1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. حسِ جمالیات اور برزخ

حسِ جمالیات اور برزخ

دین اسلام کی تشریح کے دعوے دار قبیل کی اکثریت کے یہاں جمالیات پر غالباً اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس طرح جدید دنیا میں توجہ دینے کا تصور ہے۔ اس لحاظ سے دین اسلام کی کئی تشریحات پر سوال اٹھتے ہیں۔ اس کا جواب مذکورہ بالا قبول سوال کا جواب دینے کی بجائے سوال اٹھانے کو مردود قرار دے کر دیتا ہے۔ جمالیات ان اوصاف میں سے ایک ہے جو سائینسی اعتبار سے انسان اور جانور میں تفریق کا مؤجب رہتا ہے۔ بندر اور اونٹ عمل سے صنف مخالف کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمالیات صنف نازک کو اپنی طرف راغب کرنے کا میڈیم ہی نہیں۔ جمالیات جنس سے مبرا ہو کر طبیعت میں خوشحالی کی وجہ بنتی ہے۔ فلم و ڈرامے پر مبنی جدید جمالیات جدیدیت کا وصف ہے، ادیان کی تشریح کرنے والے قبیل کے غالب حصے کے نزدیک میری محدود معلومات کے مطابق جمالیات کی یہ صورت شاذ ہی کہیں مقبول پائی جاتی ہو۔ ہوتی بھی ہو تو مخصوص پیرائے میں محدود رہتی ہے وہ بھی کم از کم دین اسلام کو لے کر وقت کی لکیر پر پیغمبر کے بہت بعد حمد و نعت و مرثیہ و نوحہ وغیرہ کی صورت میں کہیں ہائی لائٹ ہوتی ہے۔

سیریز برزخ کے رائٹر نے فیس ویلیو کی بنیاد پر ڈرامہ سیریل حسِ جمالیات کو اولین رکھ کر بنایا۔ اس میں پیغام ہو بھی سکتا ہے نہیں بھی ہو سکتا کہ پیغام دیکھنے سننے پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے۔ جمالیات کا کوئی بھی مظہر بہرحال معاشرے سے کٹ کر نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ فام معاشرے میں حسن کا معیار جو بھی ہو رہے گا سیاہ فام ہی۔ وجہ یہ کہ اس معاشرے میں سیاہ فام ہونا ایک نارم ہے۔ آپ مانتے ہیں کہ ہم جنس پرستی معاشرے میں کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ اب حس جمالیات کو تسکین پہنچانا اگر مقصدِ اولین ہو تو وہ کسی بھی طریق سے ممکن ہے بشمول ہر ممکنہ معاشرتی افعال کے۔ اس میں ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔

آپ ہم جنس پرستی کو بیماری مان لیجئے، ڈرامے کے تخلیق کار کے پاس آپ سے اختلاف کی اول تو گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کے خلاف اگر آپ صریحاً کوئی رائے دینا چاہیں تو الگ بات ہے بصورت دیگر اس گنجائش کا حق دیتے ہوئے تخلیق کار کو اس کا ذکر کرنے دینا کوئی ایسی برائی نہیں کہ یہ عمل بطور برائی ہی مان لیجئے معاشرے میں وجود رکھتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی افسانے یا ڈرامے میں چوری کا عمل دکھایا جائے اور مجاہدین شور برپا کر ڈالیں کہ اس عمل کو دکھانے کی بجائے اس کے اسباب پر بات ہو۔ بھیا اگر چوری نبی کریمؑ کے دور میں ہوتی رہی تو اس دور میں کیونکر ختم ہوسکے گی؟

