میں اس موضوع پر جانے کتنے برس سے لکھنا چاہتا ہوں مگر لکھنا میرے لیے آسان نہیں۔ مجھے معلوم ہے میں آج بھی انصاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس کی وجہ شاید ہمارے ابا اور ابا کے حالات رہے ہیں جن کی شخصیت کو بیان کیے بغیر اماں کو بیان کرنا ذرا مشکل ہے۔ ابا کو بیان کرنا میرے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے بھی مشکل ہے کہ ابا کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہ بہت عجیب رہے۔ ایک بچہ اگر بچپن میں یتیم ہو کر باپ کے لاڈلے سے ماں کے دھتکارے کی شکل اختیار کر لے تو اسے جج کرنے کی مجھ میں ہمت بہرحال نہیں ہوتی۔
آج مینٹل ہیلتھ اور ٹراماز کو لے کر حساسیت کافی حد تک اجاگر ہوچکی ہے۔ ہمارے بچپن لڑکپن میں کئی عظمتوں کے خبط کے زیراثر ان اصطلاحات کا اس طرح وجود ہی نہ تھا جیسے آج ہے۔ ابا مرحوم کو لے کر اس زاویے کی وضاحت ہی وہ عذاب ماضی ہے جو اس ضمن میں بات کرتے میرے سر پر مسلط رہتا ہے۔ پھر بھی، اماں کی عظمت بیان کرنا ایک قرض ہے جو شاید ہی میں کبھی چکا سکوں۔ میرے پاس اس کا واحد طریقہ ایک ایسا انسان بننا ہے جس پر ماں کو فخر ہو سکے۔ کوئی اور راستہ میری نظر میں وجود نہیں رکھتا۔
میری اماں کی بہت ہی چھوٹی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ بیاہ کے بعد انہیں رخصت بھی اتنا دور کیا گیا کہ مجھے آج بھی یہ فیصلہ کرنے والے مجرم دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال حیات انسانوں کے پاس ایسے فیصلوں کی اپنی توجیہات ہوتی ہیں جس پر میں بائنری نقطہ نظر سے تنقید کے حق میں نہیں۔ میری اماں بہت ہی چھوٹی عمر میں کراچی سے پشاور رخصت کر دی گئیں تھیں۔ ننھیال اور ددھیال کے ماحول میں زمین و آسمان کا جو فرق تب تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ ددھیال کا ماحول دیکھ کر میں جب سوچتا ہوں کہ اماں نے شروع میں کیسے گزارا کیا ہوگا تو بخدا میری روح کانپ جاتی ہے۔
لیکن سلام ہے میری اماں کو کہ زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی اور الگ ماحول کے باوجود بھی اپنی شخصیت نہ بدلی۔ ان کا بچپن جیسے بیان کیا جاتا ہے وہ آج بھی وہی ہیں۔ ویسے تو سبھی کی مائیں محبت کرنے والی ہوتی ہیں مگر اماں ہمیں ابا کی جلالی طبیعت سے ساری زندگی بچاتی آئیں اس کے باوجود کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ یہ ان کا ہم پر احسان ہے۔ اماں شاید کبھی ہم پر چیخیں نہیں چلائیں نہیں۔ بیک وقت ہم سے بھی امیدیں باندھ کر رکھیں اور ابا سے بھی۔ انسان لیکن شاید کبھی کسی کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکتا یہ بات اب سمجھ آتی ہے۔
میں نے اماں کو ابا سے کبھی کسی بڑی خواہش کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ سال میں اپنے ماں باپ کے پاس ایک بار کراچی جایا جاسکتا تھا، اس کے لیے بھی اماں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ جس سال ابا لے گئے تو لے گئے، نہیں لے جا سکے تو ماتھے پر شکن کوئی نہیں۔ سسرال کے ساتھ جنگ و جدل ویسے بھی ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے، اوپر سے چند عظیم رشتہ دار، تو کوئی کوئی سال ایسا بھی رہا کہ کراچی جا کر ایک ہی شہر میں ہو کر بھی اپنے والدین سے ملاقات نہ ہونے کے برابر ہو پائی۔ میں نے اپنی ماں کو اس بات کا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔
میرے والد کی پہلی اوپن ہارٹ سرجری شاید 1991 میں ہوئی۔ دوسری اوپن ہارٹ سرجری 1999 میں ہوئی۔ پہلی سرجری والے دن سے لے کر ابا کی وفات تک ہم نے اماں کو ابا کا خیال کرتے دیکھا اور خیال بھی ایسے کہ کبھی ماتھے پر شکن نہ آئی۔ ابا کے ساتھ کارڈز بھی کھیلتی رہیں اور ان کے ساتھ آفس کا کام بھی کرتی رہیں ہیں۔
اماں نیچرلی ہنس مکھ ہیں۔ بائے ڈیفالٹ مسکراتا چہرا، جو کسی کسی کا ہوتا ہے۔ انا کے مسائل سے پاک، دلیل کو سن کر سمجھنے والی خاتون۔ کسی پر غصہ آئے تو خاموش ہو جانے والی شخصیت۔ ہمیں کھل کر بتا دیں گی مگر اگلے کے ساتھ لحاظ میں ایک لفظ بھی بولنے سے گریز کرنے والی شخصیت۔ طنز بھی مارنا ہو تو مسکراتے ہوئے، وہ بھی کسی کسی کے ساتھ۔ ویسے کوئی ہم ماں بیٹوں کی بلکہ جب ہم بہن بھائی اکٹھے ہوں تب کی گفتگو سن لے تو شاید ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے۔ ہمارے گھر میں وہ reserve رہنے والا کوئی سین ہی نہیں۔ نہ ابا کے ساتھ تھا نہ اماں کے ساتھ۔ ابا کے ساتھ شاید اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ جلدی چلے گئے، یا ہمارے کچھ بننے سے پہلے چلے گئے۔
میں ٹھیک ٹھاک پتھر دل ہوچکا ہوں لیکن اس کے باوجود پاکستان کو مس اگر کبھی کیا ہے تو اماں سمیت نہایت مختصر گنے چنے قریب ترین گھر والوں اور شاید ایک دو دوستوں کی وجہ سے۔ اگلے برس تک اماں کو تو انشاءاللہ بلا ہی لینا ہے یہاں۔
اماں کی حلیم اور بردبار طبیعت پر کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن شاید میں کبھی انصاف کر ہی نہ سکوں۔ بہرحال زندگی میں بچوں سے پہلے جتنی اچھی یادیں ہیں ان کا پیشتر حصہ اماں ہی سے وابستہ ہے۔ اس کے باوجود یہ احساس بہت سی وجوہات کی بنا پر ہمیشہ رہتا ہے کہ اماں سے انصاف نہیں کر پایا۔
شاید ایک دن کر پاؤں۔۔