1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. ورنہ، یہ وقت پھر کبھی نا آئیگا!

ورنہ، یہ وقت پھر کبھی نا آئیگا!

انسان اپنی ذہنی کیفیت کی پختگی کا اندازہ لگانا چاہے تو بہت اچھی طرح سے لگا سکتا ہے، جہاں اسکی عملی زندگی میں کئے گئے فیصلے اس پر واضح کردینگے کہ اس شخص کی ذہنی پختگی کی کیا نوعیت ہے۔ ہر فرد کا حالات و واقعات کو سنبھالنے اور ان سے نمٹنے کا مختلف طریقہ کار ہوتا ہے، کچھ لوگ بھاگ جاتے ہیں، کچھ لوگ الجھ جاتے ہیں لیکن کم لوگ ان حالات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہیں درست سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ تیسری قسم کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ زندگی ایسے ہی حالات و واقعات سے ترتیب پاتی ہے ناکہ کسی سیدھی سڑک کی طرح ہوتی ہے جہاں نا کوئی رفتار روکنے کا سبب اور نا کوئی سڑک میں خرابی اور نا ہی گاڑی چلانے والے میں کوئی نقص، یہ ہی لوگ انسانیت کیلئے قدرت کا تحفہ ہوتے ہیں۔

حق پر کیا جانے والا کوئی عزم اور کوئی فیصلہ تبدیل کرنا انسان کی کمزوری ہوسکتی ہے لیکن قدرت کی منشا نہیں کیونکہ اس بات انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حق رہنے کیلئے اور باطل مٹنے کیلئے ہے۔ حالات کی ناسازگاری یا ماحول کا موافق نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ سب وقتی ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین ہونا سب سے ضروری ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ حق اور سچ کا ہے۔

دنیا کی طاقتوں نے وہ چنگھاڑ سنی جس کا شائد گمان بھی نا کیا گیا ہو، جی ہاں ! وہ چنگھاڑ دنیا کی معیشت پر خاموشی سے قبضہ کرنے والے ملک عوامی جمہوریہ چین کہ صدر زی پینگ کی ہے، چینی صدر کی دھاڑچین کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے چالیس سال مکمل ہونے پر سنائی دی۔ چینی صدر نے بہت ہی واشگاف اور دھیمے لفظوں میں دنیا کو بتا دیا کہ چین اپنی داخلی و خارجی امور یا حکمت عملی سازی میں کسی کی کوئی مشاورت یا عمل دخل قبول نہیں کریگا۔ چین کے صدر کو یہ بات کہنے کیلئے چالیس سال انتظار کرنا، چالیس سال کی انتہک محنت، بہترین منصوبہ سازی اور سب سے بڑھ کر حب الوطنی نے چین کو یہ دن دیکھنا نصیب کیا۔ آج چین اس حیثیت میں ہے کہ کوئی اس بیان کے حوالے سے کوئی بات تک کرنے کا اہل نہیں ہے۔ یہ انتظار طویل ضرور تھا لیکن صحیح راستے کا تعین اور اسمیں درپیش مشکلات کا منظم اور مستحکم حکمت عملی سے سامنا، دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور دیگر بے تحاشہ مسائل سے نمٹتے ہوئے سفر کو جاری رکھتے ہوئے اس تاریخی دن تک پہنچے۔ بظاہر دنیا میں عالمی طاقت کا منبہ متحدہ ہائے آمریکہ کو سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقی معنوں میں دنیا کی معیشت پر چین اپنی دھاک بیٹھا چکا ہے، آج امریکہ کی دکانوں میں بھی چاہئنا ہی موجود ہے۔ آج چین یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں کسی پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دنیا کے تقریباً ہر گھر میں ہم موجود ہیں (اور ایسا ہے)۔

یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ چین نے خطے میں ہونے والی ہر قسم کی سرزنش کا سامنا کرنے کیلئے پاکستان سے گہری اور مثبت دوستی پر ہمیشہ زور دیا، پاکستان نے بھی کبھی اس تعلق پر سوالیہ نشان نہیں آنے دیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنے اتنے قریبی ساتھی سے یہ نہیں سیکھا کہ ترقی کی شاہراہ پر کس طرح سے گامزن ہوا جاتا ہے، ہم نے ہم ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی اور تعاون کرتے چلے گئے دوسری طرف ہمارا دوست اپنی بہترین حکمت عملیوں اور بدعنوانی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آج چین نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن سہارا فراہم کیا ہے لیکن کیا پاکستان نے چین سے یہ بات پوچھنے کی جسارت کی کہ چین کا اتنی بلندیوں پر پہنچنے کا فارمولہ کیا ہے۔ چین کی ترقی کی بنیاد بدعنوانی سے نجات پانے سے شروع ہوئی۔ معاشرہ یا قانون بدعنوان افراد کے ساتھ ایسا سلوک کرے کہ وہ خود ہی اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کرلے اور آنے والی نسلوں کیلئے نشان عبرت بن جائے۔

ان چالیس سالوں میں ایسا نہیں تھا کہ پاکستان کہیں اور تھا اور چین ترقی کی منزلیں کہیں اورطے کر رہا تھا، یہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر موجود تھے لیکن افسوس چین کے حکمرانوں نے آنے والے وقت کو بھانپ لیا تھا وہ سمجھ گئے تھے کہ آنے والا وقت کی طاقت معیشت کا استحکام ہے۔ جہاں چین نے پاکستان کیساتھ اپنی دوستی کی عملی بہترین مثالیں قائم کیں وہیں اپنی محنت اور مشقت کے مشن پر بھی بھرپور کاربند ررہا لیکن پاکستانی حکمرانوں کو چین میں ہونے والی ترقی تو دیکھائی دے رہی تھی لیکن اس ترقی کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر کبھی دھیان دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان نے پیسے کی لین دین اوراسلحہ سازی پرخصوصی توجہ مرکوز رکھی۔ ہم نے سفر کرنے کیلئے تنزلی کا راستہ چنا جو کسی اندھی کھائی کی جانب جاتا ہے (جس پر صرف اور صرف عوام الناس نے جانا ہے) اورچین کی طرح پاکستان کے اور دوست ممالک بھی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے روشنی کی منزل پر پہنچے ہوئے ہیں۔

