1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بحوالہ سوشل میڈیا اور نفرت

بحوالہ سوشل میڈیا اور نفرت

سوشل میڈیا پچھلی دو دہائیوں میں ہماری زندگی میں اچھا خاصہ سرایت کر چکا ہے۔ ہم دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں، دکھوں سے افسردہ ہوجاتے ہیں۔ صبح کوئی اچھی سی پوسٹ دیکھ کر ہمارا دن بن سکتا ہے اور کوئی منفی بات پڑھ کر یا دیکھ کر ہمارا دن غارت بھی ہو سکتا ہے۔ آپ جتنا چاہیں انکار کر لیں، وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں ان کی زندگی پر اس کا اثر بہرحال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ لوگوں کو پڑھ کر، دیکھ کر، سن کر اثر بھی لیتے ہیں۔ اپنی ذات کی حد تک پچھلے تین چار برس میں نے کئی احباب سے بہت کچھ اچھا سیکھا۔ یہ بات میں وقتاً فوقتاً پبلکلی بھی کہتا رہا اور نجی روابط میں بھی۔ لوگوں کے لیے سوشل میڈیا سے لیے جانے والا یہ اثر مثبت ہوتا ہے یا منفی یہ انسان کی شخصیت، عادات و اطوار پر منحصر ہے۔

مجھے پچھلے دس برس کے دوران ایک بہت اہم بات یہ بھی سمجھ آئی کہ کسی سے نفرت نہیں کرنی۔ نفرت آپ کی زندگی کو کھا جاتی ہے۔ یہ آپ کے ارد گرد موجود رنگ پھیکے کرکے آپ کی زندگی ایک ایسے بلیک اینڈ وائٹ کی جانب لے چلتی ہے جہاں یا تو نفرت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ آپ کو زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خوشی کو محسوس کرکے اس لمحے میں خوشی خوشی جینا ہوتا ہے۔ تب، ارد گرد تقریباً سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔

خوشی کا ایک ایسا ہی لمحہ تھا ہماری شادی کی سولہویں سالگرہ۔ اس موقع پر میں نے اپنی نصف سے زیادہ بہتر کو خراج تحسین پیش کرتے چند ایسے لمحے یاد کیے جو ہمارے لیے مشکل تھے مگر اگلی نے اس دوران اف تک نہ کی۔ میں اس پر اہلیہ کا شکرگزار تھا اور بعینہ یہی جذبات لکھ ڈالے۔ اس دوران ایک پروفائل سے ایک ایسا کمنٹ آیا جو مجھے چبھ گیا۔ عام حالات میں شاید اتنا نہ چبھتا جتنا اس وقت چبھا کیونکہ وہ میرا happy moment تھا اور اس وقت رنگ میں کسی قسم کا بھنگ مجھے بہت کھلنا تھا۔ میں نے اس کا جواب دیا۔ ایسے الفاظ میں دیا جو بعد ازاں مجھے احساس ہوا کہ غیرضروری تھا۔ گالیوں پر میری اپنی ایک سوچ ہے ایک رائے ہے جو بلیک اینڈ وائٹ میں بیان نہیں ہو سکتی تاہم میں گالیوں کی ایک قسم کو ناصرف جائز بلکہ معاشرے کے لیے لازم سمجھتا ہوں۔ یہ بحث پھر کسی دن کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

خیر یہاں سے میں نے مذکورہ بالا پروفائل، "پاکستانی موم ان امریکہ" کو بلاک کر دیا کیونکہ میرے خیال سے بات بڑھانے کی بجائے بلاک کرکے آگے چل پڑنا بہتر رہتا ہے۔ اس کے بعد ایک عدد پوسٹ بھی داغی جس کا لب لباب یہ تھا کہ کسی کی خوشی میں منفی بات کرنا نامناسب رہتا ہے۔ کسی وجہ سے شاید میں اپنی بات واضح نہ کر سکا یا مذکورہ بالا پاکستانی والدہ فی امریکہ یہ بات سمجھ نہ سکیں۔ مجھے بہرحال یہ بات اپنی سی وی میں بطور غلطی لکھنے پر کوئی عار نہیں۔

یہاں سے شروع ہوا منفیت کا ایک ایسا سلسلہ جسے یہیں تھم جانا چاہئے تھا، جو بدقسمتی سے رکنے کی بجائے آگے ہی آگے چلتا رہا۔ اس کی لپیٹ میں میری فیملی بھی آئی جو نہیں آنی چاہیے تھی جس پر تب شاید نہ ہو اب ہمارا اتفاقِ کامل ہے۔ یہ معاملہ چند روز چلتا رہا اور پھر خود سے تھم گیا۔ کیسے تھما، وہ ان سکرین شاٹس سے واضح ہے۔

پچھلی بار میرے بچوں کو غالباً 2016 میں کسی سوشل میڈیا کے معاملے پر گھسیٹا گیا تھا۔ میرے ساتھ انعام بھائی کی والدہ پر بھی اچھا خاصہ گند اچھالا گیا تھا۔ میں نے تب بھی وہی کیا جو اس بار کیا۔ جب معاملہ تھم گیا تو میں نے براہ راست فریق ثانی سے رابطہ کیا کہ مجھے مبینہ نفرت کی اس عکاسی کی وجہ بتائی جائے تاکہ میں کوشش کر سکوں کہ آئیندہ گالیاں وغیرہ تو کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ کسی سے مجھے نفرت نہ ہو، مجھ سے کسی کو نفرت نہ ہو۔ میرا خیال ہے براہ راست بات کرنا زیادہ تر پھڈوں میں بہتر رہتا ہے۔ شاید کچھ ہم سمجھا پاتے ہیں، کچھ اگلا سمجھا دیتا ہے۔

قصہ مختصر، جب میں نے دوسری جانب سے پوسٹس غائب دیکھیں تو چند قریبی احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد براہ راست مذکورہ بالا فیس بک پروفائل سے رابطہ کیا اور کہا کہ اب جب آپ پوسٹس ہٹا چکے ہیں تو میرا خیال ہے ہمیں بات کرنی چاہیے کیونکہ مجھے آپ کی جانب سے لڑائی سے ایک قدم آگے جا کر نفرت کا شائبہ ہوا ہے۔ پاکستانی موم ان امریکہ نے جو جواب دیا اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کم از کم انسانوں میں ابھی درست اور غلط کا احساس ابھی باقی ہے، پھر بیشک یہ خیال بعد ہی میں کیوں نہ آئے۔

پوسٹ میں ہماری انباکس چیٹ کا کچھ حصہ اور ایک پبلک کمنٹ پاکستانی والدہ محترمہ فی امریکہ کی اجازت شئیر کیا جا رہا ہے۔ اس قدر کھلے دل سے اپنی انا کو ایک جانب رکھ کر غلطی تسلیم کرنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اس دوران میری کسی بات سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو میں کھلے دل سے معافی کا طلب گار ہوں۔

اس سارے قصے سے آپ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں، یہ آپ کے اوپر ہے۔

وما علینا الا البلاغ