ایسٹ میلبرن، جہاں میں بوجہ اپنی سستی، علاقے کی خوبصورتی اور دیسیوں کے نسبتا کم ہونے کے باعث مقیم ہوں، میں میرے suburb سے چند ہی کلومیٹر پر ایک اور سب ارب واقع ہے جس کا نام Doncaster ہے۔ ڈونکاسٹر ایک ملٹی کلچرل علاقہ ہے جہاں میرے مشاہدے کے مطابق ایرانی پچھلے ساڑھے تین برس میں کاروباری طور پر اچھے خاصے بڑھ گئے ہیں۔ کسی ایران نواز بھائی کی دُم پر پیر آئے تو میرا گھنٹہ معذرت کرتا ہے تاہم یہاں اپنی طرف والے ایرانی زیادہ تر آزاد خیال، جدید اور ان دونوں کے باوجود اپنی ثقافت سے کافی جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پیارے بھی بہت ہیں سو مجھے اچھا لگتا ہے ان سے interact کرنا۔ ڈونکاسٹر میں نوروز کے موقع پر آپ کو مے خانے میں بھی سیل نظر آئے گی اور گوشت کی دوکان پر چھوٹے چھوٹے گھاس کے گملے رنگ برنگی انڈے وغیرہ بھی دکھائی دیں گے۔ محرم، یوم علی وغیرہ جیسے "اہم" مواقع پر یہاں کوئی پتہ نہیں چلتا۔
پچھلے تین برس کے دوران یہاں دو عدد نئی سگریٹ شاپس کھلی ہیں، ذبیحہ گوشت کی ایک دوکان پہلے سے موجود تھی، ایک نئی کھلی ہے جس میں جدید تندور سے نسبتاً تازہ روٹی بھی مل جاتی ہے اور دیگر گروسری کا سامان بھی۔ اس کے علاوہ دو تین ایرانی گروسری سٹور بھی کھلے ہیں۔
میرے اندر موجود تھرک کا پچیانوے فیصد حصہ فقط خوراک کے لیے مختص ہے۔ اسی لیے جس دن meat shop یا sea food shop پر چلا جاؤں بچے مجھے باقاعدہ کھینچ کر دور لے جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ میں الحمد للہ گھنٹہ بھر بھی خوبصورت غیر انسانی گلابی و غیر گلابی گوشت متواتر دیکھنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔
کوئی دو ہفتے قبل گوشت کی اسی دوکان میں جانا ہوا۔ کافی دیر ٹھرک جھاڑنے کے بعد مجھے فریج میں ایک box رکھا نظر آیا۔ میٹ شاپ پر موجود بندے سے پوچھا یہ کیا ہے تو اس نے کوئی پٹھا سا جواب دیا۔ کچھ استفسار کے بعد یقین دہانی ہوئی کہ بھیا کھانے کی شے ہے اور ہے بھی گوشت سے متعلقہ۔ پانچ سو ملی لیٹر کا پلاسٹک کنٹینر ہوگا، اٹھائیس ڈالر کا۔ میں اٹھا کر لے آیا۔
گھر لا کر جو گرم کیا تو استاد اندر سے نکلے میرے پسندیدہ لوازمات، یعنی ایک عدد سیدھا سیدھا سالم مغز، پائے کا کچھ حصہ اور دو عدد ثابت زبانیں، تمام سپئیر پارٹس بھیڑ کے (یا ممکن ہے بکرے کے ہوں مگر بھڑ کے امکان زیادہ ہیں)۔ اچھا گرم کرکے جو ہم نے تندوری روٹی کے ساتھ کھایا۔۔ تو میں اور نصف بہتر تو ہوگئے دیوانے۔ استاد کوئی ذائقہ تھا؟ کماااااااااال۔ مرچیں وغیرہ کوئی نہیں تھیں بس ذائقہ تھا پایوں سے ملتا جلتا۔
خیر اب پچھلے کئی دنوں سے میرا کچھ دھانسو آئیٹم پکانے کا ویسے ہی شدید موڈ ہو رہا ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ کچھ راتوں سے کام کاج کے بعد میں دیکھ رہا ہوں ٹکا کر کھابوں کی ویڈیوز۔ تو آج کھابے پھرولتے ہوئے وہی ایرانی ڈش یاد آئی۔ تھوڑا کھنگالا تو معلوم ہوا اس پکوان کا نام "کلہ پاچہ" ہے جو شاید "کلے" یعنی گال اور پائے کا کوئی ویرئینٹ ہے (واللہ اعلم)۔ مزید یہ کہ اپنی اصلی حالت میں یہ ڈش اچھی خاصی خوفناک شکل رکھتی ہے یعنی سیدھی سیدھی بکرے یا دنبے کی سالم سری۔ مزید یہ کہ ایران میں کھائی جائے تو آپ کو آنکھیں چبانے کو بھی مل جائیں گی۔
یہاں میں نے چینی لحم فروشوں کو کئی جگہ سور کی سالم پکی پکائی سری بیچتے تو دیکھا ہے مگر بکرے دنبے کی نظر نہیں آئی۔ اب ایسا کیوں ہے یہ نہیں معلوم۔
خیر جو بھی ہو۔۔ ابھی یہ سطور لکھتے ہوئے یہ کلہ پاچہ کھانے کا شدید موڈ ہو رہا ہے۔ یہ ویسے بھی شاید علی الصبح چار پانچ بجے کھائی جاتی ہے یہ بھی اسی ایرانی لحم فروش بھائی نے بتایا تھا۔ گوگل پر کافی سرچ کیا، بدقسمتی سے کسی ایرانی ریسٹورینٹ پر موجود نہیں۔ سری مل بھی جائے تو خود بنانے کی تو ہمت نہیں۔ بہرحال جو بھی ہو، ابھی تو سوکھا سوکھا سونا پڑے گا۔ صبح اٹھ کر لحم شریف کی شامت آنے والی ہے انشاءاللہ۔