افضل کے لیے صبح کی اذان اور ابا کی آوازالارم کا کام کرتی۔ اللہ اکبر کی آواز سنتے ہی اپنے قدم چارپائی سے نیچے رکھتا۔ اپنی چپل آدھ کھلی آنکھوں سی ٹٹولتا۔ آدھا سویا آدھا جاگا ہینڈ پمپ کی جانب بڑھتا۔ ایک ہاتھ ہینڈ پمپ پر رکھتا اور دوسرے کو بمشکل ہینڈ پمپ کے منہ تک لے جاتا۔ منہ پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہی اس کی آنکھیں مکمل طور پر کھل جاتیں۔ پھر تیزی کے ساتھ پمپ کا ہینڈل چلاتا تاکہ ابا کے لیے وضو کا پانی لوٹے میں بھر دے۔ کچھ ہی دیر کے بعد دونوں باپ بیٹا مسجد کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے۔ افضل کے باپ کرم دین عرف کرمو کو نماز پڑھنے کی جلدی ہوتی اور افضل کو اپنی دعا مانگنے کی۔ نماز کے بعد افضل ہاتھ اٹھا کر اپنے رب کے آگے روز اسکول جانے کی فرمائش رکھ دیتا۔ افضل کو پڑھنے کا جنون تھا۔ گھر کے حالات کسی طور بھی اسکول کی فیس کے متحمل نہ تھے۔ مسجد سے واپسی پر اپنے ابا کا ہاتھ تھامے اپنے ابا سے بھی معمول کے مطابق وہ یہی سوال داغ دیتا کہ وہ سکول کب جائے گا۔
باپ کے پاس جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا۔ روز اس کو یہ آس دیتا کہ پتر آج چودھری سے کچھ رقم ادھار مانگوں گا۔ کرمو افضل کے داخلے کے لیے کئی بار چودھری سے بات کر چکا تھا۔ پر ہر بار انکار کا ہی منہ دیکھا۔ ۔
روز جب گھڑی صبح کے سات بجاتی تو افضل اس مٹی کی ڈھیری کی طرف تیزی سے بھاگتا جو اسکول کے بالکل سامنے تھی۔ اس کی رفتار اس قدر تیز ہوتی جیسے اس کی کوئی گاڑی چھوٹنے والی ہے۔
گھر سے جو دوڑ لگاتا تو مٹی کی ڈھیری پر پہنچ کر ہی دم لیتا۔ اس کے ہم عمر بچے دو برس سے اسکول جا رہے تھے۔ روزانہ بچوں کو اسکول جاتے دیکھنا اس کی عادت بن چکی تھی۔ پھر مٹی کے ڈھیر سے چھوٹے پتھر چنتا۔ ایک ایک کر کے کنکریوں کو زمین پر پھینکتا۔
زمین پر پتھر مارنا بے سبب نہ تھا۔ دراصل جتنی بار اس کے دل میں اسکول جانے کی خواہش مچلتی اتنی ہی زور سے کنکر زمین پر دے مارتا۔ بچوں کے کندھوں پر لٹکے ہوئے بستوں کو دیکھتا تو اپنے کندھے کو اسی طرح جھکا کر چلنے لگتا۔ کتنے بچوں کے ساتھ اس طرح چلتا ہوا اسکول کے گیٹ تک جا پہنچتا۔ اسکول کے دروازے سے پلٹتا تو اپنے آپ سے یہ سوال کرتا کہ جانے کب اسکول کا دروازہ اس کے لیے کھلے گا؟ آدھی چھٹی کے وقت اپنے ہاتھ میں روٹی کے اوپر اچار کی پھانک لیے پھر مٹی کی ڈھیری پر کھڑا ہو جاتا۔ ادھر اسکول کے بچے اپنا کھانے کا ڈبہ کھولتے تو ادھر افضل بھی اپنی بند مٹھی کھول کر اچار روٹی کا مزا لیتا۔ اس کے بعد پھر اپنی حسرتیں اپنے دامن میں سمیٹے گھر کی راہ لیتا۔
اس دن بھی افضل گھر واپس آیا تو کرمو کو دیکھتے ہی آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنا سوال دوہرا دیا۔ کرمو کو افضل کا سوال از بر تھا اور چودھری کا جواب بھی۔ پر کیا کرتا، بیٹے کے لیے ایک بار پھر اس کے قدم چودھری کی حویلی کی طرف اٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد کرمو افضل کو لیے چودھری کے در پر سوالی بنا کھڑا تھا۔ ڈرتے ڈرتے نیچی نگاہیں کئے بہت ہی دھیمی آواز میں بولا۔ سرکار یہ میرا پتر افضل ہے۔ اس کو پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ابھی بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی چودھری اپنی چودھراہٹ دکھاتے ہوئے بولا “پتہ ہے پتہ ہے۔ ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ چار جماعتیں پڑھ کر اس نے کون سے تیر چلا لینا ہے۔ نام افضل رکھ لینے سے کوئی افضل نہیں ہو جاتا۔ رہنا تو تم لوگوں نے کمی کمین ہی ہے۔ چاٹنے تو ہمارے جوتے ہی ہیں۔ آج تو ہمارا نوکر ہے کل تیری اولاد نے میرے بچوں کی چاکری کرنی ہے۔ میں تو کرمو تجھے یہ ہی مشورہ دوں گا کہ تو کل کا انتظار کیوں کرتا ہے آج ہی اس کو حویلی میں کسی کام پر رکھوا دے۔ کوئی کام شام کرے گا چار پیسے ہی مل جائیں گے”