قصہ مختصر، یہ اصرار کہ عمل کو دکھانے یا اس کے ذکر کی بجائے اس کے اسباب و سد باب پر بات ہونی چاہیے، اس دلیل کی بنیاد پر لغو مطالبہ ہے کہ اوّل تو اس عمل کا ذکر کسی پیغام کی بجائے بطور جمالیاتی کاوش کے دیا گیا ہے جو کسی بھی پیغام سے اپنی اصل میں عاری رہتا ہے۔ دوم، جب آپ نے اس "بیماری" کو حقیقت کا درجہ مان لیا جو کہ ماننا بھی چاہئے تو پھر اس کے ذکر پر شور مچانا اتنا ہی مردود ہے جتنا چوری زنا یا جھوٹ کے ذکر پر شور مچانا۔

مجاہدین ایک ایسی چیز کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو نہ پہلے کبھی رکی نہ آئیندہ رہے گی۔ برائی اگر روکنا مقصود ہوتی تو خدا اسے خود روک دیتا۔ وہ اس پر قادر ہے۔ امتحان بندے کا ہے، اسے دینے دیجئے۔ ہمیں خدا بن کر برائی کے وجود پر کو روکنے پر قادر نہیں بننا چاہیے الا یہ کہ جسے روکا جا رہا ہو وہ بلوغت سے نیچے ہو۔

مجھے یقین ہے کہ شور مچانے والے احباب نے مذکورہ بالا ڈرامہ نہیں دیکھا، یا اگر دیکھا ہے تو شاید تین سو ساٹھ درجہ زاویے کی سوچ سے نہیں دیکھا۔ کیونکہ مذکورہ بالا ڈرامے میں ہم جنس پرستی کی جانب طبیعت دکھائی گئی ہے اور ساتھ ہی اسے رد کرنے کی علامات بھی دکھائی گئی ہیں۔ رد کیوں کیا گیا اس کا فیصلہ کرنا دیکھنے والے کی صوابدید پر ہے۔ میرا مدعا البتہ یہ ہے ہی نہیں کہ کسی عمل کو دکھانا بامقصد ہے یا بے مقصد۔

حسِ جمالیات کا مقصد طبیعت کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ منفی یا مثبت، اس سے قطع نظر۔ ٹریجڈی فقط ٹریجڈی ہوتی ہے۔ ٹریجڈی جمالیات کی ایک صورت ہے۔ اسے مذہب سے جوڑنا یا اسے مذہب کی مرہون منت سمجھنا بذات خود ایک مغالطہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم مذہب کو انسانی جذبات سے اوپر مانتے ہیں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ انسانی جذبات مذہب کے تابع ہونا ہی اصل امتحان ہے اور یہ امتحان کامل طریق سے پاس کیا ہی نہیں جا سکتا۔

شاید اسی لیے رب نے ہر قسم کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔

ایک بات اور۔۔ مذہب کو ایک جانب رکھ دیا جائے تو پھر معاشرے میں مروجہ قانون کو چھوڑ کر کوئی قدغن بچتی کہاں ہے۔ مزید یہ کہ کوئی بھی کہانی بیشک پھر ہم جنس پرستی کے موضوع پر ہی کیوں نہ ہو دیگر معاشرتی معاملات کا احاطہ کیے بغیر کامیاب ہی بھی نہیں سکتی۔

ڈرامہ دیکھئے۔ اس سے پہلے dune بھی دیکھیے۔ تخیلاتی مذہب دکھایا جانا تخیلاتی معاشرہ دکھایا جانا کوئی عجب بات نہیں۔ کہانی، کہانی نویس کو لامتناہی سپیس دیتی ہے۔ اس میں رہتے ہوئے تخلیق کرنا بڑا ہی لطیف عمل ہے۔ درجن بھر کرداروں کے بیچ ایک ہم جنس پرست پچھلے پانچ ہزار ڈراموں میں سے ایک میں نکل آئے تو اس پر شور مچانا عجیب ہی ہے۔

یہ میری رائے ہے جسے دیوار پر مارے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے بھی ڈرامہ نہ دیکھنے پر اصرار کرنے والوں کے لیے پیار بھرا پیغام پہلے کمنٹ میں موجود ہے۔