چند دنوں سے میں متواتر خود سے ایک سوال پوچھ رہا ہوں کہ ایک اچھا تجزیہ یا چلیں اچھے کو بھی چھوڑ دیں، ایک تجزیے کے اوصاف کیا ہو سکتے ہیں۔ ہم کس بنیاد پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ ایک معیاری تجزیہ ہے اور یہ ایک غیر معیاری تجزیہ؟ یہ بات تو طے ہے کہ ہم اپنے اپنے تعصبات کے کافی حد تک اسیر ہیں۔ فری ول بذات خود ایک الگ اور وسیع بحث ہے۔ تاہم تعصب یا بائس سے چھٹکارے کی کوشش میں کوئی برائی نہیں۔ گویا ایک معاملہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے کسی تعصب کے زیراثر ایک تجزیہ اچھا لگے اور دوسرا برا لگ جائے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ، لیکن اگر بات تجزیہ کاری کی ہو تو ایک تجزیے کے اوصاف اور خصوصیات کیا ہونے چاہئیں جس کی بنیاد پر آپ کسی تجزیہ نگار کو حتی الامکان جانبدار، تعصب سے پاک اور مناسب قرار دیں؟
آج یہی کوشش کرنی ہے اور چند خصوصیات نکال کر سامنے رکھنی ہیں جن کی بنیاد پر آئیندہ کسی تجزیہ نگار کا تجزیہ بطور تجزیہ معیاری یا غیر معیاری ہونے پر فیصلہ کیا جا سکے۔ اچھا برا آپ کا اپنا فیصلہ تاہم ایک معیاری تجزیے کی خصوصیات کیا ہونی چاہیے ہیں، اس پر میری معلومات کچھ یہ ہیں۔
میرے نزدیک ایک اچھے تجزیے کا سب سے پہلا وصف اس میں موجود حقائق کا درست ہونا یا نہ ہونا ہے۔ مثلاً آپ پینتیس پنکچر کو بنیاد بنا کر یا اسے درست مان کر جو بھی تجزیہ کریں گے اس کی بنیاد ہی ٹیڑھ پن کا شکار ہوگی لہذا سارا تجزیہ الفاظ کی جگالی سے بڑھ کر کوئی معنی نہیں رکھے گا۔ مثلاً چاند پر جانے والے پہلے شخص نے اسلام قبول کر لیا کی بنیاد پر اسلام بطور تیز ترین پھیلنے والا مذہب کسی کو اچھا یا برا ضرور لگ سکتا ہے، ہم اسے معیاری نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً ہم اوریا مقبول جان کی جانب سے نبی کریم ص کے جرنل باجوہ سے متعلق خواب کو بنیاد بنا کر جو بھی تجزیہ کریں گے وہ اس دور کے وردی پرستوں کو بھلے ہی جتنا ایمان افروز محسوس ہوا ہو، ایسا تجزیہ معیاری نہیں مانا جا سکتا۔ اب یہاں کافی گمبھیرتا یوں پیدا ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں فیک نیوز ایک حقیقی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کہ اس بنیاد پر ہم کسی مبینہ تجزیہ نگار کو کھلی چھوٹ دے دیں کہ وہ کسی بھی بات یا خواہش کو خبر بنا کر اس بنیاد پر پورا تجزیہ گھڑ دے۔ اس کی ایک مثال عادل راجہ نامی شخص ہے جو کسی بھی بے سر و پا بات کو حقیقت کا درجہ دے کر پورے پورے وی لاگ شائع کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
یہاں ایک اہم طریقہ واردات جس پر میں بار کرنا چاہوں گا وہ "ہمارے ذرائع" ہے۔ آپ کسی مہذب معاشرے میں ہوتے تو ذرائع کے نام پر کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ دینے پر معاملہ عدالت جاتا تو یا آپ کو اپنے ذرائع سامنے لانے پڑتے یا سزا بھگتنی پڑتی۔ بدقسمتی سے ہم اخلاقیات کے دعوے دار ضرور ہیں، زمینی حقائق اس کے یکسر برعکس ہیں۔ لہذا جب جب آپ "ہمارے ذرائع" کے بعد کوئی بات کہیں گے اصولا مجھے معیار کی مارکنگ میں آپ کا ایک پوائینٹ کاٹ دینا چاہئے الا یہ کہ وہ ذرائع عوامی سطح پر کامن نالج نہ ہوں۔ یہاں سے آگے میرا اور آپ کا تعصب حرکت میں آتا ہے کہ ہم کسی تجزیہ کار کے لیے نیک خواہشات و جذبات رکھتے ہیں یا منفی۔ "ہمارے ذرائع" کی بنیاد پر ایک تجزیہ کار کسی معاملے پر اپنی رائے تو قائم کر سکتا ہے تاہم وہ اسے دلیل بنا کر قارئین و ناظرین کو حتمی فیصلے پر پہنچنے کی امید نہیں رکھ سکتا۔ یہ مسئلہ تب زیادہ بڑا ہوجاتا ہے جب "ہمارے ذرائع" کو بنیاد بنا کر تجزیہ کار ایک رائے پیش کرتا ہے اور پھر اس رائے کے خلاف جانے والوں کو منفی مان کر اگلے تجزیے میں استعمال کرتا ہے۔
