وقت کے ساتھ ساتھ طبیعت میں ٹھہراؤ ضرور آنے لگتا ہے، چند یادیں البتہ اضطراب کی کیفیت سے بہرحال دوچار کر دیا کرتی ہیں۔ آج کا دن کچھ ایسی ہی یادیں تازہ کر دیا کرتا ہے۔ آج 28 جون ہے۔ آج سے گیارہ برس قبل آج کے دن میں نے پہلی صدیقی صاحب کی جلالی شخصیت کو ایسی حالت میں تصور کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی سوچا نہیں تھا۔ میں نے کبھی چشم زدن میں اپنے والد کو بے جان نہیں دیکھا تھا۔ ظاہر ہے ایسی کوشش کرتا بھی کون ہے۔ پھر مگر مجھے ناصرف زندگی سے عاری انہیں دیکھنا پڑا بلکہ اس کے چند گھنٹوں بعد انہیں زمین کے حوالے بھی کرنا پڑا۔ اس دن پہلی بار احساس ہوا کہ اپنے قریب ترین رشتے کو بے جان ہوتا دیکھ کر اپنی جان کیسے نکلنے کے قریب آن پہنچتی ہے۔
میں بہت سوچ سمجھ کر اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں کسی بھی انسان کے ساتھ معاملات ہر لمحے اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر طے کرنے چاہیے ہیں۔ آپ کا دوست آپ کو غیر متوقع رویہ کیوں دکھا رہا ہے، یہ سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ وہ کن حالات سے دوچار ہے۔ پھر یہ ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ کیا آپ ان حالات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں یا نہیں۔ کسی کا ردعمل سمجھ میں نہ آنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے پاس اس سے متعلق معلومات سو فیصد موجود نہیں۔ ان معاملات میں ابھی اس لمحے سے لے کر اگلے کی پیدائش سے لے کر آج تک کی کنڈیشننگ اور اس کنڈیشننگ کا بندے پر اثر بھی شامل رہتے ہیں۔
ہم سے پچھلی نسل کی کنڈیشننگ اس سے قدرے مختلف ہوئی جس میں ہماری، بالکل ویسے ہی جیسے ہماری اولاد کی کنڈیشننگ ہماری تربیت، ہمارے معاشرے سے بہت مختلف ہے۔ یہ بات مجھے نوجوانی میں سمجھ نہیں آتی تھی۔ کیوں نہیں آتی تھی یہ بات بہت عرصے تک مجھے سمجھ نہ آئی۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ جس وقت مجھے بہت غصہ آتا تھا، میں الٹے سیدھے فیصلے الٹی سیدھی باتیں سیدھا دوسروں کے منہ پر کر دیا کرتا تھا، اس دور میں میرے دماغ کا ایک حصہ pre-frontal cortex اپنے ارتقاء کے مرحلے میں تھا۔ دماغ کا یہ حصہ وہی ہے جو جذبات اور غصے پر قابو، منصوبہ بندی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس عمر میں اپنے والد کے ساتھ میرے تعلقات مثالی نہیں رہے۔ اس کا ذمہ دار میرا فہم کے اعتبار سے سمجھدار نہ ہونا ہے یا میرے والد کو اس بارے میں معلومات کا نہ ہونا، مجھے نہیں پتہ۔ اب مجھے بس یہ معلوم ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک اس کا قصوروار نہیں، یا شاید قصور ہم دونوں ہی کا نہیں۔ ہاں مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ مجھے یہ باتیں اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہوئے اس مرحلے میں پہنچ کر ذہن میں رکھنی ہیں۔
