ہمارے معاشرے میں والدین اور اولاد کے درمیان ادب اور تعظیم کا ایک ایسا سمندر دیکھا جاتا ہے کہ جس میں پھنس کے دونوں پارٹیاں کھل کے محبت کا اظہار بھی نہیں کر پاتیں۔ محبت کے اس عدم اظہار کے باعث شاید اولاد کو اپنی زندگی میں محبت کا جھوٹا یا سچا اقرار کرنے والی پہلی ذات میں وہ سب نظر آنے لگتا ہے جو وہ شعوری یا لاشعوری طور پہ والدین میں نہیں دیکھ پاتے۔ نتیجتاً نو عمری میں ملنے والی "پہلی محبت" کے لیے دعاؤں کے بعد پیدا ہونے والی اولاد دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھوں سے بھڑ جاتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب والدین خاص کر کے باپ کے عادات و اطوار اتنے پختہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں بدلنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں والدین کو جب Due Respect نہیں ملتی اور اولاد ان کی امیدوں کے برخلاف بغاوت پہ اترنے کو تیار ہوتی ہے تو اناؤں کی ایک لامتناہی جنگ کا آغاز ہوتا ہے جس میں جیت کسی کا مقدر نہیں بنتی۔ دونوں فریقین ایک دوسرے سے بڑھ کے نقصان اٹھاتے ہیں یہ جانتے بوجھتے بھی کہ جس سے لڑ رہے ہیں وہ بھی اپنے ہی جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ ایسے حالات میں قسمت والے ہی اپنی انا کو والدین یا اولاد کے عشق کے حق میں قربان کر کے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد اپنی غلطی پہ ندامت کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ایک باپ کا بیٹا اور ایک بیٹے کے باپ ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کی ایسے حالات میں غلطی کسی ایک کی نہیں بلکہ عموماً دونوں کی ہی ہوتی ہے۔ انا کی جنگ میں قربانی دینے والے قسمت کے دھنی والدین بھی ہو سکتے ہیں اور اولاد بھی کیونکہ اس جنگ میں بہرحال دونوں ہی غلطی پہ ہوتے ہیں۔ اصل فاتح انا قربان کرنے والا قرار پاتا ہے۔
والدین سے محبت کے اظہار کے راستے میں بسا اوقات معاشرتی اقدار بھی حائل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ باپ کے سامنے بیٹے اور اس کے دوستوں کا عموماً بات کرنے سے گریز کیا جانا، دلیل ہونے کے باوجود والدین سے اختلاف کا اظہار نہ کرنا، کسی بھی معاملے میں اپنی پسند یا ناپسند کو واضح نہ کرنا وغیرہ ادب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ انسان عمر کے ساتھ ساتھ اپنی عادات پختہ کرتا چلا جاتا ہے تاہم یہ پختگی کسی انسان میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ انسانوں میں یہ پختگی ان کے حلیم اور بردبار ہونے کہ نشانی سمجھی جاتی ہے جبکہ کچھ میں اسے ضد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب نو عمری میں انسان فیصلے کرنے میں عموماً جلدی کرتا ہے اور میلان میں جلدبازی قدرتی طور پہ پائی جاتی ہے۔ نو عمری اور ادھیڑ عمری میں یہی فرق دراصل بہت سے مسائل کا جڑ ہوتا ہے۔ نوعمر حضرات کوشش کیا کریں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں جلدی نا کریں بلکہ حتی الامکان اس پہ مزید سوچیں۔ دوسری جانب ان والدین سے جن کے بچے ابھی چھوٹے ہیں، میری درخواست ہے کہ اپنی اولاد کو اپنا دوست بنائیں۔ ان سے زیادہ سے زیادہ باتیں کیا کریں، ان کی سوچ جانیں، ان کا اپنی رائے سے اختلاف سامنے لائیں اور انہیں مثبت بحث کی تربیت دیں۔ آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ اپنے فیصلے صادر کرنے کہ بجائے اپنی زوجہ اور اولاد کے سامنے معاملہ رکھ کے ان کہ رائے لینے کا رواج ڈالیں بصورت دیگر آپ کی اولاد ایک سختگیر آمرانہ طبیعت کی مالک ہو جائے گی جو نہ آپ کے لیے اچھا ہے نہ ان کے اپنے لیے اور نہ ہی معاشرے کے لیے۔
معاشرتی روایات ہمیں ورثہ میں ملتی ہیں۔ ان میں سے کئی اچھی اور کئی بری بھی ہوتی ہیں۔ والدین سے اظہار محبت کے سلسلے میں ہمارے ملک کی روایات فی الوقت اس مقام پہ نہیں پہنچ سکی جہاں ہم والدین کو ان کی زندگی میں کھل کے ہیپی فادرز ڈے تک کہہ سکیں۔ تعظیم کا ایک خلا ہے جسے پار کر کہ ہم۔ میں سے کئی لوگ والدین سے محبت کا اظہار تک نہیں کر پاتے۔ اگر آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو ابھی اپنی فیس بک کھولیے اور پچھلے فادرز ڈے کے دوران ٹائم لائن پر طائرانہ نگاہ ڈالیے اور محسوس کیجیے کہ فادرز ڈے وش کرنے والے کتنے لوگوں کے والد حیات ہیں اور کتنوں کے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ جن کے والد حیات ہیں ان میں سے کتنوں نے محض فیسبک پہ ہیپی فادرز ڈے کیا اور کتنے اپنے والد کو اس موقع پہ کہیں باہر لے کر گئے یا کوئی تحفہ ان کے نام کیا۔
والدین 200کلومیٹر فی گھنٹہ ک رفتار سے چلنے والی اس مرسیڈیز کی مانند ہوتے ہیں جو باہر پڑنے والی گرمی و دھوپ یا بارش سے لے کر سڑک کی ناہمواری تک کا اثر اپنے آپ تک رکھ کر ہمیں ایک پر سکون ائر کنڈیشنڈ زندگی کا گماں دیتے ہیں۔ ان کی رحلت اسی مرسیڈیز کا اچانک کسی دیوار سے ٹکرا جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے لیکن خدا کی قسم اپنے والد کو قبر میں اتارتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سے برا وقت انسان پہ کیا آسکتا ہے کہ جس میں انسان اپنے پیارے کو لحد کے حوالے کر کے اس پہ اپنے ہاتھ سے مٹی ڈالتا جائے۔
اللہ تعالى ہم سب کو اپنے والدین کی زندگی مین ان سے محبت کا کھلا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اسی میں ان کی خوشی اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