یہ ایک ایسا جملہ ہے جو کوئی بھی ادا کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور اس بات کی گواہی بھی ہے کہ الفاظ اپنے معنی کھو چکے ہیں جملہ کیا ہے کہ بغیر عدل و انصاف کے کوئی معاشرہ نہیں چل سکتا۔ ملک میں موجودبر سر اقتدار جماعت تحریک انصاف جسکا بنیادی منشور ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں انصاف کی بحالی کیلئے تقریباً بائیس سال عملی جدوجہد کی اور عوام کو اس شش و پنج میں سے نکالا کہ ہم (تحریک انصاف) ناصرف آپکو انصاف دلائے گی بلکہ آپکے بنیادی حقوق دلانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ عوام کو عمران خان صاحب کی دیانت پر یقین آگیا اوروہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کو پاکستان میں ایسی تقویت تو بڑے بڑے علمائے کرام نہیں دے سکے جو کہ عمران خان صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہوکر دلا دی۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے دنیا کو امن کیلئے سوچنے پر مجبور کیا اور اسکے نتیجے میں اقوام متحدہ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی۔ آج اقوام متحدہ کی مختلف مسائل کے حل کیلئے الگ الگ ذیلی تنظی میں ساری دنیا میں کام کر رہی ہیں اور قابل ستائش حد سہولیات فراہم کر رہی ہیں خصوصی طور پر تعلیم، صحت، غربت کے خاتمے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ درحقیت اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کاجو بنیادی مقصد تھا وہ کہیں گم ہوگیا اور طاقتور ممالک نے اس تنظیم کو یرغمال بنا لیا۔ دنیا نے اپنے آپ کو تیسری جنگ عظیم سے ابتک تو بچا رکھا ہے لیکن دنیا بہت تیزی سے تیسری جنگ عظیم نہیں بلکہ ایٹمی جنگ کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی واحد وجہ دنیا کا غیر منصفانہ رویہ ہے، چلیں اگر کہیں انصاف کی کوئی شکل ہے بھی اسے بھی مخصوص مقاصد کیلئے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر کہیں انصاف ہورہا ہے تو اسے دنیا کے رکھوالے انسانیت کی تذلیل سے مشابہ قرار دیتے سنائی دیتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انصاف نامی شے اب دنیا میں معیوب ترین ہوچکی ہے۔ جسکی واشگاف مثالیں فلسطین، کشمیر، یمن، شام، افغانستان، بھارت، برما اور نامعلوم کتنے ممالک اجتماعی نا انصافی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ درپردہ اسے ساز ش ہی کہا جاتا ہے کہ ایسے ممالک کی اکثریت مسلمان ہیں جسکی وجہ سے اقوام متحدہ کو تقریباً امن کے حوالے سے تو غیر فعل ہی کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ بات دہراتے چلتے ہیں کہ انصاف کے بغیر معاشرہ نہیں چلتا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہو اور انصاف ہی نا ہو تو پھر پاکستانی عوام کہاں جائینگے۔ لاتعداد ایسے مقدمات کاغذوں میں پڑے سڑ رہے ہیں کہ جن کے ملزمان دندناتے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے گھوم رہے ہیں اور سونے پر سوہاگا کہ کتنے ہی ایسے مقدمات ہیں کہ جن میں قانون نافذ کرنے والے ادارے براہ راست ملوث ہیں۔
ہم اگر کراچی میں ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاون کو لیں جہاں سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلادیا گیاوہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ انکا قصور کیا ہے، کتنے ہی گھروں کا چولہا بند ہوگیا اور شائد وہ اسے جلانے کیلئے آج تک تگ و دو میں مصروف ہونگے لیکن انصاف نہیں ہوسکا، ۱۱ مئی کو ایک اور سانحہ ہوا، 27 دسمبر کورالپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو سرعام گولی کا نشانہ بنایا گیا جوکہ پاکستان کی دو دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں انہیں انصاف نہیں مل سکا، اسی دن سندھ میں خصوصی طور پر کراچی میں جو جرم کا بازار لگا اسکا آج تک کوئی سد باب نہیں ہوسکا، لاہور کا مشہور ترین سانحہ ماڈل ٹاون جس پر طاہر القادری صاحب نے سر پر کفن تک باندھ لیا لیکن کسی منطقی انجام کے پہنچائے بغیر خاموش ہوکر بیٹھ گئے، ایسے لاتعداد واقعات ہر روز رونما ہوتے ہیں اور جب سے سماجی میڈیا کا دور آیا ہے تو کوئی بات پاکستان تو کیا ساری دنیا کی پل بھر میں ہر کسی کی پہنچ میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ چند ایسے اہم ترین واقعات ہیں جو ہمارے انصاف کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے والے اداروں پر سوالیہ نشان بن کر سجے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھئے تو پورے ملک کے تھانوں کے باہر لکھا ہوا دارلامان کبھی اپنے نام کی لاج رکھ ہی نہیں سکا اور نا ہی اس میں موجود عملے نے کبھی اس لکھے ہوئے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
سال رواں کے جنوری میں رونما ہونے والا ایک اور سانحہ، سانحہ ساہیوال کے نام سے گزشتہ روز اس وقت تاریخ کا حصہ بن گیا جب اس مقدمے میں تمام نام زد ملزمان کو عدم شواہد کی دستیابی کے باعث رہا کردیا گیا۔ اس واقع میں ایک ہی خاندان کے تین افراد جن میں ماں باپ اور اریبہ نامی ایک بچی بھی شامل تھی۔ مختصر یہ کہ انکی گاڑی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شک ہوا تھا کہ یہ دہشت گرد ہیں اور اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کیلئے جا رہے ہیں، شک کی بنیاد پر انہوں نے گاڑی پر اندھا دھند گولیاں چلا دیں اور چار قیمتی جانیں چھین لیں۔ گزشتہ روز عدالت نے مقدمہ نمٹاتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مقتولین کے لواحقین نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کردیا ہے یعنی گرفتار شدہ لوگ وہ نہیں ہیں جو اس واردات میں ملوث تھے۔ کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقنی بنائے چاہے اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی کیوں نا ملوث ہوں۔ کہیں ایسا نا ہوکہ کرائے کے قاتلوں کی ذمہ داری بھی ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی لے لیں۔
کشمیر کو انصاف نہیں مل رہا کیوں کہ اسکی پشت پناہی وہ طاقتیں کر رہیں ہیں جن سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے لیکن کیا سانحہ بلدیہ ٹاون، سانحہ ماڈل ٹاون اور اب سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیا عوام یہ سمجھ لیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خود ہی تبدیل ہوکر رہے گئے ہیں۔ عوام موجودہ حکومت سے اور خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ خدا کیلئے آپ نے جن وعدوں پر ہم سے ووٹ لئے ہیں انہیں ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کیجئے، ہم نے پیٹ پر پتھر بھی باندھ لئے ہیں، آپ کے کہنے کیمطابق برداشت بھی کر رہے ہیں اور ہم ریاست مدینہ میں رہنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن ہماری برداشت کی حد ختم ہونے سے پہلے عدل و انصاف دلا دیجئے گاورنہ پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