میں جیسے جیسے سکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی اور پھر پروفیشنل لائف میں جاتا رہا معاملات کبھی خوشی کبھی غم کے مصداق بس چلتے ہی رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ طبیعت کے ساتھ ساتھ معاملات زندگی میں بھی ٹھہراؤ آنے لگا۔ کہتے ہیں پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ کیا یہ درست ہے؟ پتہ نہیں۔ پیسہ البتہ کافی کچھ ضرور ہوتا ہے۔ میری زندگی پلٹ دینے والے دو واقعات یکے بعد دیگرے برپا ہوئے۔ فروری 2013 میں مجھے دبئی میں ملازمت ملی۔ خوشی تھی کہ چلو اب حالات ہر طرح سے بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ابتداء ہوچکی تھی۔ پھر چار ماہ بعد والد صاحب اچانک ایک شام فوت ہوگئے۔ یہ میری کایا پلٹ دینے والا دوسرا واقعہ تھا۔
اور یہاں سے آغاز ہوا رنج و الم اور کرب کا ایک دور، اذیت کا ایک عالم اور یہ اذیت تھی guilt کی۔ میں اپنے ابا کو وہ خوشیاں دینے سے پہلے انہیں کھو بیٹھا جو میرا فرض اور ان کا حق تھیں۔
ٹراما trauma آپ کو بہت ساری غلطیاں مان لینے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ ان میں وہ غلطیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو واقعتا آپ کی زندگی کی سی وی میں آپ کے سر ہوتی ہیں، اور وہ بھی جو آپ کسی کو کھو دینے کے بعد اسے مٹی میں دفنانے کے بعد اس سے محبت یا ہمدردی یا کسی اور جذبے کے زیراثر اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ٹراما کے بعد ایک اور اہم مسئلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ آپ زندگی کے مثبت زاویوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ زندگی کی ہر منفیت اور اس کی اذیت سے تسکین کشید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دکھ آپ کو پرکشش دکھائی دینے لگتا ہے۔
سانحہ آپ کی زندگی کے رنگ ختم کرکے اسے بس monotonous بنا دیا کرتا ہے۔
میں سات یا شاید آٹھ برس ایک اذیت میں مبتلا رہا۔ یہ اذیت مجھے تسکین بھی دیتی رہی۔ ایک جانب زندگی خوبصورت سے خوبصورت ہو رہی تھی تو دوسری جانب پرانے زخموں سے خون لگاتار رس رہا تھا۔ مجھے ہر پرانی لڑائی کا ولن اپنی ذات میں نظر آتا۔ میں اپنی نظر میں اپنے ماضی کا مجرم تھا مگر زندگی تھی کہ بہتر سے بہتر ہو رہی تھی۔ اس بہتری کو نظرانداز کرنے کے لیے مجھے اپنی منفیت پر مزید محنت کرنی پڑ رہی تھی، جس میں کامیابی بھی خوب تھی۔ بس ایک مسئلہ تھا۔
میں ہر دوسری رات خواب میں ابا کو دیکھتا، اب بھی دیکھتا ہوں۔ میں نے انہیں خواب میں جب بھی دیکھا، خوش دیکھا، میری یا میرے بچوں کی مدد کرتے دیکھا، کسی خوبصورت سفر میں دیکھا۔ میں نے انہیں ان کے جانے کے بعد جب دیکھا مثبت دیکھا۔
دوسری جانب میرے بچے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو پالا تو شاید ویسے ہی ہو جیسے سب پالتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں، مگر اس کے بڑے ہونے کا، اس کے سیکھنے کے عمل کا، اس کے ردعمل دینے کا، اس کے جذبات پروان چڑھنے کا۔۔ ان سب چیزوں کا بہت بہت بہت شوق سے مشاہدہ کیا ہے۔ پھر میرے بڑے دونوں بچے بچپن سے لڑکپن میں داخل ہونے لگے تھے۔
