دور حاضر میں علم جسے ہم لفظوں کا ہجوم کہتے ہیں، کی بہت فراوانی ہے، وہ لوگ جنہوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی وہ بھی وقت کے عالم بنے بیٹھے ہیں گویا کہیں علم کاسمندر بہہ رہا ہے اور کوئی بھی وہاں سے علم لے اور اپنی مرضی سے اس کا پرچار شروع کردے(ایسی صورتحال بھی قیامت قریب کی نشانیوں میں شامل ہے)۔ اس علم نما کے سمندر کا نام سماجی میڈیا رکھا گیا ہے جہاں الف سے یے تک ایک سے ایک مبصر، ایک سے بڑھ کر ایک دانا اور بڑے بڑے علم کی تمام اصناف پر بھرپور گرفت رکھنے والے افراد کی بہتات ہے۔ تعلیمی اداروں میں آجکل طالبِ علم کیا کرنے جا رہے ہیں یہ تو ہمارے ارباب اختیار بہت واضاحت سے بیان کر ہی چکے ہیں۔ اتنا علم اتنی جانکاری کی چکاچوند کرنے والی روشنی بھی اگر کسی کے اندھیرے زدہ ذہن کو منور نہیں کر پارہی تو پھر اسکا مطلب بہت واضح ہے کہ وہ ایک بند ذہنیت رکھنے والے کا دماغ ہے جو اپنی مرضی کے علم کو سوچ کو ذہن میں داخل کرنے کیلئے تالا کھولتا ہے اور پھر فوراً واپس بند کردیتا ہے۔
بھارت کی سیاست بھی کسی ایسی ہی ذہنیت کی حامل افراد پر مشتمل ہے جو خود تو ملک سے بھوک و افلاس مٹا نہیں سکتے اور جب بھی بھارت میں چناؤ (انتخابات ) قریب آنا شروع ہوتے ہیں تو مختلف سیاست دان پاکستان کو اپنی سیاسی تقریروں میں گھسیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ بند ذہنیت کے ہمنوا بھی بند ذہنیت پر اپنی پسندیدگی کی مہریں لگادیتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارے پڑوسی ملک میں سرکار ترتیب دی جاتی ہے۔ غربت اور افلاس کے باوجود آبادی کی روک تھام پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور رعایا اس بات پر ہی خوش ہورہتی ہے کہ پاکستان کو گالیاں تو دے رہے ہیں۔ زیادہ گہرائی میں جائے بغیر اس بات کو اخذ کرنابہت آسان ہے کہ پاکستان کی بہتری کی جانب پیش قدمی، پاکستان کے دیرینہ دشمن کو برداشت نہیں ہورہی۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب جوکہ ایک جہاں دیدہ آدمی ہیں نے دنیا کو بتایا ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی بار پرواز کرنے کو تیار ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ جلد از جلد یہاں سرمایاکاری کرنے کیلئے آگے بڑھیں۔ سعودی عرب کیساتھ پاکستان اور پاکستانیوں کی خصوصی شدید مذہبی انسیت و محبت ہے، سعودی عرب نے ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان پر کسی قسم کا برا وقت آیا بھر پور ساتھ دیالیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دیا جانے والا ساتھ اور اس کی مد میں کی جانے مالی مدد کا آج تک سراغ نہیں مل پارہا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی پاکستان آکر کسی نے مدد نہیں کی بہت معذرت کیساتھ بھیک کی طرح مطلوبہ رقم منتقل کروادی گئی۔ اس طرح کے معاملات سے کبھی بھی دنیا کو کوئی پریشانی نہیں تھی کیوں کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ پاکستان اس طرح کی امدادوں سے کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اور سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک ایک وقت تک پاکستان کا ساتھ دینگے پھر اسکے بعد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے جائینگے (ماضی میں ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے جب سعودی حکومت نے مدد کرنے سے انکار کردیا تھا) اور پاکستان دشمنوں کیلئے ایک تر نوالا بن جائے گا۔ دنیا کے حکمت علمی مرتب کرنے والوں نے کبھی بھی عمران خان کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھا ہی نہیں ہوگا اور دیکھا بھی ہوگا تو بس ایسے ہی چل چلاؤ والے کی طرح یعنی خان صاحب اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا شوق پورا کرلیں۔ لیکن حالات اور حتمی فیصلہ جس ربِ ذولجلال کے ہاتھ میں ہیں اس سے بہتر کوئی حکمت عملی مرتب کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ عمران خان وزیراعظم بھی ہیں اور اس وقت کے دنیا کے چند بہترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن سے دنیا کے رہنماء ملنا بھی اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے دشمنوں کو یقیناًاب سے پہلے کبھی اتنی پریشانی لاحق نہیں رہی ہوگی جتنی کے موجودہ حکومت کے اقدامات سے ہو رہی ہے اس پر سونے پر سہاگا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دو روزہ دورے سے تو بس کیا کہیں کہ نا صرف غیرملکی دشمنوں بلکہ ملک میں رہنے والے پاکستان دشمنوں کی بھی نیندیں حرام ہوگئیں۔ سعودی ولی عہد کے موجودہ حکومت کیلئے قابل تحسین کلمات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بھرپور عملی اقدامات کا اعلان کرکے بھارتی اور امریکی حکمت عملی سازوں کے سارے خواب چکنا چور کردئے۔
اگر کڑیاں ملائی جائیں تو بہت واضح ہوجاتا ہے کہ پلوامہ، کشمیر میں ہونے والا افسوسناک حادثہ سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران ہی کیوں ہوا؟ کیوں کہ بھارت یہ ثابت کرنے کی کوشش میں تھا کہ سعودی ولی عہد اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے جائیں یا پھر کم ازکم پاکستان کیلئے خیر سگالی کے اقدامات سے گریز اں رہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے پڑوسی کسی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا ہی نوچتے رہ گئے۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوچکی کہ دنیا کے سامنے بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔
پاکستان کوبیرونی خطرات سے نمٹنے کا بھرپور ہنر آتا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی خطرات میں الجھانے والے اپنے ہی لوگ ہیں اور اپنوں کو بغیر تکلیف پہنچائے نمٹنا مشکل کام ہوتا ہے۔ پاکستان پہلی بار مستحکم ہونے کی تیاری کررہا ہے، پائیدار اور دیر پا حکمتِ عملیاں مرتب کی جا رہی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ملک کے کچھ انتہائی ذمہ دار لوگ اسے مستحکم ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ بھارت کے اپنے لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ کشمیر میں ہونے والا خودکش حملہ پاکستان نے کروایا ہے، انکا کہنا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کاروائی میں پاکستان ملوث ہے تویہ ثابت کون کرے گا کہ اتنا وزنی بارود کس طرح سے یہاں تک پہنچا، کیا کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہلائے گا۔
دنیا کے امن پسندوں اور امن کیلئے دیرینہ کاوشوں میں مصروف رہنے والوں کیلئے کشمیر کے معاملے پر بھارتی ہڈ دھرمی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، کشمیر ایک عرصے سے آپ لوگوں کے عملی اقدامات کا منتظر ہے آخر انصاف کا یہ دوہرا معیار کب تک چلے گا؟کیا آج جب بھارتی حکومتی ادارے پاکستان کو کھلے عام دھمکی آمیز پیغامات دے رہے ہیں تب بھی اقوام متحدہ اپنا بین الاقوامی اثر و رسوخ استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور گزشتہ دس سالوں سے امن کے قیام کیلئے مالی و جانی نقصانات اٹھاتا جا رہا ہے۔ جسکی گواہی دنیا ہر فورم پر دے چکی ہے۔ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے بھارتی حکمران عمران خان سے پریشان ہوگئے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے کہا تھا کہ آجاؤ کشمیر کا فیصلہ کرکٹ کے میدان میں کرلیتے ہیں اور اب بھارت کو یقین ہوچکا ہے کہ کشمیر بہت جلد آزاد ہونے والا ہے۔ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بھارتی حکومت اگر پاکستان پر حملہ کرنے کا شوق رکھتی ہے تو پھر یہ شوق بھی پورا کرکے دیکھ لے اور یہ جان لے کہ ہم تو جیتے ہی مرنے کیلئے ہیں۔ کپتان نے بہت واضح پیغام دے دیا ہے کہ ابکے ہم سوچینگے نہیں۔ اللہ ہمیشہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