افضل یہ باتیں سنتے ہی اپنے باپ کے پیچھے چھپ گیا۔ چودھری کے یہ جملے کرمو کے دماغ میں ہتھوڑے بن کر لگ رہے تھے۔ کرمو “جی جو حکم سرکار” کے علاوہ کچھ کہنے کی ہمت نہ جتا پایا تھا۔ واپسی پر کرمو نے افضل کو سمجھایا کہ پتر اب تو اسکول جانے کا خواب نہ دیکھا کر۔ ہمارے پاس اسکول کی فیس دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ میں کھیتوں میں ہل چلاتا ہوں۔ دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ سوہنا رب اگر کوئی معجزہ ہی کرے تو تیری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے۔
افضل کو معجزے کا مطلب نہیں آتا تھا اس لیے پوچھ بیٹھا “ابا یہ کیا ہوتا ہے۔ ”
کرمو نے آسمان کی طرف دیکھا اور گہری سانس لے کر بولا “بس پتر یہ سمجھ لے کہ جب ہر طرف سے امید ختم ہو جاتی ہے تو رب سوہنا ہم جیسوں کی مدد کر دیتا ہے۔ ”
افضل کے لیے یہ خبر ایک نئی امید تھی ” ٹھیک ہے ابا کل سے میں اللہ سے پھر اس ہی موج موج جی زے (معجزے)کی دعا کروں گا۔ ”
اب افضل نماز کے بعد اس معجزے کے لیے دعائیں کرنے لگا جو اس کی آخری امید تھی۔ پھر ایک دن گاؤں میں ڈھیر ساری سرکاری گاڑیاں سائرن بجاتی شامو کے گھر جا رکیں۔ افضل سمیت گاؤں کے سارے بچے گاڑیوں کی طرف لپکے۔ شامو کے گھر ایک بڑے صاحب داخل ہوئے۔ چند روز قبل شامو کا ہاتھ چودھری کی گھاس کاٹنے کی مشین میں آ کر کٹ گیا تھا۔ بڑے صاحب نے شامو کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کو دس لاکھ کا چیک دیا۔ اور اس کی پڑھائی کا تمام خرچہ دینے کا وعدہ کیا۔ افضل بھی گاوں کے سب بچوں کے ساتھ کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ افضل اپنے گھر کی جانب بجلی کی رفتار سے دوڑا۔ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا گھر سے باہر لے آیا۔
“افضل پتر تو کدھر لے کر جا رہا ہے”
“ابا تو نے کہا تھا کہ کوئی موج،موج جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
“ہاں پتر، معجزہ ہی ہوگا تو تو پڑھ سکے گا۔ ” ابا نے لمبی آہ بھری اور کہا۔
“تو پھر یہ موج موج ہونے والا ہے۔ ”
کرمو کو کچھ سمجھ نہ آیا اور اسی دوران افصل تیزی سے اپنی باپ کو کھیتوں سے گھسیٹتا ہوا چودھری کی حویلی تک لے آیا۔
کرمو حویلی کو دیکھتے ہی بولا “اوئے جھلیا اب یہاں کیا لینے آیا ہے”
“نہ ابا نہ میں کچھ لینے نہیں دینے آیا ہوں”
کرمو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ “کیا دینے آیا ہے پتر”
افضل کرمو کو کھینچنے ہوئے چودھری کی گھاس کاٹنے کی مشین کے سامنے لے آیا۔ اور بولا “اپنا ہاتھ۔ ”
کرمو کو ابھی بھی کچھ سمجھ نہ آیا پر افضل بولتا گیا۔
”ابا تو میرا ہاتھ اس مشین سے کاٹ دے۔ اس کے بعد شامو کی طرح ہمارے گھر بھی بڑا صاحب آئے گا۔ میری اسکول کی فیس دے گا اورمیری پڑھائی کا سارا خرچہ اٹھائے گا۔ پھر ابا میں اسکول جا سکوں گا۔ ابا پھر وہ موج موج ہو جائے گا۔ ہے نا“
کریڈٹ: ہم سب ڈاٹ کام