گویا میرے بچے اسی مرحلے میں داخل ہونے لگے تھے جہاں کبھی میں تھا۔ گویا میں اب اسی امتحان میں داخل ہونے لگا تھا جہاں کبھی میرے ابا تھے۔
فرض کیا بچوں کو پڑھنے کا کہا جا رہا ہے۔ بچوں کا پڑھنے کو دل نہیں کر رہا۔ اب میں کیا کروں گا؟ میرے ساتھ ایسی ہی سچویشن میں کیا ہوا تھا؟ اور جیسا ہوا تھا کیوں ہوا تھا؟ کیسا ہونا چاہیے تھا؟ فرض کریں بچوں کو پی ایس فائیو چاہئے ہے مگر میری مالی حالت اس وقت ایسی نہیں ہے کہ خرید کر دے سکوں۔ اب میں کیا کروں گا؟ میرے ساتھ ایسے میں کیا ہوا تھا؟ جو ہوا تھا کیوں ہوا تھا؟ کیسا ہونا چاہیے تھا؟
مکرر عرض ہے۔۔ میں بہت سوچ سمجھ کر اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں کسی بھی انسان کے ساتھ معاملات ہر لمحے اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر طے کرنے چاہیے ہیں۔ آپ کا دوست آپ کو غیر متوقع رویہ کیوں دکھا رہا ہے، یہ سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ وہ کن حالات سے دوچار ہے۔ پھر یہ ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ کیا آپ ان حالات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں یا نہیں۔ کسی کا ردعمل سمجھ میں نہ آنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے پاس اس سے متعلق معلومات سو فیصد موجود نہیں۔ ان معاملات میں ابھی اس لمحے سے لے کر اگلے کی پیدائش سے لے کر آج تک کی کنڈیشننگ اور اس کنڈیشننگ کا بندے پر اثرات بھی شامل رہتے ہیں۔
میں اپنی اولاد کے ساتھ معاملات کا تجزیہ کرنے لگا۔ ان معاملات کا اپنے دور میں اپنے والد کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے وجوہات تلاش کرنے لگا۔ اور پھر وجوہات ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں اس سوال پر پہنچا کہ میرے والد کا اپنے ابا کے ساتھ تعلق کیسا گزرا۔ مجھے ایک ہنٹ ملا۔
میرے ابا بہت چھوٹی عمر میں لڑکپن سے پہلے میرے دادا کو کھو چکے تھے۔ اس کے بعد دادی نے انہیں کیسے پالا سن گن کے مطابق یہ ایک الگ کہانی ہے۔ باپ بچوں کو کیسے ڈیل کرتا ہے، میرے ابا کے پاس اس کا نہ تجربہ تھا نہ مشاہدہ۔
اور یہ دل توڑ دینے والا نکتہ تھا۔
مجھے اپنے ابا کی سمجھ آنے لگی۔ مجھے ان کے ہر فیصلے کو لے کر اس کے پیچھے منطق سمجھ آنے لگی۔ مجھے سمجھ آنے لگا کہ ان کے طریقہ کار سے مجھے اختلاف ہوتا۔ مجھے اختلافات حل کرنے کے لیے پرامن مذاکرات کا نہ ہونا سمجھ آنے لگا۔ اپنی اولاد کو کیسے ہینڈل کرنا ہے مجھے سمجھ آنے لگا۔ انا کہاں کیسے ٹرگر ہوتی ہے مجھے دکھائی دینے لگا۔ انا کو مار دینا لانگ ٹرم میں کس قدر فائدہ مند ہو سکتا ہے مجھے اندازہ ہونے لگا۔
میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت بہت lenient ہوں۔ اتنا کہ میری نصف بہتر کو اس سے اختلاف رہتا ہے۔ کیوں رہتا ہے؟ اس لیے کہ میرے سسر میری بیگم کے بچپن میں فالج میں مبتلا ہو کر کلام کرنے کی اہلیت سے قاصر ہوگئے تھے۔ جس تجربے سے میرے ابا گزرے تھے، میری بیگم اس سے ذرا بہتر مگر اسی نوعیت کے مسئلے سے گزر چکی ہیں۔ مجھے کافی کچھ سمجھ آنے لگا۔ ہاں بیگم صاحبہ مذہب کو چھوڑ کر کئی اختلافی معاملات میں میری سمجھ کو اپنی سمجھ پر ترجیح دیتی ہیں یہ ان کی مہربانی اور شاید ہماری محبت ہے۔
