ہر دور میں حالات مشکل ہی ہوا کرتے ہیں، بہت محدود لوگ ہیں جن کی زندگیاں لفظ مشکل سے شناسائی نہیں رکھتیں۔ ایک وہ لوگ جنہیں قدرت نے دنیا کی ہر آسائش سے نوازا ہوتا ہے اور دوسرے وہ لوگ جنہیں قدرت نے اپنا بھرپور تعلق فراہم کیا ہوتا ہے۔ دونوں کو ہی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی پہلے والے کیلئے اتنی مال و متاع ہوتی ہے کہ خواہش کے سر اٹھانے سے پہلے ہی تمام ہوجاتی ہے ایسے ہی دوسری صورت والوں کی ہے کہ وہ کسی دنیاوی خواہش سے ماورا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہے۔ دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان دونوں کے درمیان میں کہیں رہتے ہیں اکثریت کا تعلق پہلی طرح کے لوگوں سے رغبت رکھنے والوں میں سے ہے کیونکہ عام انسان اپنی خواہشات کا غلام ہے جن کی تکمیل کیلئے مال و متاع کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دوسری طرح کے انسان بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں ایک طرف تو ایسے لوگوں کا لبادہ اوڑھ کر طرح طرح کی بد عنوانیاں کی جارہی ہیں اور حقیت میں اللہ کے ولیوں کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش ہمیشہ سے ہی ہوتی آرہی ہے۔
آسائشوں کی دلدل میں دھنستا ہوا انسان ایک طرف تو سست اور کاہل ہوگیا ہے تو دوسری طرف یہی انسان اپنی مطلب کی زندگی گزارنے کیلئے چاک و چوبند بھی دیکھائی دیتا ہے۔ وقت نے انسان کی پرورش میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
انسان نے انسانوں کو منانے کیلئے اپنی عزت نفس کا قتل کردیا کیوں کے دنیا کی آسا ئشوں کا حصول ناگزیر ہوچکا تھا اور عزت نفس کے زندہ رہتے ہوئے ان آسائشوں کی تکمیل مشکل ترین ہوتی جا رہی تھی۔ آج ایک محاورہ جسے طنزیہ استعمال کیا جاتا ہے کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے انسان کو بے غیرت ہونا چاہئے۔ یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی سوچ کی عکاسی کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔ دراصل پہلے معاملات خفیہ ہوتے تھے، جسمانی پردے کا حال تو تقریباً ہمیشہ سے معتدل رہا ہے۔ آج میڈیا کی لامحدود آزادی کی وجہ سے زیادہ ترمعاشرہ اپنے آپ کو زیادہ آزاد خیال (لبرل)دیکھانے کی چاہ میں بہت کچھ دیکھاتا پھر رہا ہے۔ ہم عزت نفس کو مذہب سے یا کسی اور قدر سے منسلک نہیں کرسکتے کیونکہ صاحب علم جانتے ہیں کہ کوئی بھی مذہب یا معاشرہ نا تو بیحودگی کی اجازت دیتا ہے اور نا ہی لاقانونیت کی اجازت دیتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت سطحی سوچ رکھتی ہے ایسا حتمی نہیں کہ وہ غیر معمولی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں بلکہ مجموعی حالات انہیں غیر معمولی سوچ سے باز رکھتے ہیں۔ غیر معمولی حالات کی ذمہ داری ایسے لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو معاشرے پر قابض ہوتے ہیں۔ بتدریج علم کی کمی نے جہالت کو فروغ دیا جسکی وجہ سے کمزور پر طاقتور حاوی ہوتے چلے گئے۔ یہ جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم دنیا کے ترقی یافتہ ترین دور میں رہتے ہوئے بھی لوگوں کو غیرت نام پر قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں، روپے پیسے کیلئے لڑتے مرتے دیکھ رہے ہیں، اسباب کی جانچ پڑتال کے بغیر خودکشیاں ہوتے دیکھ رہے ہیں، سر راہ قانون نافذ کرنے والے ادارے چند روپوں کی خاطر لاقانونیت کو فروغ دے رہے ہیں۔
حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے اور مشاہدہ کرنے والوں کیلئے قدرت ایسے شواہد عیاں کرتی چلی جاتی ہے جس سے انہیں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو لوگ جہاں دیدہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اللہ رب العزت میں اپنے کلام پاک میں واضح کر دیا ہے کہ ہم نے غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی وضحات طلب ہے کہ وہ اہل علم جو اسلام سے وابسطہ نہیں ہیں لیکن وہ کلام الہی کو بطور حوالہ کتاب لازمی دیکھتے ہیں۔
باتوں سے باتیں نکلتی ہی چلی جاتی ہیں، ایک تحقیق ایک نئی تحقیق کا راستہ کھولتی چلی جاتی ہے، یقینا انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ اللہ رب العزت اپنے بندے سے فرماتے ہیں کہ تو میری رضا میں راضی ہوجا، جو تیری رضا ہے وہ بھی پوری ہوجائے گی۔ لیکن انسان اپنی دانست میں لگا رہتا ہے کہ کہیں سے کچھ ایسا اخذ کرلے کہ دوسرے انسان اسکی قابلیت کہ ایسے معترف ہوجائیں کہ جیسے خدا کے ہیں۔ انسان کے پاس سوائے اسکے کہ وہ قدرت کی کرنی کے آگے سرجھکائے اور کچھ حتمی کرنے کیلئے کچھ نہیں۔ ہم نے سچ جھو ٹ کی درمیانی لکیر بھی مٹا دی ہے، مقصد صرف اپنی بات کو منوانا یا اپنی کامیابی کو یقینی بنانا ہے ہم اپنی باتوں سے مکر جانے کو معیوب نہیں سمجھتے۔
سیاست کو کبھی بھی موضوع بنانے کی کوشش نہیں کی اور نا ہی خوش آئندتوقعات رہیں ہیں، لیکن نا چاہتے ہوئے بھی سیاست پر لکھنا پڑتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کئے بغیر نا تو ایک تہذیب یافتہ شہری ہونے کی ذمہ داری پوری ہوتی ہے اور نا ہی مسلم معاشرے کا مسلمان ہونے کی۔ جب سے ہوش سنبھالا ملک کو زبوں حالی کا شکار ہی دیکھا، خون خرابہ، چوری چکاری، لاقانونیت کی اجارہ داری دیکھی بس یوں سمجھ لیجئے کہ کچھ بھی اچھا نہیں دیکھا۔ یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ کچھ بھی اچھا نہیں رہا اگر ایسا ہوتا تو یہ ملک کب کا بوریہ بستر نما لپٹ چکا ہوتا۔ کچھ ایسی طاقتیں شائد غیبی تھی جو اس ملک کو جیسے تیسے چلاتی رہیں۔ اللہ رب العزت اپنے کاموں کیلئے بندوں کو چن لیتے ہیں اور انہیں عوام میں سے اٹھاکر خاص بنا دیتے ہیں۔ خاص لوگوں کو تسلیم کرنا عام لوگوں کیلئے آسان نہیں ہوتا لیکن مجبوری ہوتی ہے اب اس مجبوری کو پرکھ لیا جائے تو کام آسان ہوجاتا ہے، ورنہ منوانے کے اور بھی بہت سارے طریقے ہوتے ہیں۔ کسی ایک نکتے پر تو اتفاق کا ہونا بنتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر سمجھ لیجئے کہ مار پڑنے والی اور وہ بھی قدرت کی کبھی زمین جھولنے لگے گی، کبھی آسمان پھٹ پڑے گاتو کبھی ہوائیں اپنی جوبن پر چل پڑینگی۔
رات کی تاریکی میں دور کہیں ہلکا سا ٹمٹماتا دیا بھی دیکھائی دینے لگے تو سفرِ نا تمام کے تمام ہونے کی امید بندھ ہی جاتی ہے، ایسے میں سب خوف ہرن ہوجاتے ہیں بس مطلوب کی طرف، ساری توانائیاں جمع کر کے دوڑ لگ جاتی ہے اور سفر تمام ہوجاتاہے۔