پاکستان ہر روز ایک نئے حادثے کا شکار ہوجاتا ہے، قوم ہر روز ایک نئی قیامت پر سینہ کوبی کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ مگر افسوس ہم اپنی صفوں میں گھس بیٹھئے میر جعفر اور میر صادق کو نہیں پہچان پارہے ہیں، بلکہ ہم تو انہیں کے کاندھوں پرسر رکھ کر اپنا دکھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ہمارا حافظہ اتنا کمزور کیوں ہے یاپھر ہم خودغرضی کے اندھے کنویں میں گر چکے ہیں جہاں سوائے اپنے کچھ اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔
ایک بار پھر ہم نے کسی کی لگائی ہوئی آگ میں اپنے پیاروں کو جھونک دیا۔ جی ہاں ہمیں حقیقی طور پر نہیں معلوم کے یہ داعش کیا بلا ہے کیونکہ ہم بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے عادی ہیں (لکیر کے فقیر ہیں)۔ کوئی باہر سے بیٹھ کر ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کے گھر میں یہ ہورہا ہے تو ہم بغیر کسی تصدیق کئے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور اپنے لئے صف ماتم بچھالیتے ہیں۔ کیا ہم لوگ کب اس گرداب (جن میں ہم پھنسے ہوئے ہیں) سے باہر نکلیں گے؟ کسی معصوم بچے کی طرح ہم لوگ کسی کے بھی کہنے میں آجاتے ہیں اور وہ کر بیٹھتے ہیں جس کا بعد میں ازالہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثا ابھی تک انصاف کی جھولی پھیلائے بیٹھے ہیں، انصاف کی حکومت تو آگئی لیکن ان انصاف کے طلبگاروں کو انصاف میسر نہیں آسکا اسکے برعکس انصاف مانگنے والوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے اذہان وقت کی دھول سے بچ گئے ہوں تو یاد کریں وہ دن جب اسلام آباد میں ایک دھرنا دیا گیا تھا اور اس دھرنے کے دنوں میں قومی اسمبلی کے وہ تمام نمائندے جو کبھی کبھار اسمبلی میں جلوا گر ہوتے تھے باقاعدگی سے اجلاسوں میں شرکت کرتے دیکھائی دے رہے تھے، ہمیں یاد ہونا چاہئے اس وقت بھی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور جمہوریت بچانے کیلئے سب ایک آواز بنے ہوئے تھے، یہی ہیں وہ لوگ جو ہمیشہ سے ملک کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ دھرنا بھی ایک خالص جمہوری طرز احتجاج ہے، آرمی پبلک اسکول کا دلدوز سانحہ اس دھرنے کے خاتمے کا سبب بنا۔ لیکن اس بات کی گواہی کون دے گا کہ بدعنوانوں کو بدعنوان کہنے سے جمہوریت کو خطرہ کیسے لاحق ہوتا ہے۔ آج ایک بار پھر ہمارے ملک کے تمام سیاستدان قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کیلئے آپسی تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ عدالتِ عالیہ سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے ملک کے تمام معتبر سیاستدانوں سے ایک بار عدالت میں بلا کر پوچھ لیا جائے کہ جب بھی پاکستان کی بات ہوتی ہے تو آپ لوگوں کے مفادات کو کیوں نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
آج وقت اپنے آپ کودہراتا دیکھائی دے رہا ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں نامزد افراد سانحہ ساہیوال والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعوی کرتے سنائی دے رہے ہیں، کیا سیاست انسانیت سے زیادہ بڑی ہوگئی ہے، یہ کیسی سیاست ہے؟ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ ایک طرف اپنے دور میں ظلم کی داستان رقم کی اور اب مظلوموں کیساتھ آکر بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن اب ویسا نہیں ہونا چاہئے جیساکہ ماضی میں ہوچکا ہے اب رپورٹ جمع ہو اور ساتھ ہی عدالت مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اس عمل کے محرکات کو بھی سامنے لانے کی جرات حکومت وقت میں ہونی چاہئے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا پھر سانحہ ساہیوال ایسے واقعات اس وقت تک ہوتے رہے گے جب تک ہمارے سیاستدان ملک کی سالمیت اور بقاء کی خاطر ایک نہیں ہوجاتے۔ جب تک یہ لوگ اسی طرح ٹکڑوں میں (علاقائی) بٹے رہینگے اس وقت تک اداروں کے مضبوط ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس ملک کی خاطر اپنے ووٹرز کی خاطر اپنے حمایت کرنے والوں کی خاطر اس وقت تک کیلئے ایک ہوجائیں جب تک ملک کے تمام ادارے منظم نا ہوجائیں، انکی من مانیاں ختم نا ہوجائیں، یہ سڑکوں پر فیصلے کرنے والے قانون پر بھروسہ کرنا شروع کردیں، قانون کو قانون کی کتابوں کیمطابق فیصلہ کرنے کاحق دیدیں، لوگوں کی بھوک ختم کرنے کیلئے ایک ہوجائیں، تھر کو ایک مثالی شہر بنانے تک ایک ہوجاؤ، پاکستان کے ہر بچے کو اسکول بھیجنے تک ایک ہوجاؤ، ہر نوجوان کو روزگار دینے تک ایک ہوجاؤ۔ اگر ملک ہی مفاد ہے تو پھر کوئی طاقت ہمارے درمیان تفریق نہیں کرسکتی۔ یہ سب کچھ ایک بار ہوجانے دیں پھر بھلے سے ہی جو دل چاہے کر لینا۔ بس اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحال پاکستان دینے کیلئے ایک ہوجاؤ۔ پھر کسی کی بھی حکومت آئے گی وہ اور بہتر کرنے کی کوشش کرے گا اور بہتری کی ایک نا ختم ہونے والی آب و ہوا ہمارا مقدر بننے کا منتظر ہے۔