مجھے یاد نہیں کہ ہم نے امتحانات کے لیے کبھی اتنی محنت کی ہو، جتنی محنت اردو کے پرچے کے لیے کی گئی تھی۔ بلکہ آپ یوں سمجھ لیں کہ ہم نے پاس ہونے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ اونچی آواز میں پڑھتے پڑھتے حلق میں کانٹے چبھنے لگتے۔ تمام پرچے ایک طرف اور اردو کی تیاری ایک طرف۔ یہ ذکر ہے2010 کے او لیولز کے امتحانات کا۔ درست سوچ رہے ہیں آپ کہ ہم نے اس عمر میں آکر او۔ لیول کے امتحانات دیے۔ یہ غلط فہمی بھی دور کیے دیتے ہیں یہ شب و روز کی محنت، یہ راتوں کے جگراتے، یہ اونچی آواز میں پڑھنا ہم اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے لخت جگر(عرصام ہراول حاشر) کے لیے کر رہے تھے۔ یقین جانیے جس لگن سے ہم محنت کر رہے تھے کوئی مائی کا لال یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس امتحان سے ہمیں نہیں گزرنا۔ ہم بات کر رہے تھے اپنے فرزند کی جس کو شروع ہی سے اردو سے خاص لگاؤ تھا۔ ان سے جب بھی اردو کی کاپی مانگی کہ ذرا ہم بھی دیکھیں کہ اسکول میں کیا گل کھلائے جا رہے ہیں تو ہمیشہ ان کا یہ بہانہ رہا کہ کاپی استاد محترم کے پاس ہے۔ جب ہمیں گھر تبدیل کرنا پڑا تو اردو کی تمام تر کاپیاں استاد محترم کے پیار بھرے نوٹس کے ساتھ پرچھتی سے برآمد ہو گئیں۔
امتحانات سر پر آتے ہی چند باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ گھر میں کرفیو کا سماں ہوتا۔ ٹی وی دیکھنے پر پابندی، بلند آواز میں بات چیت سے پرہیز، ہر تقریب سے معذرت، مہمانوں سے مودبانہ انداز میں اپنی مجبوری بیان کر کے ان کو روک دیا جاتا اور گلی محلے کے بچوں کو گھر آنے کی مناہی ہو جاتی۔
لاکھ جتن کرتے پر سب لا حاصل ہی نظر آتا۔ بچپن میں ایک استاد محترم ان کو پڑھانے آتے تھے بہت ہی پیار سے پڑھانا شروع کیا۔ ہر درست حرف لکھنے پر ہمارے سپوت بڑے پیار سے اٹھ کر انہیں ایک پپی ایک گال پر دیتے اور پھر دوسری پپی دوسرے گال پر۔ ہم سامنے بیٹھے ان پر نظر رکھتے تھے۔ ہم سے ایک دن بس یہ خطا سر زد ہوئی کہ ہم کافی بنانے کے لیے وہاں سے اٹھ گئے۔ کہ اتنی دیر میں استاد محترم کی چیخوں کی آواز سارے گھر میں گونجنے لگیں۔ ہم بھی اس کمرے کی طرف بھاگے بس کیا دیکھتے ہیں کہ اس بار میرے شریف نفس لخت جگر نے پپی دیتے ہوئے گال پر دانتوں کے گہرے نشان چھوڑ دیے تھے۔ خیر پھر یہ پیار محبت کے سلسلے سے تو استاد نے اجتناب برتا۔ لیکن جب کبھی استاد محترم کو غصہ آتا تو یہ دھمکی دی جاتی کہ عرصام آپ کو باتھ روم میں بند کر دوں گا۔ ایک دن ایسا ہی کیا۔ جب ایک منٹ کے بعد دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی تو برخوردار اندر سے دروازہ لاک کر چکے تھے اور باہر آنے کی یہ شرط عائد کی تھی کہ جب تک ٹیچر چلے نہیں جائیں گے باہر نہیں آوں گا۔ بچہ ہمارا ہمت کا پورا ہی نکلا۔ جب تک ٹیچر تشریف نہیں لے گئے، وہ باتھ روم میں ہی استراحت فرماتے رہے۔
خیر ذکر تھا او لیول کے دنوں کا۔ امتحانات کی تیاری زوروں پر تھی عرصام صاحب کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ محترم الٹے لیٹ جاتے اور ہم اونچی آواز میں پڑھتے رہتے۔ بس وہ اپنے کانوں کو زحمت دیتے اور ادھر ہمارا گلا پڑھ پڑھ کر خشک ہو جاتا۔ ایک دن ہماری بیٹی نے بھائی کی مخبری کرتے ہوئے یہ بتایا کہ“ پیاری ماں جب تم بھائی کو پڑھا کر اپنی جان ہلکان کر رہی ہوتی ہوں تو بھائی الٹا لیٹ کر ابا کے موبائل پر گیم کھیل رہا ہوتا ہے“ ہم نے تو اپنے سر کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی پیٹ ڈالا۔ خیر اس کے بعد برخوردار نے ہم پر یہ رحم کیا کہ پھر حضور سیدھا لیٹ کر توجہ سے ہماری آواز کو سنتے اور دھیان دیتے۔ چند دنوں کے بعد عرصام نے ٹھان لی کہ اب کچھ بھی ہو جائے وہ بیٹھ کر ہی اردو پڑھا کریں گے۔ ہمارے لیے بھی یہ بات باعث مسرت تھی۔ ہمارے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ بچے کے اندر علم حاصل کرنے کا شوق جاگ چکا ہے۔ ہم نے پڑھانے کا سلسلہ ذوق و شوق سے شروع کیا۔ ہم پڑھنے میں مگن تھے کہ اچانک پڑھاتے پڑھاتے عرصام کی ایک زور دار آواز آئی ”آوٹ“ اس آواز کی وجہ سے ہم نے اپنے دل کو بڑی مشکل سے کیچ کیا۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو محلے کے بچے گلی میں میچ کھیل رہے تھے اور عرصام صاحب ان کے تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ عرصام کی اپنی غلطی کی وجہ سے ان کی کھڑکی کے نظارے پر ہم نے پردہ ڈال دیا۔ ایک دن ان کو محاورے پڑھا رہے تھے تو ہم نے کہا بیٹا ذرا پرخچے اڑنا کا جملہ تو بناؤ۔ بڑی سوچ و بچار کے بعد فرمانے لگے کہ ”میرے رزلٹ کے آتے ہی امی کے پرخچے اڑ گئے“ یہ جملہ ہمارے لیے خوکش دھماکے کی مانند تھا جس کو سنتے ہی واقعی ہمارے پرخچے اڑنا بنتے تھے۔
خیر امتحانات سے کچھ روز قبل ہی ایڈکسل، کیمیرج کے دس دس سال کے تمام پرچے ماں بیٹے کو زبانی رٹ چکے تھے۔
امتحان کا دن آن پہنچا۔ پرچہ ہمیشہ کی طرح زبردست ہوا۔ یہ بات ہماری سمجھ سے ہمیشہ باہر تھی کہ جب پرچہ اچھا ہوتا ہے تو رزلٹ کیونکر برا آتا ہے۔ اب باری تھی ہماری اللہ کے حضور حاضری کی۔ اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر ہم تھک گئے تھے کہ یا اللہ پاس کروا دے۔ یہ ہی دعا شب روز زبان پر رہی۔ پھر روز رزلٹ ایا جس دن ہمارے گھر عام طور پر حشر برپا ہونا ایک معمول کی بات بن چکی تھی۔ جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا تھا۔ اس دن ہم اپنی چھوٹی صاحبزادی کو تیراکی کے لیے لے کر ہی گئے تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ ہمارے سرتاج کا فون تھا بولے ’فوراً گھر پہنچو‘ ہم سمجھ گئے کوئی گل ہی کھلایا ہے جان عزیز نے۔ دل تو کیا اس تالاب میں ڈوب کے اپنی جان اللہ کے حوالے کر دیں۔
خیرایک سو بیس کی اسپیڈ پر گاڑی دوڑاتے ہوئے گھر پہنچے۔ کمرے میں باپ بیٹا پریشانی کے عالم میں سر جھکائے بیٹھے تھے۔ دل میں جو ایک فیصد ان کے پاس ہونے کی آس تھی اس پر بھی اوس پڑ گئی تھی۔ میرے ہاتھ میں برخوردار کا اعمال نامہ پکڑا دیا گیا جس کو دیکھتے ہم چیخیں مارتے ہوئے اپنے لخت جگر سے چمٹ گئے۔ عرصام صاحب تمام مضامین میں بشمول اردو کے A لے آئے تھے۔ عرصام کے پاس ہونے کی ہمیں دوہری خوشی تھی۔ بالکل ایسا معلوم ہوا کہ ہم نے بھی او۔ لیول پاس کر لیا ہے۔ ابھی ہم جی بھر کے خوش بھی نہ ہو پائے تھے کہ عرصام صاحب نے انکشاف کیا کہ اب وہ اے لیولز میں بھی اردو ہی لیں گے۔ یہ سنتے ہی ہم پر غشی سی طاری ہو گئی۔ اوسان بحال ہوتے ہی پڑھانے کی ذمہ داری ان کے ابا کے سپرد کر کے اپنی جان کی امان چاہی۔ عرصام نے اے۔ لیول میں میں بھی اے لا کر اپنے باپ کو سرخ رو کیا۔ اب عرصام کی تعلیم ختم ہوئے تقریبا سال ہونے والا ہے جس کے مستقبل کے لیے ہم بہت فکر مند رہتے تھے۔ وہ فلم میکنگ کی تعلیم مکمل کر چکا ہے اور اپنی فیلڈ میں اپنے کام کا لوہا منوانا شروع کر دیا ہے
چند روز قبل ایک فلم فیسٹیول میں حصہ لیا جس میں دو سو چالیس بین الاقوامی مختصر فلمیں شامل تھیں۔ صرف تین کو ایوارڈ کے قابل سمجھا گیا۔ ان انعام یافتہ فلموں میں عرصام کی فلم ”گول روٹی“ بھی شامل تھی۔
دیکھے کیسے اللہ دن دکھاتا ہے اب ایک دو فلموں کے اسکرپٹ بھی خود ہی تحریر کر رہے ہیں۔ مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے جب بچے اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اس کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اپنی صاحبزادی کو بھی بہت سمجھایا کہ وہ بھی اردو پڑھ کر ملک و قوم کا نام روشن کرے۔ ان کو بتایا کہ اردو میں اے یا اے اسٹار لانا مشکل نہیں۔ بس انہوں نے ہمیں یہ ٹکا سا جواب دیا کہ ”اماں اردو میں مرزا غالب کا ہی اے اسٹار آ سکتا ہے میرا نہیں“ بس اس جملے کے بعد مجھے اسے پڑھانے کی ہمت نہ رہی۔
کریڈٹ: ہم سب ڈاٹ کام