورے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھرپور خرچہ کر کے کروائے لیکن کوئی خاطر خواہ راہ ہموار نہیں ہو سکی لیکن امید بننا شروع ہوئی۔
پاکستان ایک اولولازم قوم ہے جسے ڈرا دھمکا کے دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا، کیونکہ ا سکاہر فرد اپنی قومی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ دشمنوں کی بارہا کوششوں کے باوجود پاکستان پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگ سکی لیکن پاکستان کو اپنی ہوم سریز بھی متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلنی پڑی جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو خسارہ برداشت کرنا پڑتا رہا ہے لیکن پاکستان نے کرکٹ کو نہیں روکا اور قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ پاکستان نے پھر بھی خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں اور بڑے نام بھی دنیائے کرکٹ کو دئیے۔ پاکستان کی کارگردگی بہتر سے مزید بہتر ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف ساری دنیا کی بڑے کرکٹ بورڈز نے خصوصی طور پرایشیاء سے تعلق رکھنے واے ممالک نے کاروباری کرکٹ شروع کردی بھارت کے اندر ہی ایک اور غیر سرکاری لیگ کا بھی آغاز ہوا جس میں بھی پاکستان کی ٹیم نے شرکت کی اور اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ بنگلادیش اور سری لنکا نے بھی ایسی لیگ کا آغاز کرادیا، جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور آسٹریلیا پہلے ہی ٹی ۲۰ لیگ کا آغاز کر چکی تھیں پھر ویسٹ انڈیز میں بھی ایسی لیگ کا آغاز ہوا۔ پاکستان کی بے چینی بہت بڑھ چکی تھی پہلے قدم کیلئے ہمت اور حوصلہ درکار تھاجس کیلئے نجم سیٹھی صاحب اور انکی ٹیم میدان عمل میں آئی۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد یہ طے پایا کہ پاکستان سپر لیگ کی ابتداء متحدہ عرب امارات کے میدانوں سے کی جائیگی جن کو ۲۰۰۹ کے بعد سے پاکستان ہوم گرؤنڈ کے طور پر اب تک استعمال کررہا ہے۔ حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا ایک دیلیرانہ قدم تھا، جو بہت واضح طور پر بتا رہا تھا کہ ابھی نہیں کیا تو کبھی نہیں کرسکینگے۔ یہ یقین کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہم نے کسی کے مقابلے میں ایسا نہیں کرنا تھا یہ وقت کا تقاضا تھا، ہم کرکٹ سے شدید محبت کرنے والی قوم ہیں۔ جیسے حب الوطنی ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے ایسے ہی کرکٹ بھی ہماری نسوں میں رواں دواں ہے۔ ستمبر ۲۰۱۵ میں پاکستان سپر لیگ کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور وہ تمام لوگ بھی پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی صاحب کیساتھ وہ کاروباری حضرات بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے ٹیمیں خریدیں، یقیناًوہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ پاکستان کی دنیائے کرکٹ میں دو نامی گرامی شخصیات کو پاکستان سپر لیگ کا سفیر مقرر کیا گیا ایک رمیز راجہ اور دوسرے وسیم اکرم تھے۔
پہلے اور دوسرے پاکستان سپرلیگ میں پانچ ٹیموں نے شرکت کی جن کے نام پشاور زلمی، اسلام آباد یونائٹڈ، لاہور قلندر، کراچی کنگزاور کوئٹہ گلیڈیٹر ہیں، پاکستان سپر لیگ کے کامیاب انعقاد کی وجہ سے تیسرے مرحلے میں ایک نئی ٹیم ملتان سلطان کے نام سے شامل کی گئی۔ پہلا پاکستان سپر لیگ جو پہلے میچ سے آخری میچ تک متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلا گیااور یہ میلا اسلام آباد یونائیٹڈ نے پاکستانی کپتان مصباح الاالحق کی قیادت میں اپنے نام کیا جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کوئٹہ گلیڈئیٹر کی تھی، جب کے پہلے کامیاب پاکستان سپر لیگ کے اختتام پر اس کوشش کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا کہ اگلے ایڈیشن کے فائنل مقابلے پاکستان میں کرائے جائینگے، ڈر اور خوف سے نکلتے ہوئے ۲۰۱۷ کا فائنل لاہور میں کھیلا گیا اور اس بار جیت کا سہرا پشاور زلمی نے ہر پاکستانی کو عزیز ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے ڈئیرن سیمی کی قیادت میں جیتا اور دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم پھر کوئٹہ گلیڈئیٹر جسکی قیادت دھوکا نا دینے والے سرفراز احمد کر رہے تھے اور انکے ساتھ دنیائے کرکٹ کا ایک عظیم بلے باز سر ویون رچرڈانکی معاونت کر رہے تھے۔ اس فائنل کے زندہ دلانِ لاہور چشم دید گواہ تھے۔ پاکستان سپرلیگ کی انتظامیہ کا عزم اور حوصلہ بڑھنا شروع ہوا، پاکستانیوں کی پاکستان سپر لیگ پاکستان اپنے گھر میں آنے کی امیدیں بڑھنے لگیں پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب آخری تین میچز پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں منعقد کئے جائینگے اور الحمدو اللہ یہ بھی ممکن ہوا، ۲۰۱۸ کا فائنل اسلام آباد یونائٹڈ نے دوسری بار جیتا لیکن اس بات مدِ مقابل پچھلے سال کی فاتح پشاور ظلمی تھی جو اپنے کپ کا دفاع رہی تھی، یہ فائنل روشنیوں کے شہر کراچی میں منعقد ہوا۔ اسکے بعد بات نے اور آگے بڑھنا تھا پاکستانیوں کی طویل انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی تھیں پاکستان کے میدانوں کی سجاوٹ ۲۰۱۹ کے پاکستان سپرلیگ کیلئے بھرپور طور پر سجنے لگی تھیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے ازلی دشمن کو ہماری خوشیاں کہاں ہضم ہوتی ہیں حالات انتہائی کشیدہ کردئیے گئے لیکن ایک بار پھر پاکستان آرمی اور کرکٹ بورڈ اپنے جذبے اور بہترین انتظامی امور پر دسترس سے اس بات کو یقینی بنایا کہ مقابلے پاکستان میں ہی ہونگے ہاں فرق اتنا پڑا کہ پہلے کراچی اور لاہور میں ہونے تھے پھر صرف سارے مقابلے کراچی میں ہی منعقد کرنے پڑے۔ میچ کراچی میں ہوئے اور ہر کراچی والے کی خواہش تھی کہ وہ ملک میں واپس آنے والی بین الاقوامی کرکٹ کا عینی شاہد بنے اور تاریخ کا حصہ بنے۔ گزشتہ دو سیزن کے میچز میں بین الاقوامی کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کے ہمراہ پاکستان نہیں آتے تھے، کوئٹہ کے ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی رہی اب کی بار ۲۰۱۹میں سوائے چند ایک کے وہ کسی وجہ کہ نہیں آسکے تمام کھلاڑی پاکستان آئے اور اس بار کوئٹہ نے یہ تاریخی معرکہ سر کرلیادوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم ڈیئرن سیمی کی پشاور ظلمی تھی۔
پاکستان سپرلیگ نے بہت کم عرصے میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑدئیے ہیں اور پاکستانی خصوصی طور ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے کھلاڑیوں کے بہت شکر گزار ہیں کہ انہوں نے پاکستان آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان بھی ان کے جیسا ہی ملک ہے بس وہ خوش قسمت ہیں کہ انکا پڑوسی بھارت نہیں ہے۔ حکومت وقت اور ہماری افواج کے ترجمان نے باقاعدہ یہ عندیہ دے دیا ہے کہ انشاء اللہ اگلا سال بھی ۲۰۲۰ اور پورا پاکستان سپر لیگ ٹی ۲۰ پاکستان کے مختلف شہروں میں کھیلا جائے گا، اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ ان مقابلوں کو میران شاہ اور پاکستان کے دور دراز علاقوں تک لے جائینگے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک تھا، ہے اور رہیگا۔ تمام پاکستانی نجم سیٹھی اور انکی ٹیم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس برے وقت میں جو ہم پر مسلط کیا گیا تھا پاکستان سپر لیگ کی بنیاد ڈالی اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان نے کس طرح سے اپنے دشمن کو جسے بھرپور جواب دینے جواز بھی موجود تھا امن کا پیغام دیا ہے۔ بہت دنیا دیکھ لے گی کہ پاکستان سپر لیگ دنیا میں کھیلی جانے تمام لیگز میں سب سے مشھور اور کامیاب لیگ قرار پائے گی۔ اگلا سال ۲۰۲۰ اور پورا پاکستان سپر لیگ پاکستانیوں کے درمیان۔