تھوڑا سا زاویہ تبدیل کر کے دیکھتے ہیں اور وہ اسطرح کہ ایسا نہیں چین کی ترقی کیساتھ ہم نے ترقی نہیں کی بس فرق اتنا ہے کہ چین نے اجتماعی(ملکی) ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی بلندی کی جانب سفر جاری رکھا اسکے برعکس پاکستان کی حکومت نے انفرادی (ذاتی) ترقی کو پاکستان کی ترقی سے زیادہ اہم سمجھااور تیزی سے تنزلی کی جانب دوڑ پڑی۔ اب یہ سمجھ سمجھ کا فرق تھا جو واضح ہوتا ہوا یہاں پہنچا، ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ایسے ویسوں سے ڈرے سہمے رہتے ہیں ایسی کیفیت میں ہمارا کچھ بھی کہا کچھ نا کہنے کے برابر ہی ہوتا ہے اور چین کے صدر نے دنیا کو اپنے طاقتور ہونے کا اعلان طاقتوروں کو للکار کر کیا ہے (چین کے صدر کا کہنا ہے کہ کوئی چین کو حکم نہیں دے سکتا)۔ کوئی کا کیا مطلب ہے اس سے تو ہم سب بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔

پاکستان کو وجود میں آئے ۷۰ (ستر) سال گزر چکے ہیں یعنی اگر ۳۶۵ (تین سو پینسٹھ) دن ضرب کئے جائیں ان ستر سالوں سے تو صرف پچیس ہزار پانچ سو پچاس دن بنتے ہیں جو کہ حساب کے اعتبار سے بہت کم معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ستر کے ہندسے کو کسی فرد پر رکھیں تو وہ عمر رسیدہ دیکھائی دے گا۔ تقریباً چھبیس ہزار دن لگا لیں لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے ذاتی ملکیت اور بینک کھاتوں میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ چین کیا دنیا کے کسی بھی ملک کی ترقی حقیر سی معلوم ہوتی دیکھائی دے گی(نام لکھنے کی جرات نہیں کر رہا)۔ کون کیا تھا اور کیا ہوگیا زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس تھوڑا تھوڑا سا اپنے گھروں کے بڑوں سے پوچھ لیں، ویسے تو گاہے بگاہے یہ سیاستدان ایک دوسرے کی اصلیت پر سے پردہ اٹھاتے رہے ہیں۔ بس افسوس اس بات کا ہے کہ نا تو عوام کو یاد رہتا ہے اور ناہی عدلیہ زبان درازی پر کسی کی باز پرس کرتی ہے۔

پاکستان نے اپنے پچھلے تین یاچار ادوار (بیس سال) صرف اسی شور شرابے میں گزارے ہیں کہ یہ چور ہے وہ چور ہے لیکن چور کی پکڑ کیلئے کوئی مستند اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ وہ ادارے بھی مفلوج اور لاچار بنادئے جنہیں چوروں کو پکڑنا تھا انہیں کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کو بدلنا چاہتے تھے پاکستان ایک ایسی یکسانیت کا شکار ہوچکی تھی کہ جس میں سوائے عوام کے پسنے کے اور کچھ نہیں بچا تھا۔ برسراقتدار آنے والی جماعت نے تبدیلی کا نعرہ لگایا نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور وہ کچھ کر کے دیکھایا جو کبھی پاکستانیوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ان نعروں پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت نے بدعنوانی کیخلاف عملی جنگ کو اپنا منشور بنا یا اور اقتدار میں آنے سے قبل ہی کڑے احتساب کا آغاز کردیا۔ حکومت وقت نے اداروں کو مضبوط کر کے انکی حقیقی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی اور بہت ہی قلیل وقت میں کسی حد تک ایسا ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ دنیا نے پاکستان کی حیثیت کو ایک بار پھر تسلیم کرنا شروع کیا ہے، پاکستان کو گہری کھائی سے نکالنے کیلئے ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑے گیا۔ پاکستان ایک ایسی بکھری ہوئی بساط ہے کہ جس کا ایک ایک مہرہ اپنی جگہ سے کہیں اور پہنچا ہوا ہے، سب کو انکی جگہوں پر واپس لانا ہے، سب کو اکھٹا کرنا ہے، عوام کو پہننے کیلئے کپڑا ور کھانے کیلئے روٹی بھی دینی ہے۔ چیزوں کو ترتیب دینے میں وقت لگتا ہے، خراب حالوں کو یہ بتانے میں کہ وہ کتنے خراب ہوچکے ہیں وقت لگتا ہے، ستر سالوں کا بگڑا ہوا نظام صرف ایک سال سے بھی کم عرصے میں کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ وقت سمجھداری سے عملدرآمد کرانے کا ہے اور حکومت کے ہر نمائندے کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا اپنے اختیارات کا مثبت استعمال کرنا ہوگا۔ حکومت یا حکومتی ادارے اپنے منشور سے اپنے عزم سے اگر بھٹک گئے تو پھرکوئی صاحب اقتدار کو کٹہرے میں لانے کا تصور بھی نہیں کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ابھی بھی کچھ نہیں ہوسکا اور حکومت وقت اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئی، اپنے منشور سے مکر گئی، تو یہ وقت پھر شائد کبھی نہیں آئیگا۔