زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں انجوائے کرنی چاہیے ہیں۔ چھوٹی خوشیوں تک رسائی نسبتاً آسان اور اختیار میں رہتی ہے جبکہ ان کا تواتر کے ساتھ ملتے رہنا انسان کو عام طور پر پرسکون رکھتا ہے۔ بڑی خوشیوں کا نہ ملنا زندگی میں اتنی ہی بڑی مایوسی کو متعارف کرواتا ہے۔ دیکھیے سادہ سی بات ہے، بڑی مایوسی سے چھوٹی مایوسی بہتر ہے۔ نیز کئی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بار بار ملنے کے امکان بھی زیادہ رہتے ہیں ایک بڑی خوشی کی نسبت۔ کہنے کا مقصد ہے اپنی زندگی میں بڑے اہداف بیشک سیٹ کر لیں مگر دن بھر، ہفتے بھر اور مہینے بھر کے اہداف الگ سے ضرور موجود ہونے چاہیے ہیں۔
مجھے کافی بہت پسند ہے۔ 2018 کے آس پاس میں نے اچانک چائے چھوڑ دی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اچانک چائے سے ترک تعلقات کرنے والے پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے تاہم چائے چھوڑ کر کافی پر منتقل ہوجانے والے سے ماہرین کے مطابق فوری طور پر نکاح کر لینا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب مگر ہاں میں نے یہ ضرور نوٹ کیا کہ چائے کی نسبت کافی بنانا آرٹ کا نسبتا وسیع تر کینوس ہے۔ چائے کی نسبت کافی بنانا کہیں زیادہ therapeutic عمل ہے۔ مثلاً میں صبح صبح خود اپنے ہاتھ سے کافی بنانے کو انجوائے کرتا ہوں۔ یہ عمل مجھے پرسکون رکھتا ہے، ایک چھوٹی سی خوشی سے سرشار کرتا ہے جس کا اثر گھنٹے سے دو گھنٹے تک رہ سکتا ہے۔ آپ اس خوشی کو لمبا بھی کھینچ سکتے ہیں تاہم اس کے لیے ایک اچھا سا کافی مگ درکار ہوگا جو کافی کو لمبے دورانیے تک گرم رکھ سکے۔ ایسے مگ خریدنا اور ان کی کلیکشن بنانا ایک اور ایسا عمل ہے جس سے آپ چھوٹی سی خوشی کشید کر سکتے ہیں۔
اسی طرح میں سال 2018 سے انٹرمٹنٹ فاسٹنگ پر ہوں۔ دن میں ایک بار کھانا اور رج کر کھانا میری روزانہ کی موٹیویشن ہوتی ہے۔ دن بھر اس امید کے ساتھ دل سے اپنا کر کام کرتا ہوں کہ رات کو دل سے ٹھونسوں گا۔ اس دوران کھانے کے بارے میں بات کرنا، اس کے بارے میں سوچنا بھی ایک الگ ہی چھوٹی سی خوشی محسوس کرنے کا باعث بنتا ہے۔
میں ہفتے میں کم از کم ایک بار خود کھانا بناتا ہوں۔ یہ میری ہفتہ وار موٹیویشن ہوتی ہے۔ یہ ڈش عمومی کھانوں سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ مثلاً میں چپلی کباب بنا لیتا ہوں، دم پخت بنا لیتا ہوں، پائے بنا لیتا ہوں، کئی طرح کے مغز بنا لیتا ہوں، مندی بنا لیتا ہوں، ارائیس بنا لیتا ہوں ورق عنب بنا لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو میں پکاتا رہتا ہوں۔ کوئی بھی پکوان بنانے کے لیے ہم خصوصی چکر لگاتے ہیں باہر کا۔ اس کے پیچھے منطق یہی ہوتی ہے کہ کھانا بنانے اور اسے کھانے کے تمام عمل کو جس میں اجزاء کی خریداری بھی شامل ہے، مکمل اہتمام ہے ساتھ محسوس کیا جائے اور اس سے خوشی کشید کی جائے۔ یقین کیجیے یہ بھی نہایت پرسکون ایکٹوٹی ہے۔