دو تین سال پہلے میں نے بتدریج خود کو معاف کرنا شروع کر دیا۔ میں جو زندگی کی خوبصورتی کو جانتے بوجھتے نظر انداز کرتا تھا، نے واپس رنگ acknowledge کرنا شروع کر دیے۔ مجھے زندگی پھر سے خوبصورت لگنے لگی۔ شاید پہلی بار اتنی خوبصورت جتنا پہلے کبھی نہ لگی تھی۔ ٹراما انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ شاید ایک اہم ترین چیز جو میں نے سیکھی وہ یہ کہ اپنے جذبات کو چھپانا کیسے ہے، دل کی باتیں دل تک کیسے رکھنی ہیں۔ باہر نکالنی ہیں تو کب، کس کے سامنے کرنی ہیں۔ بندہ شناسی میں کسی حد تک مہارت ہونے لگی۔ مجھے اپنے سابقہ "جرم" بھی بس فیصلے کی صورت میں دکھائی دینے لگے۔ وہ فیصلے جو زمان و مکان کے کسی موقع پر مخصوص حالات کے مطابق، ابا کی اور اپنی کنڈیشننگ کے مطابق میں نے بس لے لیے۔
آج میں ماضی کی اس لڑائی کے ساتھ امن میں ہوں۔
اب میں اپنے ابا کے ساتھ گزرے حسین لمحے یاد کرتا ہوں اور اپنی اولاد کے ساتھ انہیں دوبارہ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہم بھائی ابا کے ساتھ مچھلی کے شکار پر جایا کرتے تھے۔ پشاور کے ماحول میں یہ مشغلہ مردوں تک محدود تھا۔ آج میں اپنی بیگم بچوں سب کو لے کر فشنگ پر جاتا ہوں۔ کئی کئی گھنٹوں پر مبنی اس سرگرمی کے دوران میں اپنے ابا کے ساتھ گزرے لمحے دوبارہ تخلیق کرتا ہوں۔ اس دوران مجھے اپنی ذات میں اپنا باپ نظر آتا ہے، اپنی اولاد میں معاذ نظر آتا ہے۔ میرے ابا ان لمحوں میں گلبرگ میں واقع اپنی قبر سے اٹھ کر دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں۔
وہ مجھ میں سما جاتے ہیں۔
میں اپنی اولاد کے ساتھ بہت اوپن ہوں۔ مجھے اپنے ابا کی یہ بات بھی بہت خوبصورت لگتی تھی۔ آج ہم باپ بچے کسی بھی موضوع پر بات کر سکتے ہیں۔ ہم LGBTQ پر بہت سکون سے بات کر لیتے ہیں۔ ہم گالیوں سے بھرپور Snoop Dogg، 50 Cent، Eminem، Nicki Minaj کے گانے اکٹھے سن لیتے ہیں۔ مجھے اپنے دوستوں سے گپ شپ لگاتے ہوئے کبھی اس بات کو خاطر میں نہیں رکھنا پڑا کہ ارحم میرے ساتھ بیٹھا ہے۔ مجھے اپنے ابا کی یہ بات بھی بہت پسند تھی۔
He used to be so open، and I just loved that.
میرے ابا کی وفات 28 جون 2013 کو ہوئی۔
کہتے ہیں وہ مر گئے۔ میرا خیال اس سے الگ ہے۔ میرے نزدیک وہ زندہ ہیں۔ وہ میرے اندر زندہ ہیں۔ وہ میرے خوابوں میں زندہ ہیں۔
صدیقی صاحب میری شکل میں زندہ ہیں۔
28 جون 2013 ہی کے روز بھٹی صاحب کے والد بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ میرے لیے وہ بھٹی صاحب کی صورت زندہ ہیں۔
یہ الفاظ ہر اس شخص کے نام ہیں جو کسی بھی ٹراما کے بعد کسی گلٹ میں ہے۔ گلٹ دیمک کی طرح آپ کو کھا جاتا ہے۔ مانا کہ زندگی بہت تیز ہے مگر۔۔ دو گھڑی رکیے، بیٹھیے، دو گھونٹ پانی کے لیجئے۔
اور خود سے صلح کر لیجیے۔
زندگی خوبصورت ہے۔ آپ خوبصورت ہیں۔ میں خوبصورت ہوں۔ میرے ابا خوبصورت تھے۔