زینب سرحد کے اس پار پیدا ہوئی اور راکھی کا جنم سیما کے اس پار ہوا۔ دونوں کا تعلق اس طبقے سے تھا جن کے گھر بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے اور ماؤں کی آنکھوں میں ان کو دلہن بنا دیکھنے کی خواہش دن رات زور پکڑتی جاتی ہے۔
زینب اور راکھی کی عمروں میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ اتفاق تھا کہ دونوں کی شادی ایک دن ہی ہونا ٹھہری، ایک کے گھر سے اگر ڈھول کی تھاپ کی آواز بلند ہوتی تو ہوا کے دوش پر سوار دوسری کے گھر سے سکھیوں کے گیتوں کی آواز گلیوں میں بکھر جاتی۔ مہندی کی رات گھر کے باہر چراغ ادھر بھی جلے اور دیے ادھر بھی روشن ہوئے۔ مہندی کی رات ختم ہوئی تو بارات کا دن چڑھا۔ بارات کے دن پہاڑی کے ایک طرف راکھی اپنی نئی زندگی کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے بے تاب تھی تو دوسری طرف زینب پیا دیس جانے کی تیاریوں میں مگن تھی۔
ایک طرف مولوی صاحب نکاح پڑھانے کے لیے اسٹیج پر تشریف لا چکے تھے تو دوسری جانب پنڈت منتر پڑھنے کو تیار بیٹھے تھے۔ قہقہوں کی گونج دور دور تک سنائی دے رہی تھیں۔ بچے کھلکھلاتے دوڑ رہے تھے۔ مرد خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ بادلوں کی اوٹ سے سورج تاکا جھانکی کر کے موسم کو چار چاند لگانے میں لگا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار اور اس پر مٹی کی بھینی بھینی خوشبو کے ساتھ آسمان پر قوس قزح کے سات رنگ سرحد کے اس پار بھی اور اس پار بھی ایک جیسے دکھائی دے رہے تھے۔ ہوا کا جھونکا راکھی اور زینب کے گھر بغیر اجازت داخل ہوتے ہی ہر ایک کو گرم جوشی سے ملتا۔ کبھی ماؤں کے گال کو چھوتا تو کبھی بچوں کے چہروں کو چوم لیتا، کبھی لڑکیوں کے کانوں میں ہلکی سی سرگوشی کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹ کا رنگ بکھیر دیتا اور کبھی کسی گبرو جوان کے لمبے بالوں میں اس کی محبوبہ کی طرح انگلیاں پھیر کر آگے آگے تیز دوڑتا چلا جاتا۔ یہی ہوا زینب کے دالان میں بچوں کی کاغذ کی کشتی کو اپنے سنگ اڑا لے چلی اور سرحد کے پار راکھی کے صحن میں اسے چھوڑ دیا۔ دونوں گھروں میں دلہا دلہن ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کے وعدے کرنے کو تیار تھے۔
دلہن کی ہم جولیاں دودھ پلائی اور جوتا چھپائی جیسی رسمیں کرنے کے لیے بے تاب تھیں۔ پکوانواں کی خوشبو بھوک کو چمکا رہی تھی۔ یہ بتانا مشکل تھا کہ کس پکوان کی خوشبو کس جانب سے آ رہی تھی۔ کھانا کھلنے سے پہلے جب زینب کے گھر سے تین بار قبول ہے کی صدا آئی تو فضا خوشیوں سے گونج اٹھی۔ دوسری جانب پھیروں کے بعد راکھی سر جھکائے اپنی مانگ میں سیندور بھرنے کی چاہ میں سر جھکائے کھڑی تھی کہ اچانک ایک خوفناک گرج سنائی دی اور فضا بارود کی بو سے بھر گئی۔ پھر ایک کے بعد ایک دھماکہ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔
