معاشرے میں فرد کا مثبت کردار: چند مثالیں
سوشل میڈیا اپنے ارتقائی عمل سے گزرتا ہوا دن بہ دن اپنی بلوغت کی جانب گامزن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فیس بُک کا مثبت استعمال اس کے منفی استعمال کو مات دیتا جا رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں پہ سرسری نظر دوڑائیں تو آپ کو سوشل میڈیا کی کوکھ سے جنم لینے والے کئی اہم اور مثبت پراجیکٹ نظر آئیں گے۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت اردو تحاریر و مصنفین کی تلاش میں ہوئی۔ مذکورہ بالا پراجیکٹس نے ہمیں معاشرے میں موجود چھپے ہیروں کی تلاش میں شاید ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ وجاہت مسعود صاحب نے اردو ویب سائیٹ "ہم سب" شروع کی تو کئی ایسے لوگ سامنے آئے جن کے قلم کا زور اس سے پہلے ذاتی بلاگز تک محدود تھا۔ ثاقب ملک کی توجہ کا محور "آرچر آئی" بھی فیسبک پہ موجود غیر روائیتی مگر خوبصورت انداز بیاں رکھنے والوں کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ آئی بی سی اردو بھی اس لسٹ میں بانیان کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں قاری و قرأت کا رشتہ شاید کمزور تو ہوا مگر مکمل طور پر ٹوٹا آج بھی نہیں۔ اس کا ثبوت بعد میں آنے والی ویب سائیٹس جیسے رعایت اللہ فاروقی صاحب کی "دلیل"، حیدر جاوید سید کی "قلمکار" اور ہمارے کھلنڈرے وکیل بابو جناب آنعام رانا کی "مکالمہ" ہیں جن کے قارئین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مزکورہ بالا اشخاص نے کسی بھی موقف کو رقمطراز کر کے اس سے اتفاق یا اختلاف کرنے والے کو قلمی جواب دینے کی دعوت دی ہے۔ اس طرح ان ویب سائیٹس میں لکھنے والے معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام حضرات کی خدمات فیسبک تک محدود تھیں البتہ ان میں سے ایک شخص نے فیسبک سے باہر نکل کی کچھ کرنے کی ٹھانی۔ اس شخص کا نام ثاقب ملک ہے اور ان کا کارنامہ سالانہ سیک سیمینار ہے۔ سیک سیمینار سوشل میڈیا کے ابھرتے لکھاریوں اور مین سٹریم میڈیا کے صحافیوں، مصنفین اور دیگر اکابر کا حقیقی دنیا میں اختلاط ہے جس کا مقصد متنوع افکار کا ایک کھلے ماحول میں ایک دوسرے سے ملنا ہے۔
آج کے دور میں جب معاشرے کے بگاڑ کے لیے شدت پسندی، ہیجان اور سنسنی جس قدر آسانی سے مہیا ہے، ایسے سرگرمیاں اتنی ہے مشکل اور نایاب بن چکی ہیں۔ یہ معاشرہ اور یہ کمیونٹی ہمیں بہت کچھ آفر کرتی ہے البتہ میرا سوالُ آپ تمام پڑھنے والوں سے ہے کہ آج کی اس مفاد پرستی پہ مبنی دنیا میں ہم اس کمیونٹی کو کیا مثبت واپس کر رہے ہیں؟ معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے۔ بحیثیت اس اکائی ہمیں ہمیشہ دوسروں سے شکایت رہتی ہے۔ آج آپ کسی راہ چلتے فرد کو روک کے پوچھ لیں کہ اسے معاشرے سے کیا شکایات ہیں، یقین کیجئے ایک انبار لکھ ڈالے گا۔ لیکن اسی شخص سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ ذاتی حیثیت میں بطور فرد معاشرے کی تصحیح کے لئے کیا اقدامات کر رہے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ مسئلہ کہاں ہے۔
ہم دو دوستوں نے آج سے 6 برس قبل معاشرے سے معدوم ہوتے کھیل کی موضوع کا انتخاب کیا اور اس کی بہتری کی جانب اپنا کردار ادا کرنے کا قصد کیا۔ تب نہ ہماری پاس کوئی بہت اعلیٰ نوکری تھی اور نہ ہی وقت۔ ہمیں دونوں جانب جدوجہد کر کے کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کرنا تھا۔ ہم نے پاکستان اور دیگر ممالک کی کرکٹ کا تقابلی جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ ہمارا کرکٹ بورڈ بھی دیگر اداروں کی طرح اقرباء پروری اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ دوسروں کی طرح ہم بھی "چل جانے دے یہ ہیں ہی ایسی قوم" کہہ کر آگے بڑھ سکتے تھے مگر ہم نے ثاقب کی طرح کچھ عملی قدم اٹھانے کی ٹھانی۔ ہم نے کرکٹ کی Grass Root کو پروموٹ کرنے کے لیے ایک ایسی ویب سائیٹ بنائی جہاں آپ کے شہر، گاؤں اور محلے کے کرکٹرز کا ٹیلنٹ سامنے لایا جائے۔ ہم نے وہ کام شروع کیا جو دراصل تھا تو پی سی بی اور ان کی ریجنل کمیٹیوں کا مگر وہ یہ کام کرتے تو ان کی بدعنوانی و اقرباء پروری سامنے آجاتی۔ ہم نے کلب کی سطح پہ کرکٹرز، ٹیمز اور میچز کی ایک وسیع ڈیٹا بیس بنائی جس میں پھلی کئی سال کا ریکارڈ موجود ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کچھ عرصے میں پاکستانی قومی ٹیم کے ہر کھلاڑی کا کلب ریکارڈ سامنے رکھ کے اس کی ٹیم میں شمولیت یا غیر موجودگی Justify کر سکیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم جلد ہی قوم کی توجہ اپنے شہروں کی کرکٹ کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ دن پی سی بی کے لوکل بدعنوانوں کی کرپشن کا آخری دن ہو گا۔
ہمارا مقصد معاشرے کی بہتری میں اپنا ادنیٰ سا کردار ادا کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے ہم اپنی ایک اور ہم خیال آرگنائزیشن "ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام" کے ساتھ مل کے ثاقب ملک جیسے ہم خیال کی سیک سیمینار جیسی کوشش میں اپنا غذا ڈال رہے ہیں۔ بحیثیت سیک سیمینار آفیشل سپانسرز ہماری آپ تمام قارئین دے گزارش ہے کہ کلب انفو اور سیک جیسی تمام کاوشوں کو اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا کر کامیاب بنائیں۔ ہمارا عزم ہی کہ ہم اپنے معاشرے کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس سے بہتر بنائیں گے جیسا ہم نے اسے پایا۔ شکریہ۔