ہفتہ وار موٹیویشن میں ایک موٹیویشن ویک اینڈ بھی ہے۔ ویک اینڈ پر میں آفس کے کام کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ ایسا البتہ کچھ برس سے شروع ہوا ہے ورنہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ویک اینڈ کی دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے کم از کم ایک دن ورنہ زیادہ تر دونوں ہی دن فیملی کے ساتھ باہر کا ہوتا ہے۔ فیملی کے ساتھ وقت وہی اچھا گزار سکتا ہے جسے اپنی فیملی کے تقدس کا اندازہ ہو اور اپنی فیملی کے تقدس کا اندازہ صرف اسے ہوتا ہے جسے دوسروں کی فیملی کی تعظیم معلوم ہو۔ آپ کچھ بھی کریں، ویک اینڈ پر فیملی کے ساتھ وقت بتائیں تو آپ بہت انجوائے کریں گے، اندر سے خوشی محسوس کریں گے۔ ویک اینڈ پر عموماََکوئی نہ کوئی فلم یا سیزن بھی لازمی دیکھ لیتا ہوں۔ یہ میرے me time کا حصہ رہتا ہے۔
ماہانہ موٹیویشن کا سب سے بڑا حصہ ظاہر ہے تنخواہ شریف سے جڑا ہے۔ اس پر تفصیل پھر کبھی۔
یہ سب چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں۔ ان سے ملنے والی راحت بس ملتی ہی رہتی ہے۔ اس کی نسبت سالانہ اور پنج سالہ اہداف الگ ہوتے ہیں۔ کبھی پورے ہوجاتے ہیں کبھی نہیں ہوتے۔ نہ ہوں تو اتنے غیر حقیقی ہوتے ہی نہیں کہ پورے نہ ہونے پر افسردگی چھا جائے۔ ہو جائیں تو اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ دنیا بدل جائے۔ دنیا جب بھی بدلی غیر متوقع طریقے سے بدلی۔
مذکورہ بالا چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بیچ اچانک اللہ پاک کبھی کبھار ایک خاص قسم کی ذرا بڑی سی خوشی غیر متوقع طور پر بھیج دیا کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا لینڈی سوچ والا لوسی انسان مجھ اڑتے تیر کے سامنے خود اپنی فردوس عاشق اعوان پیش کر دیا کرتا ہے۔
یقین کیجیے، غیر متوقع چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ایسی خوشی نہایت خوشگوار رہتی ہے۔ پھر بیشک اگلا بندہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بازو ملتا رہے کہ انجیکشن یہاں لگا تھا۔ دل اگلے کا اتنا جلتا ہے اتنا جلتا ہے کہ مت پوچھیے۔ ایسے لوگ اوپر والے کی جانب سے احسان ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے چھوٹی موٹی خداداد صلاحیتیں زنگ سے بھی بچی رہتی ہیں، مجھ سمیت پڑھنے والوں کے لبوں پر تبسم بھی قائم رہتا ہے اور آپ مانیں یا نہ مانیں، معاشرتی خرافات پر ایک مناسب (یا نامناسب) طنز بھی تخلیق ہوجاتا ہے۔
خوشی کے بیرونی سورسز بہت ہو سکتے ہیں مگر جو خوشی اندر سے آتی ہے اس کا متوازی کچھ نہیں۔ نفرت ایک منفی جذبہ ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔ پھر وہ نفرت کسی سیاست دان سے ہو، نظریے سے یا کسی اور چیز سے۔ برہنہ ترین گالیاں بھی فریق ثانی کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر فریق ثانی آپ سے نفرت کرتے ہوئے گالی دے رہا ہو تو اس سے بھی کوئی کمال قسم کی خوشی کشید کی جا سکتی ہے۔
خوش رہیں، حاسدین کو مزید جلاتے رہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر ارتکاز رکھیے۔ آپ کو بھی میری طرح زندگی خوبصورت لگنے لگے گی۔