ادھر راکھی پہلی اور آخری بار اپنے پتی کی بانہوں میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تو دوسری جانب ایک آوارہ گولی رقص کرتی ہوئی زینب کے دل میں جا رکی تھی۔
دونوں گھروں میں پل بھر کا سناٹا ہوا اور پھر کہرام مچ گیا۔ لوگوں کے کانوں میں ابھی ڈھول کی تھاپ گونج رہی تھی۔ اسی تھاپ میں اب بین کرتی آوازیں رقص کرنے لگی تھیں۔ کس کے گھر والے زیادہ تڑپ کے چیخ و پکار کر رہے تھے، اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ دونوں کے دکھ برابر تھے پر شاید سانجھے نہ تھے۔ دونوں کی خوشیوں کا چوکھا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا۔ مائیں اپنی اپنی بیٹی کی لاش کے سامنے سوالیہ نشان بنی بیٹھی تھیں کہ کس دشمنی کے دست پر لہو تلاش کریں۔ کس گناہ کی سزا کو کھوجیں۔ کس جرم کی پاداش کو ڈھونڈیں۔ مائیں روتیں، بین کرتیں، سوال دہراتیں اور پھر سکتے میں چلی جاتیں۔ پھر کوئی انہیں جھنجوڑتا تو پھر وہی رونا، وہی بین، وہی سوال اور وہی سکتہ۔
ادھر بھائی جو بہن کی ڈولی کو کندھا دینے کو تیار تھے اب ان کے ہی جنازے اور ارتھی اٹھانے کا سوچ کر تڑپ رہے تھے۔ جس باپ نے اولاد کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا وہ ہی باپ ان کو دیکھ دیکھ کر لڑکھڑا رہے تھے۔ ہم جولیاں جن کے چہرے ان کو دیکھ کر کھل جاتے تھے، آج ان ہی کو دیکھتی تھیں تو چہرے زرد پڑ جاتے تھے۔ چھوٹے بہن بھائی جو دن رات اودھم مچانے کے بعد راکھی اور زینب کی بانہوں میں پناہ لیتے تھے وہ گھر کے ایک کونے اپنی اپنی بہن کا خون میں لت پت لاشہ دیکھ کر خوف کے عالم میں اپنے آپ کو اپنی ہی بانہوں میں سمیٹنے کی ناکام کوشش میں لگے تھے۔
دونوں جانب گھروں میں پہلے سے زیادہ بھیڑ تھی۔ لوگ جوق در جوق ان کے گھروں کی جانب بھاگے چلے آ رہے تھا۔ پہلے مبارک دینے والوں کا تانتا بندھا تھا اور پھر افسوس کرنے والوں کی بھیڑ لگی تھی۔ دونوں گھروں کی خوشیاں چند قدموں کے فاصلے سے روٹھ چکی تھیں۔
ڈھولک اب خاموش ہے لیکن غور سے کان لگا کر سنو تو کہیں ہوا میں مدھم بین اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ نیچے نیلم بہہ رہا ہے۔ یہ نیلم کی وادی بھی عجیب جگہ ہے۔ یہاں تالیوں کی گونج کا ملاپ ہوتا ہے، قہقہے ہنسی سے ملنے آتے ہیں، کھانوں کی خوشبو دریا کے آر پار گھل مل سکتی ہے۔ پھولوں پر تتلیاں ناچتی ہوئی کبھی وادی کے اس پار تو کبھی اس پار آ جا سکتی پیں۔ پرندے اڑان ادھر سے بھرتے ہیں تو اترتے ادھر ہیں۔ پر ایک لکیر کھنچی ہے۔ انسان ادھر بھی لکیر کے قیدی ہیں اور ادھر بھی لکیر کے اسیر ہیں۔ وہ بس گولیوں کی آواز سنتے ہیں۔ بارود کی بو سونگھتے ہیں۔ ان آوازوں میں ہنسی، موسیقی، سرگوشیاں سب کھو جاتی ہیں۔ اس بو میں پکوانوں کی خوشبو گم ہو جاتی ہے۔ کون پوچھے کہ کیوں، کون پوچھے کہ کب تک!
کریڈٹ: ہم سب ڈاٹ کام