فرض کیجئے آپ براستہ سمندر بحری جہاز کے ذریعے کئی ماہ کا سفر کرکے ایک جگہ پہنچتے ہیں۔ یہاں پہنچتے ہوئے بحری جہاز میں موجود سینکڑوں لوگوں میں سے کچھ ایک کرونا قسم کی کسی contagious بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا علاج تاحال دریافت نہیں ہوا۔ یہ بیماری تکلیف دہ بھی ہے اور پھیلنے والی بھی۔
اب جیسے ہی آپ اس جگہ پہنچتے ہیں آپ کو آپ کی فیملی کے دیگر صحت مند ممبران سے الگ کرکے ایک قید خانے میں لے جایا جاتا ہے۔ اس قید خانے میں آپ کی قومیت کے حساب سے آپ کو پہلے دوسرے تیسرے یا تیسرے درجے سے بھی کسی نچلے درجے کا حصہ بنا کر اسی حساب سے قید کی سختیاں آپ کے لیے تیار کر دی جاتی ہیں۔
اب آپ اس قید میں کبھی اپنے اہل و عیال کو یاد کرکے روتے ہیں، کبھی اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر روتے ہیں۔ آپ ماضی کو یاد کرکے کوئی نظم لکھنا چاہتے ہیں کسی پیارے کا نام لکھنا چاہتے ہیں مگر یہاں تو کوئی کاغذ قلم بھی دستیاب نہیں۔ آپ مجبورا ایک چھوٹا نوک دار پتھر اٹھا کر اس کے ذریعے ایک بڑے پتھر پر اپنی یادیں کندہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہر کچھ دنوں یا ہفتوں بعد ایک ڈاکٹر آپ کا معائنہ کرنے آتا ہے۔ آپ خود کو بیشک صحت کی جانب رواں مانتے ہوں، ڈاکٹر کو آپ ابھی بھی بیمار لگ رہے ہیں۔ یوں یہیں رہنا آپ کا ایک لمبے عرصے مقدر بن جاتا ہے۔
پھر ایک دن یہیں پڑے پڑے سڑتے گلتے۔۔ آپ مر جاتے ہیں۔ مرنے کے آپ کی لاش کو ایک بار پھر قومیت کی بنیاد پر ایک الگ تیسرے درجے کے قبرستان میں دفنا دیا جاتا ہے۔
آپ کے مرنے کے دو سو سال بعد اس قید خانے کو تاریخی اہمیت کی حامل سائیٹ کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اب تک کچھ قبرستان موجود ہیں، کئی قبریں بے نام ہیں اور پھر بہت سی گمنام قبریں اپنے دوبارہ سے دریافت ہونے کی منتظر ہیں۔ آپ دنیا سے جا چکے ہیں مگر وہ جو آپ نے اپنے پیاروں کے لیے پتھروں پر یادیں بنائی تھیں وہ اب بھی آس پاس موجود ہیں۔ آپ کی قبریں بھی آس پاس ہی موجود ہیں۔ اب اس جگہ بھوت پریت اور آسیب کی موجودگی مشہور ہے۔ یہاں ghost tours ہوتے ہیں۔ اب یہاں ہوٹل بن چکا ہے۔
اور اس ہوٹل کے ایک کمرے میں معاذ صاحب رہ رہے ہیں۔۔
لیکن معاذ صاحب کو آپ سے بالکل خوف نہیں آرہا۔۔ اگر کسی سے خوف آرہا ہے تو وہ کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھی تین عدد انتہائی خوبصورت، نوجوان، قلیل لباس، پرپیچ و خم خواتین سے آرہا ہے جو رات کے ڈیڑھ بجے بھی باہر بیٹھیں ٹھٹھے لگا رہی ہیں اور جن میں سے ایک کے خیال سے وہ ایک Princess ہے (جس سے باچیز اصولی طور پر متفق ہے)۔۔
خواتین و حضرات۔۔ یہ ہے نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا کا نارتھ ہیڈ کوارنٹائن سٹیشن، جو آج کیو سٹیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کامن ویلتھ آف آسٹریلیا میں بنایا گیا اپنی طرز کا پہلا کوارنٹائن سٹیشن تھا جو باہر سے آنے والے خسرہ، ہیضے یرقان وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
اب یہاں گھوسٹ ٹورز ہوتے ہیں، ہوٹل ہے اور ہوٹل میں میرے کمرے کے باہر تین عدد نوخیز خواتین اور جتنی حسین یہ خواتین تھیں۔۔ میرا خیال ہے پاؤں الٹے بھی ہوں تو بھی کوئی بڑی بات نہیں۔