تجزیے کا معیار طے کرنے کے لیے اگلی خصوصیت غیر جانبداری ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے درمیان خود کو دل سے جانبدار ترین ماننے اور پیش کرنے والے تجزیہ گار بھی غیرجانبداری کے لیے درکار معیار اور اہلیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تجزیہ نگار قاضی فائز عیسی یا ثاقب نثار کا ذکر کرتے ہوئے تین طنز ساتھ جوڑ دے تو اس کے تجزیے کا معیار صفر کی جانب نکل پڑتا ہے۔ جانبداری کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ کسی ایک کے حق ہی میں تجزیہ کیا جائے۔ تجزیے کے غیر جانبدارانہ ہونے کے لیے کسی معاملے میں ہمیشہ مخالفت کی لاٹھی کا استعمال بھی شمار کیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ٹیکسٹ بک صحافتی اقدار میں "تجزیے" کی حد تک ذاتی رائے شامل نہ کرنا یا حتیٰ الامکان کم سے کم رکھنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ لہذا ایک معیاری تجزیے میں غیرجانبدارانہ رویہ اہمیت کا حامل رہتا ہے۔ کسی ایک فریق کے حق میں جتنی زیادہ جانبداری یا دوسرے کے خلاف جتنی زیادہ مخالفت پر مبنی رائے نظر آئے، تجزیہ نگار اتنا ہی غیر معیاری اور غیر پیشہ ورانہ سمجھا جانا چاہیے۔
تجزیے کے معیار کا تعین کرنے کے لیے تیسرا پیمانہ تجزیے کا سیاق و سباق ہے۔ کسی بھی معاملے کا تجزیہ کرنے کے لیے اس معاملے کا بیک گراؤنڈ واضح طور پر سامنے رکھنا تجزیہ کار کی اصولی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر عدالت نے فلاں انسان کی زندگی کو پچاس سال قید کا فیصلہ دیا بظاہر ایک غیر معتدل فیصلہ نظر آتا ہے جب تک اس فیصلے کے پیچھے وجوہات اور تفصیل نہ بتائی جائے۔ مثلاً "عمران خان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا" اس شخص کے لیے الگ نوعیت رکھے گا جسے تحریک عدم اعتماد کی معلومات فراہم نہ کی گئی ہوں۔ پی ٹی ایم کے احتجاج کو بغیر احتجاج کے وجوہات کے تناظر میں پیش کرنا ایک غیر معیاری تجزیہ ہوگا۔ مثال کے طور پر ٹیکس میں اضافے پر تجزیہ کرتے ہوئے معاشی حالات پر بات نہ کیا جانا بغیر سیاق و سباق تجزیہ کہلایا جائے گا۔
ایک معیاری تجزیے کی ایک اور خاصیت اس میں مختلف و مخالف نقطہ نظر کا شامل ہونا اور انہیں بھی غیر جانبداری کے ساتھ پرکھنا ہوتا ہے۔ کسی بھی تجزیے میں متنوع رائے کا شامل ہونا دراصل پچھلی تینوں خصوصیات یعنی درست حقائق کی موجودگی، غیر جانبداری، اور سیاق و سباق کی مجموعی طور پر مہر ثبت کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ایک اور فقط ایک ہی رائے کو پکڑ کر اس کے حق یا مخالفت میں بات کرنا تجزیے کے غیر جانبدار، حقائق سے عاری اور سیاق و سباق سے محروم ہونے کی عکاسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاک بھارت تعلقات پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے صرف پاکستانی مؤقف پر بات کرنا ایسے تجزیے کو غیر معیاری بنا دے گا۔ اسی طرح مذہبی یا مسلکی معاملات پر بات کرتے ہوئے ہر دو فریق کی رائے پیش نہ کیا جانا ناصرف بددیانتی بلکہ غیرمعیاری تجزیے کی نشانی بھی ہوگی۔ سیاسی معاملات میں تجزیہ کرتے ہوئے صرف حکومت یا صرف حزب اختلاف کی رائے پر بات کرنا یا اسی کی تائید یا تنقید بھی تجزیے کے غیر معیاری ہونے کی نشانی ہے۔
تجزیے کے معیار کا تعین دیگر چند خصوصیات سے بھی ہوتا ہے جن میں معلومات کی شفافیت، تجزیے کا واضح ہونا، تجزیے کی مرکزی خیال سے مطابقت، اور تجزیے میں موجود خیالات و نکات میں دستیاب وضاحت شامل ہیں۔ تاہم ان پر بات پھر کبھی۔ مزید یہ کہ میری ذاتی رائے یہ بھی ہے کہ گہرائی، وضاحت اور مطابقت سے عاری تجزیہ ایک غیر معیاری تجزیہ ہو سکتا ہے تاہم ساڑ کی مطلوبہ اہلیت پر بہرحال پورا نہیں اترتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تجزیے، ساڑ اور فوطہ پرستی میں کیا فرق ہے؟
میرے خیال سے میں تو اس بارے میں واضح ہوں۔
ہر وہ تجزیہ ساڑ ہے جس میں۔۔
1۔ قطعیت موجود ہو
2۔ غیر جانبداری سے عاری ہو
3۔ سیاق و سباق ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا ہو
4۔ متنوع و مخالف رائے سے یکسر عاری ہو یا نخوت کے ساتھ ذکر کیا ہو
5۔ بین السطور کسی کے خلاف تواتر کے ساتھ رائے دستیاب ہو
ہر تجزیہ اتنا ہی معیاری ہوگا جس میں درج ذیل اوصاف موجود ہوں گے۔۔
1۔ قطعیت کم سے کم ہو
2۔ غیر جانبداری کا خیال رکھا جائے
3۔ سیاق و سباق زیادہ سے زیادہ شامل ہو
4۔ متنوع و مخالف رائے پر بات ہو
5۔ تجزیہ دیکھنے سننے یا پڑھنے والا آخر تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ تجزیہ کس کے حق یا مخالفت میں ہے